ظلم کی بھوک: امیر کے کتے اور غریب کے بچے
شاعر کا یہ شعر محض لفظوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کے اندر چھپے ایک گہرے سچ کی عکاسی کرتا ہے: “روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی، فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا۔” یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمارے آس پاس ہر روز ہوتی ہے، لیکن ہم اکثر اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ایک طرف، وہ لوگ ہیں جو اپنے پالتو جانوروں کی خوراک، دیکھ بھال اور آرام پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں
اور دوسری طرف، انہی شہروں کی گلیوں اور کچی بستیوں میں بھوک اور افلاس سے بلکتے ہوئے بچے ہیں۔ یہ غیر منصفانہ تقسیم ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی اخلاقی اور دینی ذمہ داریوں پر دوبارہ غور کریں۔ خاص طور پر، اسلام نے دولت اور وسائل کی تقسیم کے بارے میں جو اصول وضع کیے ہیں، وہ اس ظلم کے مکمل خلاف ہیں۔
قرآن کا معاشرتی پیغام: دولت کی منصفانہ تقسیم
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے دولت کو صرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہونے سے منع فرمایا ہے۔ سورہ الحشر کی آیت نمبر 7 میں ارشاد ہے:
“كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ”
ترجمہ: تاکہ مال صرف تمہارے دولت مندوں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔
یہ آیت ایک واضح حکم ہے کہ وسائل کو تمام انسانوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے تاکہ معاشرے میں توازن قائم رہے۔ اسلام ایک ایسا نظام چاہتا ہے جہاں ہر فرد کو بنیادی ضروریات تک رسائی حاصل ہو، اور کوئی بھوکا یا ضرورت مند نہ رہے۔
دوسروں کی بھوک مٹانا صرف ایک نیک کام نہیں، بلکہ یہ ایمان کا ایک لازمی حصہ ہے۔ سورہ الانسان کی آیت نمبر 8 میں اہل ایمان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے:
“وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا”
ترجمہ: اور وہ اللہ کی رضا کے لیے مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ کھانا کھلانا صرف ایک انسانی فعل نہیں، بلکہ یہ اللہ کی محبت میں کیا جانے والا ایک عبادت کا کام ہے۔ یہ انفاق (خرچ کرنا) کی ایک اعلی مثال ہے جہاں اپنی ضرورت کے باوجود دوسروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
قرآن مجید نے ان لوگوں کی شدید مذمت کی ہے جو غریبوں کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے۔ سورہ الماعون میں فرمایا گیا ہے:
“أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ… فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ”
ترجمہ: کیا تم نے اس کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔
یہاں دین کو جھٹلانے اور غریب کو کھانا نہ کھلانے کے درمیان براہ راست تعلق قائم کیا گیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاشرتی انصاف کا احساس اور غریبوں کے ساتھ ہمدردی نہ رکھنا، درحقیقت دین سے دور ہونے کی علامت ہے۔
حدیث کی روشنی میں: ذاتی اور اجتماعی ذمہ داری
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات نے انسانیت پر رحم اور ہمدردی کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ ایک مومن کی پہچان صرف اس کی عبادتوں سے نہیں، بلکہ اس کے اخلاق اور معاشرتی رویوں سے بھی ہوتی ہے۔
صحیح بخاری میں ایک مشہور حدیث ہے:
“لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ”
ترجمہ: وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔
یہ حدیث ایک مومن کی ذمہ داری کو پوری طرح واضح کرتی ہے۔ یہ محض ایک اخلاقی نصیحت نہیں، بلکہ یہ ہمارے ایمان کی کسوٹی ہے۔ ہمارا ایمان تب تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کی بھوک اور تکلیف کا خیال نہ رکھیں۔ یہ ذمہ داری صرف حکومت یا کسی تنظیم کی نہیں، بلکہ ہر فرد کی ہے۔ اگر ہمارے پڑوس میں کوئی بھوکا ہے اور ہم اس کی مدد نہیں کرتے تو ہم اللہ کے حضور جوابدہ ہوں گے۔
مال اور وسائل کے بارے میں قیامت کے دن سخت سوال کیا جائے گا۔ سنن ترمذی کی ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے:
“لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: …وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ”
ترجمہ: آدمی قیامت کے دن اپنے رب کے پاس سے نہیں ہٹ سکے گا جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا جائے: …اور اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ ہمارے پیسوں کا ہر ایک روپیہ ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ مال صرف ہماری ذاتی ملکیت نہیں، بلکہ یہ ایک امانت ہے جسے ہم نے اللہ کی مرضی کے مطابق خرچ کرنا ہے۔ اگر ہم اپنا مال عیاشی اور فضول خرچی میں اڑائیں جبکہ ہمارے معاشرے میں لوگ بھوکے ہیں تو ہمیں اس کا حساب دینا پڑے گا۔
ایک اور حدیث میں جانوروں پر رحم کی مثال دی گئی ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں روایت ہے:
“عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ سَجَنَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ، لَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا سَقَتْهَا إِذْ حَبَسَتْهَا، وَلَا هِيَ تَرَكَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ”
ترجمہ: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا جسے اس نے باندھ کر رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی، اسی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوئی۔ نہ اس نے اسے کچھ کھلایا اور نہ پلایا جب اسے قید کیا، اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔
اگر ایک جانور کو بھوکا رکھنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس پر جہنم کا عذاب ہے، تو اندازہ کریں کہ انسان کو بھوکا رکھنے کا کیا انجام ہوگا؟ اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ رحم اور ہمدردی کی کوئی حد نہیں اور یہ صرف انسانوں تک محدود نہیں، بلکہ تمام مخلوقات کے لیے ہے۔
آج کے دور میں: تلخ حقیقت کا سامنا
آج ہماری سوسائٹی میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ بڑے شہروں میں، پالتو جانوروں کے لیے خاص طور پر تیار کردہ مہنگی ترین خوراک، فینسی ملبوسات اور مہنگے کلینک دستیاب ہیں، جبکہ انہی شہروں کی کچی بستیوں میں لاکھوں بچے بھوک اور بیماری سے لڑ رہے ہیں۔ یہ منظر اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔ ہمارے آقا ﷺ کے دور میں جب کوئی بھوکا ہوتا تو لوگ اپنے حصے کا کھانا بھی دے دیتے تھے۔ آج ہم اپنے پالتو جانوروں پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، لیکن ہمارے پڑوسی بھوکے سوتے ہیں۔
غربت اور ناانصافی کی وجوہات صرف رزق کی کمی نہیں، بلکہ ہمارے اپنے غلط رویے ہیں۔
لالچ اور حرص: ہم زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، اور ہمیں دوسروں کی ضرورتوں کی پرواہ نہیں ہے۔
زکوٰۃ کی ادائیگی میں غفلت: اگر مسلمان زکوٰۃ کا نظام صحیح طریقے سے نافذ کریں تو معاشرے میں کوئی غریب باقی نہ رہے۔
اسراف اور فضول خرچی: مہنگی پارٹیاں، غیر ضروری اشیاء پر خرچ، اور اپنے پالتو جانوروں پر زیادہ خرچ، جبکہ قریب ہی کوئی بھوکا مر رہا ہو۔
اسلام کا حل اور ہماری ذمہ داری
اسلام نے اس مسئلے کے حل کے لیے کئی طریقے بتائے ہیں۔
زکوٰۃ کا نظام: یہ دولت مندوں کے مال میں غریبوں کا حق ہے۔ یہ ایک عبادت بھی ہے اور ایک معاشی نظام بھی جو دولت کو گردش میں لاتا ہے۔
صدقہ و خیرات: نبی کریم ﷺ نے اس کو بھوک مٹانے کا بہترین طریقہ بتایا اور اس کی فضیلت پر زور دیا۔
اخوت و بھائی چارہ: اسلام چاہتا ہے کہ ہم ہر مسلمان کی بھوک کو اپنی بھوک سمجھیں اور ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔
اختتامیہ
شاعر کا یہ شعر ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ تو نہیں جو کتوں کو کھلاتا ہے اور بچوں کو بھوکا چھوڑ دیتا ہے؟ ہمیں اپنے طرزِ زندگی کو بدلنا ہوگا۔ فضول خرچی چھوڑ کر دوسروں کی ضروریات کا خیال کرنا ہوگا۔ یاد رکھیں، اگر ہمارے پڑوس میں کوئی بچہ بھوکا سو جائے اور ہم پیٹ بھر کر کھا لیں تو ہم کامل مسلمان نہیں ہیں۔
اللہ نے وسائل سب کے لیے پیدا کیے، لیکن انسانوں نے ان پر قبضہ جما لیا۔ اگر ہم اس ظلم کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں اسلامی اصولوں پر عمل کرنا ہوگا، ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ بھوک سے مرنے والے بچے اسی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں، یہ ہمارے ایمان اور انسانیت کا امتحان ہے۔