عورت کیا چاہتی ہے؟

عورت کیا چاہتی ہے؟ عورت کیا چاہتی ہے؟

عورت کیا چاہتی ہے؟

 ایک بادشاہ، ایک قیدی، اور ایک انوکھی شرط

بہت پرانے وقتوں کی بات ہے، ایک دور دراز سلطنت میں ایک ایسا بادشاہ حکومت کرتا تھا جس کی دانش اور انصاف کی دھوم دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن اس کے دل میں ایک سوال ہمیشہ کھٹکتا رہتا تھا، ایک ایسا سوال جس نے کئی فلسفیوں اور دانشوروں کو پریشان کر رکھا تھا: “عورت آخر کیا چاہتی ہے؟” یہ سوال اس کی ذاتی زندگی اور سلطنت کے معاملات میں بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتا تھا۔

اسی سلطنت میں ایک نوجوان تھا، جس کا نام عدنان تھا۔ وہ اپنی ذہانت اور حاضر جوابی کے لیے مشہور تھا، لیکن ایک دن کسی غلط فہمی یا شاید کسی سازش کے تحت اسے بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ بادشاہ نے اسے سزائے موت سنا دی، مگر اپنی شہرت کے مطابق اس نے عدنان کو ایک آخری موقع دینے کا فیصلہ کیا۔

بادشاہ نے عدنان کو اپنے دربار میں بلایا۔ “عدنان،” بادشاہ نے گرج دار آواز میں کہا، “میں تمہیں ایک موقع دیتا ہوں کہ تم اپنی جان بچا سکو۔ میرے پاس ایک سوال ہے، اگر تم مجھے اس کا صحیح جواب دے دو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔”

عدنان نے امید بھری نگاہوں سے بادشاہ کی طرف دیکھا۔ “حضور، آپ کا کیا سوال ہے؟”

بادشاہ اپنی کرسی سے اٹھا، اور گہرے لہجے میں کہا، “سوال یہ ہے کہ عورت آخر کیا چاہتی ہے؟”

عدنان چونک گیا۔ یہ ایک ایسا سوال تھا جو بظاہر سادہ مگر حقیقت میں بہت پیچیدہ تھا۔ “حضور، یہ سوال بہت گہرا ہے، مجھے اس کا جواب معلوم نہیں،” عدنان نے دھیمی آواز میں کہا۔

بادشاہ نے کہا، “میں تمہیں ایک سال کی مہلت دیتا ہوں۔ اس ایک سال میں تم جہاں چاہو جاؤ، جس سے چاہو ملو، اور مجھے اس سوال کا صحیح جواب لا کر دو۔ اگر تم کامیاب ہوئے تو تم آزاد، ورنہ تمہاری قسمت وہی ہوگی جو تمہارے جرم کی سزا ہے۔”

عدنان نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا اور آزاد ہو کر اپنی تلاش میں نکل پڑا۔ وہ شہر شہر گھوما، گاؤں گاؤں پھرا۔ اس نے عالموں سے پوچھا، عام لوگوں سے گفتگو کی، بازاری عورتوں سے لے کر شاہی خواتین تک، ہر طبقے کی عورتوں اور مردوں سے رائے لی۔ کسی نے کہا عورت سونا چاہتی ہے، کسی نے کہا عزت، کسی نے محبت، کسی نے اقتدار، اور کسی نے اولاد۔ مگر کوئی بھی جواب عدنان کو مطمئن نہ کر سکا۔ ہر جواب کے ساتھ کوئی نہ کوئی دوسرا پہلو ایسا تھا جو اسے مکمل محسوس نہیں ہوتا تھا۔ مہینوں بیت گئے اور مایوسی اسے گھیرنے لگی۔ سال ختم ہونے کو تھا اور اس کے پاس کوئی حتمی جواب نہیں تھا۔

ایک دن، بالکل مایوسی کے عالم میں، ایک بوڑھی عورت نے اسے مشورہ دیا، “بیٹا، دور جنگل میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ لوگ اسے ‘سیاہ روح’ کہتے ہیں۔ وہ شاید تمہیں اس سوال کا جواب دے سکے۔ مگر ہوشیار رہنا، وہ بہت خطرناک ہے۔”

عدنان کے پاس اب کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ جان جانے کا خطرہ مول لے کر ہی سہی، وہ اس چڑیل کے پاس جائے گا۔ گھنے، تاریک جنگل میں کئی دن سفر کرنے کے بعد، وہ آخر کار ایک خوفناک، ویران جگہ پر پہنچا جہاں ایک پرانے، خستہ حال درخت کے نیچے ایک ڈراؤنی شکل کی چڑیل بیٹھی تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، جلد جھریوں سے بھری تھی، اور آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔

عدنان نے ہمت کی اور اس کے قریب جا کر اپنا سوال دہرایا، “اے جنگل کی ملکہ، میں ایک مصیبت میں ہوں اور مجھے یہ جاننا ہے کہ عورت آخر کیا چاہتی ہے؟”

چڑیل نے ایک خوفناک قہقہہ لگایا جو پورے جنگل میں گونج گیا۔ “ہاہاہاہا! انسان بھی کتنے احمق ہوتے ہیں! اتنے سادہ سوال کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ میں تمہیں جواب بتاؤں گی، مگر میری ایک شرط ہے!”

عدنان نے پوچھا، “کیا شرط ہے؟”

چڑیل نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا، “میری شرط یہ ہے کہ تم مجھ سے شادی کرو گے!”

عدنان کا دل بیٹھ گیا۔ ایک پل کو تو اسے لگا کہ مر جانا اس سے بہتر ہے۔ مگر پھر اس نے سوچا، “اگر میں نے بادشاہ کو صحیح جواب نہ دیا تو ویسے بھی مجھے سزائے موت ملنی ہے۔ اگر اس چڑیل سے شادی کر کے میری جان بچتی ہے اور مجھے سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے، تو یہی بہتر ہے۔” اس نے ایک گہری سانس لی اور مشکل سے اپنے منہ سے نکالا، “مجھے تمہاری شرط منظور ہے۔”

چڑیل کا چہرہ ایک عجیب سی مسکراہٹ سے روشن ہو اٹھا۔ وہ وہیں ایک پتھر پر کھڑی ہوئی اور چند پراسرار الفاظ بولے۔ اچانک اس کے گرد ایک نور کا ہالہ سا بن گیا اور لمحے بھر میں اس کی خوفناک شکل بدل گئی۔ اس کی جھریاں غائب ہو گئیں، بال سنہرے ہو گئے، اور وہ ایک حسین و جمیل پری کی شکل میں سامنے کھڑی تھی۔ عدنان حیران رہ گیا۔

“چونکہ تم نے میری بات مان لی ہے،” پری نے میٹھی آواز میں کہا، “اور مجھے اپنی شریکِ حیات بنایا ہے، میں تمہیں خوش کرنے کے لیے ایک فیصلہ کرتی ہوں۔ میں دن کے 12 گھنٹے اپنی اصل شکل میں (ایک خوفناک چڑیل) رہوں گی اور 12 گھنٹے میں یہ خوبصورت پری بنی رہوں گی۔ اب تم یہ بتاؤ، میں دن میں چڑیل رہوں یا رات میں پری بنوں؟”

عدنان ایک بار پھر مشکل میں پڑ گیا۔ اس نے سوچا، “اگر یہ دن میں چڑیل رہی تو دن میں باہر نکلنا مشکل ہو جائے گا، لوگ خوفزدہ ہوں گے، میری زندگی عذاب ہو جائے گی۔ اور اگر یہ رات میں چڑیل ہوئی تو رات کا سکون چھن جائے گا، میں ہر لمحہ ڈر میں رہوں گا، میری نیندیں حرام ہو جائیں گی۔” وہ دونوں صورتوں میں پریشانی میں تھا۔

اس نے گہرائی سے سوچا، اس نے اپنی ساری ذہانت کو بروئے کار لایا۔ اسے یاد آیا کہ اس کی تلاش کا مقصد کیا تھا – عورت کیا چاہتی ہے؟ اچانک ایک خیال اس کے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا۔ اس نے مسکرا کر پری کی طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں کہا، “میری پیاری، تمہاری اس قربانی کا شکریہ۔ مگر میں تم پر کوئی پابندی نہیں لگانا چاہتا۔ تم جب چاہو پری بن جانا، اور جب چاہو چڑیل بن جانا۔ یہ فیصلہ مکمل طور پر تمہاری مرضی پر منحصر ہے، جب تمہارا دل کرے وہی روپ اختیار کر لینا۔”

یہ سن کر پری کے چہرے پر ایک وسیع، روشن مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ “آہا! اے انسان، تم نے مجھے خوش کر دیا۔” اس نے کہا، “چونکہ تم نے مجھے اپنی مرضی کی مکمل آزادی دے دی ہے، تم نے مجھے اختیار دیا ہے، تو میں ہمیشہ ہی یہ پری بن کر تمہارے ساتھ رہا کروں گی۔ مجھے اب کبھی چڑیل بننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔”

پھر اس نے عدنان کا ہاتھ تھاما اور ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “اور راجا کے سوال کا جواب بھی یہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عورت ہمیشہ اپنی مرضی چاہتی ہے۔ اگر تم عورت کو اپنی مرضی کرنے دو گے، اسے آزادی دو گے اور اس کے فیصلوں کا احترام کرو گے، تو وہ تمہاری زندگی کو پری کی طرح روشن اور خوبصورت بنا دے گی۔ لیکن اگر تم اس پر پابندیاں لگاؤ گے، اسے اپنی مرضی سے محروم رکھو گے، اور اس کے اختیارات کو چھین لو گے، تو وہ تمہاری زندگی میں چڑیل بن کر آ جائے گی اور اسے جہنم بنا دے گی۔”

عدنان حیران رہ گیا۔ اسے نہ صرف اپنی جان بچانے کا راستہ مل گیا تھا بلکہ زندگی کا ایک بہت بڑا راز بھی اس پر آشکار ہو گیا تھا۔ وہ بادشاہ کے پاس واپس آیا اور اسے یہ سارا ماجرا اور چڑیل کا دیا ہوا جواب سنایا۔

بادشاہ یہ جواب سن کر بہت متاثر ہوا۔ اس نے عدنان کی ذہانت کو سراہا اور اسے فوراً رہا کر دیا۔ اس نے نہ صرف عدنان کی سزائے موت ختم کر دی بلکہ اسے اپنے دربار میں ایک اعلیٰ عہدہ بھی دیا۔ عدنان نے بعد میں اسی پری سے اپنی زندگی بسر کی جو ہمیشہ ایک خوبصورت اور خوشگوار ساتھی بنی رہی۔

اور یوں، اس کہانی نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ خوشگوار اور کامیاب رشتوں کی بنیاد عورت کی مرضی، اس کی آزادی، اور اس کے فیصلوں کا احترام ہے۔ زندگی میں خوشیوں کا انتخاب آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی زندگی ایک پری کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں یا ایک چڑیل کے ساتھ۔


کہتے ہیں ہمارے لیے کیا ہے؟

تفسير الطبري

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *