عشق کا سُرمہ

عشق کا سُرمہ عشق کا سُرمہ

عشق کا سُرمہ

عرش سے فرش تک بے حجاب نگاہ

جس کی آنکھ میں عشق کا سُرمہ لگا ہو، اس کی نظر پر عرش سے فرش تک کوئی حجاب نہیں رہتا۔ یہ محض ایک خوبصورت ادبی فقرہ نہیں، بلکہ ایک گہرا روحانی اور فلسفیانہ سچ ہے۔ یہ اس حالت کی عکاسی کرتا ہے جہاں انسان کا دل اور روح معرفت الٰہی میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ ظاہری پردے اور دنیاوی رکاوٹیں اس کی بصیرت کو دھندلا نہیں سکتیں۔ عشق کا یہ سُرمہ درحقیقت ایک ایسی روشنی ہے جو انسان کی باطنی آنکھ کو کھول دیتی ہے اور اسے کائنات کے ان رازوں سے پردہ اٹھانے میں مدد دیتی ہے جو عام نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔

عشق کی حقیقت

عشق، اپنی سب سے خالص شکل میں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اور لگاؤ کا نام ہے۔ یہ صرف ایک احساس نہیں بلکہ ایک سفر ہے، ایک کیفیت ہے جو انسان کو اپنی انا سے نکال کر لامحدود ذاتِ حق سے جوڑ دیتی ہے۔ جب انسان اس عشق میں ڈوبتا ہے تو اس کی ذات میں ایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ اس کی سوچ، اس کا عمل، اس کا ہر ایک لمحہ اس محبت کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ یہ عشق اسے دنیاوی آلائشوں سے پاک کرتا ہے اور اسے حقیقی سکون اور اطمینان کی راہ دکھاتا ہے۔ وہ دنیا کے شور و غل میں بھی ایک ایسی خاموشی محسوس کرتا ہے جو اسے اپنے خالق کے قریب لے جاتی ہے۔

سُرمے کی افادیت

لفظ “سُرمہ” یہاں استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ جس طرح سُرمہ آنکھوں کی بینائی کو تیز کرتا ہے اور انہیں روشن بناتا ہے، اسی طرح عشق کا سُرمہ انسان کی روحانی بصیرت کو جلا بخشتا ہے۔ یہ اس کی نظر سے شک، وسوسے، اور مادی دنیا کی کشش کے حجابات کو ہٹا دیتا ہے۔ جب یہ سُرمہ آنکھوں میں سما جاتا ہے تو انسان ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا جلوہ دیکھتا ہے۔ اسے کائنات کا ہر ذرہ اپنے خالق کی تسبیح کرتا نظر آتا ہے اور وہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی الٰہی نشانیوں کو سمجھنے لگتا ہے۔ یہ بصیرت اسے صرف دنیاوی چیزوں کی ظاہری شکل و صورت نہیں دکھاتی بلکہ ان کے باطن میں چھپے گہرے معانی اور مقاصد کو بھی سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

عرش سے فرش تک بے حجاب نظر

“عرش سے فرش تک” کا مطلب ہے پوری کائنات، تمام عالم۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک انسان عشق کے سُرمے سے اپنی آنکھوں کو روشن کرتا ہے تو اس کی نظر پر کوئی پردہ نہیں رہتا۔ وہ کائنات کے ہر حصے میں، چاہے وہ کتنی ہی بلند ہو یا کتنی ہی گہری، اللہ تعالیٰ کی نشانیاں دیکھتا ہے۔ اسے عرش پر جلوہ گر عظمت اور فرش پر پھیلی ہوئی قدرت کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

عرش پر نگاہ: عشق کی یہ بصیرت انسان کو اس مقام تک لے جاتی ہے جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت، کبریائی، اور بے مثال قدرت کا ادراک کر پاتا ہے۔ وہ صرف ظاہری طور پر عبادت نہیں کرتا بلکہ اس کی روح اپنے خالق کے جلال و جمال میں گم ہو جاتی ہے۔ اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ کس طرح یہ پوری کائنات ایک لا محدود حکمت کے تحت چل رہی ہے اور ہر شے اپنے رب کے تابع ہے۔

فرش پر نگاہ: یہ بصیرت اسے زمین پر پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیاں دیکھنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ وہ ہر درخت، ہر پھول، ہر پتھر، اور ہر جاندار میں خالق کی کاریگری کو دیکھتا ہے۔ اسے انسان کی تخلیق کے پیچھے چھپی حکمت، کائنات کے نظام شمسی کا کمال، اور فطرت کے حسن میں اللہ تعالیٰ کی لامحدود کاریگری نظر آتی ہے۔ اس کی نظر صرف سطحی خوبصورتی پر نہیں ٹھہرتی بلکہ وہ ہر شے کے پیچھے موجود الٰہی حکمت اور مقصد کو سمجھتا ہے۔

حجابات کا اُٹھ جانا

عام انسان کی نظر پر کئی حجابات ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا حجاب “انا” اور “نفسانی خواہشات” کا ہوتا ہے۔ ہم دنیا کو اپنی خواہشات اور اپنے محدود نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم حقیقی سچائی کو نہیں دیکھ پاتے۔ مادی ہوس، غرور، حسد، اور تکبر ایسے پردے ہیں جو ہماری بصیرت کو دھندلا دیتے ہیں۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے عشق میں ڈوب جاتا ہے تو یہ تمام حجابات آہستہ آہستہ ہٹ جاتے ہیں۔ اس کی ذات میں عاجزی، انکساری، اور بے لوث محبت پیدا ہوتی ہے جو اسے ان نفسانی پردوں سے آزاد کرتی ہے۔ وہ خود کو کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے خالق کے سپرد کر دیتا ہے۔

ایک اور حجاب “غفلت” کا ہوتا ہے۔ ہم دنیا کی چکاچوند میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ اپنے اصل مقصد کو بھول جاتے ہیں۔ عشق کا سُرمہ انسان کو اس غفلت سے بیدار کرتا ہے اور اسے یاد دلاتا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد صرف دنیاوی کامیابی حاصل کرنا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ یہ بیداری اسے اپنے اعمال پر غور کرنے، اپنے مقاصد کو درست کرنے، اور زندگی کو ایک بامعنی طریقے سے گزارنے کی ترغیب دیتی ہے۔

روحانی ارتقاء

عشق کا یہ سُرمہ انسان کو روحانی ارتقاء کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ جب وہ تمام حجابات سے آزاد ہو جاتا ہے تو اس کا دل اللہ کے نور سے روشن ہو جاتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے ارد گرد کی دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھتا ہے بلکہ اسے اپنے اندر بھی ایک نئی دنیا دریافت ہوتی ہے۔ وہ اپنے باطن میں موجود الٰہی نور اور توانائی کو محسوس کرتا ہے۔ یہ ارتقاء اسے نہ صرف ایک بہتر انسان بناتا ہے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا زیادہ شکر گزار، صابر، اور پرہیزگار بندہ بھی بناتا ہے۔ اس کی سوچ وسیع ہوتی ہے اور وہ زندگی کے ہر پہلو میں خالق کی موجودگی کو محسوس کرتا ہے۔

زندگی پر اثرات

جس کی آنکھ میں عشق کا سُرمہ لگا ہو، اس کی زندگی میں گہری تبدیلیاں آتی ہیں۔

اطمینان اور سکون: اسے دنیاوی پریشانیاں چھوٹی لگنے لگتی ہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہو رہی ہے۔ اسے اللہ پر کامل بھروسہ ہوتا ہے اور وہ زندگی کے نشیب و فراز میں بھی پرسکون رہتا ہے۔

سخاوت اور ہمدردی: اس کے دل میں تمام مخلوقات کے لیے بے پناہ محبت اور ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھتا ہے اور ان کی مدد کے لیے کوشاں رہتا ہے۔

حق اور باطل میں تمیز: اس کی بصیرت اسے حق اور باطل میں تمیز کرنے میں مدد دیتی ہے۔ وہ دنیاوی چمک دمک کے پیچھے چھپے فریب کو پہچان لیتا ہے اور ہمیشہ سچائی کی راہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔

قربِ الٰہی: سب سے بڑھ کر، اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اس کی دعا میں تاثیر پیدا ہوتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا رب اس کے قریب ہے۔

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عشق کا سُرمہ محض آنکھوں کو روشن نہیں کرتا بلکہ یہ دلوں کو منور کرتا ہے، روحوں کو پاکیزگی بخشتا ہے اور انسان کو اس کی حقیقی منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا انمول خزانہ ہے جو دنیا کی تمام دولت سے زیادہ قیمتی ہے اور جو ایک بار اس سے فیض یاب ہو جائے، اس کی نظر پر واقعی عرش سے فرش تک کوئی حجاب نہیں رہتا۔


 نکاح و ولیمے میں بڑھتی بے حیائی

سورة السجدة

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *