علم کا نور اور اس تک دشوار راہیں
تمہید
تعلیم انسان کو انسانیت کے اعلیٰ مقام تک لے جاتی ہے۔ یہ شعور، فہم، ترقی اور قربِ الٰہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب تعلیم اتنی ضروری ہے، تو اس تک رسائی اتنی دشوار کیوں ہے؟
اس پر ہمیں قرآن، حدیث اور تاریخ کے آئینے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں
. قرآن کریم
وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا
اور (اے نبی) کہو: اے میرے رب، میرے علم میں اضافہ فرما”
(سورۃ طٰہٰ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے علم کو مانگنے کی دعا سکھائی، کیونکہ یہ اللہ کا نور ہے۔
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ
اللہ سے صرف اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں”
(سورۃ فاطر
علم، انسان کے اندر خوفِ خدا پیدا کرتا ہے اور اسے نیکی کی طرف گامزن کرتا ہے۔
. احادیث مبارکہ
حدیث:
علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے
(ابن ماجہ
حدیث شریفہ
جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے سفر کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے
(ترمذی
یہ احادیث اس بات پر زور دیتی ہیں کہ علم دین و دنیا دونوں کا ذریعہ ہے اور اس کا حصول قربِ الٰہی کی طرف قدم ہے۔
علم حاصل کرنے میں دشواری کیوں؟
شیطانی رکاوٹیں: شیطان ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ انسان علم حاصل کرے کیونکہ علم حق کی پہچان ہے۔
نفس کی سستی: انسان کی فطرت آرام طلب ہے، اور علم قربانی مانگتا ہے۔
معاشرتی رکاوٹیں: اکثر غریبی، ماحول، کمزور نظامِ یہ سب تعلیمی رکاوٹ بنتے ہیں۔
وقت اور محنت: علم حاصل کرنا وقت، توجہ اور مستقل مزاجی مانگتا ہے، جو ہر کسی میں نہیں ہوتی۔
حکایت، نیک چرواہا اور علم کا سفر
ایک دیہاتی چرواہا تھا۔ وہ بکریاں چراتا اور اللہ کا ذکر کرتا تھا۔ ایک دن ایک عالم دین گاؤں تشریف لائے۔ چرواہا نے ان سے سوال کیا “میں چاہتا ہوں اللہ کو پہچانوں، اس کے لے کیا کروں؟
عالم نے کہا: “علم حاصل کرو، مگر تمہیں شہر آنا ہوگا، وقت دینا ہوگا، اور تکلیف برداشت کرنی ہوگی۔”
چرواہا بولا: “میں غریب ہوں، سفر بھی نہیں کر سکتا۔”
عالم نے فرمایا: “اگر تُم اخلاص سے ارادہ کرو گے، اللہ راستہ خود بنائے گا۔”
چرواہا رات کو تہجد میں رو رو کر دعا کرتا تھا: “یا اللہ! مجھے اپنا علم عطا فرما۔”
چند دنوں بعد ایک بزرگ عالم خود اس گاؤں میں قیام کرنے لگے۔ انہوں نے چرواہا کو قرآن، حدیث اور علم کی تعلیم دینی شروع کی۔ وہی چرواہا کچھ سالوں میں علم کا چراغ بن گیا۔ اُس کے ذریعے پورے گاؤں میں علم کا نور پھیل گیا۔
خلاصہ
یہ حکایت ہم کو یہ بتاتی ہے کہ اخلاص اور عزم ہو تو علم کے راستے کھل جاتے ہیں، خواہ وہ کتنے ہی دشوار کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ سچوں کے لیے راستے آسان فرما دیتا ہے۔
نصیحت
تعلیم کبھی بھی رکی نہیں، بس ہم رک گئے۔
علم کی راہ مشکل ضرور ہے لیکن اس کا نور ہمیشہ اندھیروں کو چیر دیتا ہے۔
ہمیں بچوں، نوجوانوں اور خواتین کی تعلیم کو ترجیح دینی چاہیے، تاکہ امت ایک علمی، عملی اور روحانی قوت بن سکے۔
====================
=============