علم عمل کو پکارتا ہے
صحابہ کرام اور اسلاف کے اقوال
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ،مجھے اس امت پر سب سے زیادہ خوف علم والے منافق کا ہے صحابہ کرام نے عرض کیا کوئی منافق علم والا کیسے ہو سکتا ہے آپ نے فرمایا زبان کا عالم ہوگا جبکہ دل اور عمل کے اعتبار سے جاہل ہوگا۔
حضرت حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ،ان لوگوں میں سے نہ ہونا جنہوں نے علماء سے علم اور حکماء کی ظرافت کو جمع کر لیا اور عمل میں بے وقوفوں کی طرح ہے ۔ایک شخص نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کی کہ میں علم حاصل کرنا چاہتا ہوں ،،لیکن مجھے اس کے ضائع ہونے کا خوف ہے انہوں نے فرمایا علم کو ضائع کرنے کے لیے اسے چھوڑنا ہی کافی ہے۔۔
حضرت ابراہیم بن عینیہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ سب سے زیادہ ندامت کس کو ہوتی ہے؟
انہوں نے فرمایا ،جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے تو اس شخص کو ندامت ہوتی ہے جو ایسے شخص سے نیکی کرتا ہے جو شکریہ ادا نہیں کرتا ،اور موت کے وقت کوتاہی کرنے والے عالم کو ندامت ہوتی ہے۔
(حضرت خلیل بن احمد نے فرمایا مرد چار قسم کے ہوتے ہیں)
نمبر ایک ۔۔جو آدمی جانتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ وہ جانتا ہے تو یہ عالم ہے اس کی پیروی کرو۔
نمبر دو ۔۔وہ علم رکھتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں کہ اس کے پاس علم ہے یہ سویا ہوا ہے اس کو جگاؤ۔
نمبر تین۔۔ وہ شخص جو نہیں جانتا اور اس کا خیال بھی یہی ہے کہ وہ نہیں جانتا یہ ہدایت کا طالب ہے اس کی رہنمائی کرو۔
نمبر چار ۔وہ آدمی جو نہیں جانتا اور اس سے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ نہیں جانتا تو یہ شخص جاہل ہے اس کو چھوڑ دو۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ،علم عمل کو پکارتا ہے اگر وہ اس کی بات قبول کرے تو ٹھیک ہے ورنہ علم چلا جاتا ہے۔
حضرت ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں، جب تک آدمی علم کی طلب میں رہتا ہے وہ عالم ہوتا ہے، اور جب وہ خیال کرتا ہے کہ وہ عالم ہیں تو وہ جاہل بن جاتا ہے۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں، مجھے تین آدمیوں پر ترس آتا ہے، کسی قوم کا معزز شخص ذلیل ہو جائے ،قوم کا مال دار شخص محتاج ہو جائے، اور وہ عالم جس سے دنیا کھیلتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،عالم کو ایسا عذاب دیا جائے گا کہ اس کے عذاب کی سختی کے باعث جہنمی اس کے گرد ا کھٹے ہوں گے۔(اس سے مراد بد اعمال عالم ہیں)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،قیامت کے دن عالم کو لایا جائے گا ،اور اس کو آگ میں ڈالا جائے گا ،اس کی انتین باہر نکل آئے گی ،تو وہ اس طرح چکر لگائے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے ،اہل جہنم اس کے گرد چکر لگائیں گے، اور پوچھیں گے تجھے کیا ہوا ،تو وہ کہے گا! میں نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود عمل نہیں کرتا تھا ،اور برائی سے روکتا تھا لیکن خود اس کا مرتکب ہوتا تھا۔
عالم کے گناہ پر اس کا عذاب اس لیے دو گنا ہے۔ کہ اس نے علم کے باوجود گناہ کیا اسی لیے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا “إن المنافقين في الدرك الاسفل من النار”۔ بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے گڑے میں ہوں گے۔
کیونکہ انہوں نے جاننے کے بعد انکار کیا اور اللہ تعالی نے یہودیوں کو عیسائیوں کے مقابلے میں زیادہ برا قرار دیا حالانکہ انہوں نے اللہ تعالی کے لیے اولاد ثابت نہیں کی اور انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ (خدا) دین میں سے تیسرا ہے لیکن انہوں نے معرفت حاصل ہونے کے بعد انکار کیا۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔
يعرفونه كما يعرفون ابناءهم
وہ یہودی ان کو ( حضرت عزیر علیہ السلام کو) اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو (کسی شک و شبہ کے بغیر) پہچانتے ہیں
حق تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔
“فلما جاءهم ما عرفوا كفروا به فلعنة الله على الكافرين”
اور جب ان کے پاس وہ چیز آگئی جسے وہ پہچانتے تھے تو انہوں نے اس کا انکار کیا پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔
اللہ تعالی نے بلعم بن باعورا کے موقع میں فرمایا
“واتلوا عليهم نبا الذي اتيناه اياتنا فانسلخ منها فأتبعه الشيطان فكان من الغاوين”
اور ان پر اس شخص کا واقعہ پڑھیں جسے ہم نے آیات دیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا پس شیطان اس کے پیچھے پڑا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔
حق تعالی نے مزید ارشاد فرمایا”
“مثلهم كمثل الكلب ان تحمل عليه يلهث او تتركه يلهث”
پس اس کی مثال کتے جیسی ہے اگر تم اس پر حملہ کرو تو زبان نکالتا ہے اور اگر چھوڑ دو تو بھی زبان نکالتا ہے۔
تو بدکار عالم کا بھی یہی حال ہے کیونکہ بلعم کو اللہ تعالی کی کتاب کا علم دیا گیا تو وہ شہوات میں پڑ گیا چنانچہ اسے کتے سے تشبیہ دی گئی ۔یعنی اسے حکمت ملے یا نہ، وہ خواہشات کی طرف ہانپتا ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ۔بُرے علماء ان کی مثال اس چٹان جیسی ہے نہر کے کنارے پر رکھ دی جائے نہ تو وہ خود پانی پیتی ہے اور نہ ہی پانی کو کھیتی تک جانے دیتی ہے ۔نیز بُرے علماء کی مثال باغ کے پختہ نالے کی طرح ہے جس کے باہر چونا ہے اور اندر بدبو ہے ۔اور قبروں کی مثال ہے جن کا ظاہر پکا ہے اور اندر مردوں کی ہڈیاں ہیں۔
تو یہ احادیث اور آثار اس بات کو وضاحت کرتے ہیں کہ جو عالم دنیا دار ہے قیامت کے دن اس کا حال جاہل سے زیادہ بُرا ہوگا اور اسے عذاب بھی زیادہ ہوگا اور جو لوگ کامیاب اور مقرب ہوں گے وہ علمائے آخرت ہے۔
ماشاءاللہ
جزاک اللہ