عورت معاشرے کی پہچان
عورت معاشرے کی پہچان
اسلام سے پہلے زمانے جاہلیت میں تمام دنیا کی اقوام میں جاری تھا کہ عورت کی حیثیت گھریلو استعمال کی اشیاء سے زیادہ نہ تھی، چوپایوں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہوتی تھی، اس کو اپنی شادی بیاہ پر کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں تھا، اس کے اولیاء جس کے حوالے کر دیتے وہاں جانا پڑتا تھا، عورت کو اپنے رشتہ داروں کی میراث میں کوئی حصہ نہ ملتا تھا، بلکہ وہ خود گھریلو اشیاء کی طرح مال وراثت سمجھی جاتی تھی، وہ مردوں کی ملکیت تصور کی جاتی تھی، اس کی ملکیت کسی چیز پر نہ تھی اور جو چیزیں عورت کی ملکیت کہلاتی تھی ان میں سے اس کو مرد کی اجازت کے بغیر کسی قسم کے تصرف کا کوئی اختیار نہ تھا۔۔
عورت معاشرے کی پہچان
ہاں اس کے شوہر کو ہر قسم کا اختیار تھا کہ اس کے مال کو جہاں چاہے اور جس طرح چاہے خرچ کر ڈالے، اس کو پوچھنے کا بھی کوئی حق نہ تھا، یہاں تک کہ یورپ کے وہ ممالک جو اج کل دنیا کے سب سے زیادہ متمدن ملک سمجھے جاتے ہیں ان میں بعض لوگ اس حد کو پہنچے ہوئے تھے کہ عورت کے انسان ہونے کو بھی تسلیم نہ کرتے تھے۔۔۔
عورت کے لیے مذہب میں بھی کوئی حصہ نہ تھا، اس کو عبادت کے قابل سمجھ جاتا نہ جنت کے۔۔
عورت معاشرے کی پہچان
روما کے بعض مجلسوں میں باہم مشورے سے یہ طے کیا گیا تھا کہ عورت وہ ناپاک جانور ہے جس میں روح نہیں، عام طور پر باپ کے لیے لڑکی کا قتل بالکل زندہ درگور کر دینا جائز سمجھا جاتا تھا، بلکہ یہ عمل باپ کے لیے عزت کی نشان اور شرافت کا معیار تصور کیا جاتا تھا، بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ عورت کو کوئی بھی قتل کر دے نہ تو اس پر قصاص واجب نہ خون بہانا۔۔
عورت معاشرے کی پہچان
بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ عورت کو کوئی بھی جہاں جی چاہے لے جائے جو چاہے کرے اس پر کسی قسم کی کوئی سزا نہ تھی اور اگر شوہر مر جائے تو اس کی بیوی کو بھی اس کی لاش کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ولادت کے بعد اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے 586 میں فرانس نے عورت پر یہ احسان کیا کہ بہت سے اختلافات کے بعد یہ قرارداد پاس کی کہ عورت ہے تو انسان مگر وہ صرف مرد کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔۔
الغرض پوری دنیا میں اور اس میں بسنے والے تمام اقوام مذہب نے عورت کے ساتھ یہ برتاؤ کیا تھا کہ اس کو سن کر ہی بدن کہ رونٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔۔
قربان جائیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین حق پر۔۔۔ جس نے دنیا کی انکھیں کھول دی انسان کو انسان کی قدر سکھایا عدل وہ انصاف کا قانون جاری کیا عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم کیے جیسے عورتوں پر مردوں کے ہیں اس کو ازاد خود مختار بنایا، وہ اپنی مال کے ساتھ ایسا ہی مالک قرار دی گئی جیساکہ مرد ہے۔۔
کوئی شخص باپ دادا ہو یا بالغ عورت کو کسی شخص کے ساتھ نکاح پر مجبور نہیں کر سکتا اور اگربغیر اس کی اجازت کے نکاح کر دیا جائے تو وہ اس کی اجازت پر موقوف کرسکتی ہے اگر نہ منظور کر دے تو باطل ہو جاتا ہے۔۔
اس کے اموال میں کسی مرد کو بغیر اس کے رضا و اجازت کے کسی تصرف کا کوئی حق نہیں ہر شوہر کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد وہ خود مختار ہے، کوئی اس پر جبر نہیں کر سکتا، اپنے رشتہ داروں کی میراث میں اس کو بھی ایسا ہی حصہ ملتا ہے جیسا لڑکوں کو، اس پر خرید اس پر خرچ کرنے اور اس کے راضی رکھنے کو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عبادت قرار دیا، شوہر اس کے حقوق واجبہ ادا نہ کرے تو وہ اسلامی عدالت کے ذریعے اس کو اداحقوق پر،ورنہ طلاق پر مجبور کر سکتی ہے۔۔
========================
شیطان انسان کو کس طرح گمراہ کرتا ہے
====================
اللہ تمام اسلامی خواتین کو پردے کا پاپند بنائے