عیدالاضحیٰ میں بکریوں کی قربانی

عیدالاضحیٰ میں بکریوں کی قربانی عیدالاضحیٰ میں بکریوں کی قربانی

عیدالاضحیٰ میں بکریوں کی قربانی

قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک لازمی عمل اور اس کی حکمت

عیدالاضحیٰ، جسے عام طور پر “بڑی عید” یا “قربانی کی عید” کے نام سے جانا جاتا ہے، اسلامی کیلنڈر کے ذوالحجہ مہینے کی دسویں تاریخ کو منایا جانے والا ایک اہم اور مبارک تہوار ہے۔ یہ محض ایک جشن نہیں بلکہ ایک عظیم تاریخی اور روحانی واقعہ کی یادگار ہے: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی دینے کی لازوال اطاعت اور جدوجہد۔ اس موقع پر مسلمانوں کے لیے جانوروں کی قربانی کرنا، بالخصوص بکریوں، دنبوں، بھیڑوں، گائے اور اونٹوں کی، ایک اہم شرعی فریضہ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کا ایک گہرا ذریعہ ہے۔ یہ عمل صرف ایک رسم نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے سامنے اپنی ہر خواہش، مال اور تعلق کو قربان کر دینے کے جذبے کی عملی تصویر ہے۔

قربانی کا تاریخی پس منظر اور اس کی روحانی اہمیت

قربانی کا یہ عمل صرف امت محمدیہ ﷺ پر فرض نہیں کیا گیا بلکہ یہ سابقہ امتوں میں بھی رائج تھا، البتہ اس کی تفصیلات مختلف رہی ہیں۔ تاہم، موجودہ قربانی کا بنیادی ماخذ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عظیم امتحان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ یہ ایک ایسا حکم تھا جو کسی بھی باپ کے لیے ناقابلِ تصور تکلیف کا باعث بن سکتا تھا، خاص طور پر جب اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم کے بڑھاپے کی اولاد اور انتہائی محبوب تھے۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، بلا چوں و چرا، اپنے رب کے حکم کی مکمل تعمیل کا ارادہ کیا۔ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے، اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی اس حکمِ الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت، توکل اور رضا کی ایک بے مثال داستان ہے۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری رکھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ایک دنبہ بھیج دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اسے قربان کر دیا گیا۔ یہ ایک عظیم معجزہ تھا اور اس بات کا ثبوت کہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ اس واقعے کے ذریعے اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت کو قبول فرما لیا اور انہیں “خلیل اللہ” یعنی اللہ کا دوست کا لقب عطا فرمایا۔

اسی عظیم واقعے کی یاد میں مسلمان ہر سال عیدالاضحیٰ پر قربانی کرتے ہیں۔ یہ عمل دراصل مسلمانوں کے لیے اللہ کے حضور اپنی اطاعت، فرمانبرداری، اور تقویٰ کا اظہار ہے۔ قربانی کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرتے ہیں کہ اس نے ہمارے لیے آسانیاں پیدا کیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کو ہمارے لیے ایک مثال بنا دیا۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہماری ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے اور اس کی رضا کے لیے ہم اپنی قیمتی سے قیمتی چیز کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار رہیں۔

قربانی: قرآن مجید کی روشنی میں

قرآن کریم میں مختلف مقامات پر قربانی کا ذکر ملتا ہے جو اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ سورۃ الکوثر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ

“پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔” (سورۃ الکوثر: 2)

یہ آیت واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نماز کی طرح قربانی بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ایک عظیم عبادت ہے۔ نماز جہاں جسمانی اور روحانی بندگی کا اظہار ہے، وہیں قربانی مالی اور قلبی ایثار کا نمونہ ہے۔ اسی طرح، سورۃ الحج میں قربانی کے جانوروں اور ان کی قربانی کے پیچھے کی اصل روح کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:

 لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ

“اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اسے تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔” (سورۃ الحج: 37)

یہ آیت اس حقیقت کو نہایت واضح الفاظ میں بیان کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جانوروں کا جسمانی حصہ یعنی گوشت یا خون نہیں چاہیے، بلکہ وہ ہمارے دلوں کی نیت، اخلاص، اللہ کی رضا اور تقویٰ کو دیکھتا ہے۔ قربانی کا اصل مقصد ہماری نیت اور خلوص کا اظہار ہے کہ ہم اللہ کے حکم پر کتنا سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ قربانی صرف ایک ظاہری عمل نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا روحانی پہلو ہے جو ہمارے دلوں کی پاکیزگی اور اللہ کی محبت پر مبنی ہے۔

قربانی: احادیثِ نبوی ﷺ کی روشنی میں

نبی اکرم ﷺ نے خود بھی قربانی کی اہمیت پر زور دیا ہے اور اسے ایک اہم سنت قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ہر سال قربانی فرمائی اور صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دی۔ احادیث مبارکہ میں قربانی کے فضائل اور اس کے احکامات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“یوم النحر (یعنی قربانی کے دن، 10 ذوالحجہ) میں کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں۔ اور بے شک قیامت کے دن وہ جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت (اپنے مالک کے لیے اجر کے طور پر) آئے گا۔ اور بے شک قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے۔ پس اس سے تمہارے دل خوش ہونے چاہئیں۔” (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

یہ حدیث قربانی کی فضیلت اور اللہ کے ہاں اس کی قبولیت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ ہمیں یقین دلاتی ہے کہ یہ عمل اللہ کے ہاں انتہائی پسندیدہ ہے اور اس پر بہت بڑا اجر ملتا ہے۔

ایک اور حدیث میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا:

“یا رسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟” آپ ﷺ نے فرمایا: “یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔” انہوں نے پوچھا: “ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے؟” آپ ﷺ نے فرمایا: “ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔” انہوں نے پوچھا: “اون کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟” آپ ﷺ نے فرمایا: “اون کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی ہے۔” (سنن ابن ماجہ)

یہ احادیث اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ قربانی نہ صرف ایک عظیم عبادت ہے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس پر اللہ تعالیٰ بے پناہ اجر و ثواب عطا فرماتے ہیں۔ یہ ہمیں اطمینان دلاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا اور اس پر کئی گنا زیادہ ثواب دیتا ہے۔

بکریوں کی قربانی کی ضرورت اور اس کی معاشرتی حکمت

بکریوں (اور دیگر حلال جانوروں) کی قربانی دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش اور امتحان کی یاد دہانی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز، خواہ وہ کتنی ہی پیاری کیوں نہ ہو، اللہ کی رضا اور اس کے حکم سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔ یہ ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہمارے مال و اسباب، ہماری اولاد، اور ہماری ہر ملکیت درحقیقت اللہ کی دی ہوئی امانت ہے اور جب وہ چاہے اسے واپس لے سکتا ہے یا اس کی قربانی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ، قربانی کا ایک اہم معاشرتی پہلو بھی ہے۔ قربانی کا گوشت عام طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ایک حصہ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک حصہ رشتہ داروں اور دوستوں میں دیا جاتا ہے، اور ایک حصہ اپنے لیے رکھا جاتا ہے۔ یہ تقسیم معاشرے میں ہمدردی، ایثار، بھائی چارے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے جذبے کو فروغ دیتی ہے۔ اس سے غریبوں اور ضرورت مندوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کا موقع ملتا ہے، اور رشتہ داروں کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ عمل صرف ایک انفرادی عبادت ہی نہیں بلکہ ایک اجتماعی فلاح کا ذریعہ بھی ہے جو معاشرتی ہم آہنگی اور محبت کو بڑھاتا ہے۔ یہ امت مسلمہ کو ایک جسم کی مانند جوڑتا ہے، جہاں امیر و غریب سب ایک ساتھ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ عیدالاضحیٰ میں بکریوں اور دیگر حلال جانوروں کی قربانی، قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک شرعی فریضہ، ایک عظیم عبادت اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یادگار ہے۔ یہ عمل مسلمانوں کو اللہ کے حضور مکمل اطاعت، گہرے تقویٰ اور بے مثال ایثار کا درس دیتا ہے۔ یہ صرف خون بہانا نہیں بلکہ اپنے دلوں میں اللہ کی محبت اور رضا کو پروان چڑھانا ہے۔


اولیاء اللہ کا مقام وہ مرتبہ

سورة الأنبياء

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *