جب تک لیل و نہار کی گردش باقی رہے گی جب تک یکم شوال کی تاریخ آتے رہے گی محض اس صبح کا طلوع ہونا ہی پیغام مسرت نہیں ہے یہ صبح تو ہر ایک پر طلوع ہوتی ہے لیکن عید کی حقیقی خوشی میں صرف اسی کا حصہ ہے جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو کر یہ کہہ سکے کہ’’ اے ہمارے رب یہ مبارک مہینہ جو آپ نے مجھے عطا کیا تھا میں نے اسے ضائع نہیں کیا میں دن میں بھی تیری خوشی کا کام کرتا رہا اور رات میں بھی تیری عبادت میں لگا رہا ۔۔
عید کے معنی خوشی کے ہے, اور فطر کے معنی روزہ کھولنے یا بانٹنے کے ہے, عید کی خوشی کے حقدار وہ لوگ ہیں جنہوں نے رمضان کے پورے روزے رکھے قران کریم کو اپنے عملی زندگی میں اتارا زکوۃ اور فطرہ ادا کیا رمضان کے شب و روز کی عبادتوں سے فارغ ہونا اوردو گاہ نہ شکراادا کرنا اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم نے رمضان کی مبارک ساعتوں سے استفادہ حاصل کرنے کی پوری کوشش کی۔۔ اور اللہ کی توفیق سے ہی ہم قیام وصیام تلاوت و تسبیح صدقہ و خیرات اور دوسری عبادتوں کو ادا کر سکے، اگر اللہ کی توفیق نہ ہوتی تو ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے، عید الفطر مسلمانوں کے لیے خوشی اور مسرت کا دن ہے’’ مگر یہ غور کرنے کی بات ہے کہ ہم کس بات کی خوشی منا رہے ہیں؟ رمضان اپنے تمام رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہوا۔ اگر ہم نے اسے اللہ کا انعام سمجھ کر اس کا احترام کیا اس کے تقاضوں اور روزوں کے آداب کا پورا خیال رکھا رمضان کی قیمتی لمحات سے آپنے آپ کو فیض یاب ہونے کی پوری محنت اور جدوجہد کی ہو، اس کی سعادتیں لوٹنے اور برکتیں سمٹنے کی فکر کی ہو، جنہوں نے زیادہ سے زیادہ اپنے مہربان رب کو یاد کرنے کی کوشش کی ہو، اس کی مسجدوں کو آباد رکھا ہو، اسی کی نافرمانی سے بچتے ہوئے نیکی کا راستہ اختیار کیا ہو، تب ہی عید کی حقیقی خوشی اس کی ہے۔۔
اللہ کے نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جب عید کی صبح نمودار ہوتی ہے تو اللہ تعالی اپنے فرشتوں کو ہر شہر اور ہر بستی کی طرف روانہ کر دیتا ہے، فرشتے زمین پر اتر کر ہر گلی ہر راستے کے موڑ پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور پکارتے ہیں ان کی پکار ساری مخلوق سنتی ہے مگر انسان اور جن نہیں سن پاتے وہ پکارتے ہیں، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ نکلو اپنے گھروں سے اور چلو اپنے پروردگار کی طرف تمہارا پروردگار بہت ہی زیادہ دینے والا اور بڑے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے۔۔ اور جب مسلمان عید گاہ کی طرف جانے لگتا ہے تو اللہ عزوجل اپنے فرشتوں سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے میرے فرشتو اس مزدور کا کیا صلہ ہے جس نے اپنے رب کا کام پورا کیا؟ فرشتے کہتے ہیں’’ اے ہمارے اقا اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے بھرپور مزدوری دے دی جائےاس پر اللہ کا ارشاد ہوتا ہے’’ فرشتو: تم سب گواہ ہو جاؤ کہ میں نے اپنے بندے کو جو رمضان بھر روزے رکھتے رہا، اور تراویح پڑھتے رہا، اس کے صلے میں میں اسے اپنی خوشی نودی سے نواز دیا، اور ان کی مغفرت فرما دی، پھر اللہ تعالی اپنے بندوں سے کہتا ہے۔۔ میرے پیارے بندوں’’ مانگو مجھ سے جو کچھ مانگتے ہو مجھے میری عزت کی قسم ۔۔ مجھے میرے جلال کی قسم ۔۔ آج عید کے اس اجتماع میں تم اپنی آخرت بنانے کے لیے مجھ سے جو مانگو گے عطا کروں گا، اور اپنی دنیا بنانے کے لیے مجھ سے جو مانگو گے عطا کروں گا، اور اپنی دنیا بنانے کے لیے جو چاہو گے اس میں بھی تمہاری بھلائی کو پیش نظر رکھوں گا، تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہو میں تم سے راضی ہو گیا۔۔ عید کا دن عید بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے۔۔۔
بے شک ایسے لوگوں کے لیے عید ہھی وعید کا دن ہے جو رمضان سے فائدہ نہ اٹھا سکے مبارک بات اس کے لیے ہے جس سے رمضان خوشی خوشی رخصت ہوا، اور افسوس کا دن اس کے لیے جس سے رمضان رخصت ہو گیا اور وہ اس سے محروم رہا، اس شخص کے لیے ہلاکت اور محرومی کا کسی کو شک ہو سکتا ہے جس کی تباہی اور بربادی کے لیے حضرت جبرائیل بددعا کرے اور بددعا پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امین کہے۔۔ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے ممبر پر چڑھنے لگے۔۔ پہلے زینے پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قدم مبارک رکھا فرمایا آمین، دوسرے زینے پر قدم رکھا فرمایا آمین تیسرے زینے پر قدم رکھا پھر فرمایا آمین خطبہ دینے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو صحابہ کرام میں پوچھا حضور آج ہم نے ایسی بات دیکھی ہے جو اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی، فرمایا جب خطبہ دینے کے لیے ممبر پر چڑھنے لگا اور ممبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو حضرت جبرائیل نمودار ہوئے اور انہوں نے کہا اللہ اس شخص کو ہلاک کر دے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور پھر بھی اپنی مغفرت نہیں کروائی، اس پر میں نے آمین کہا۔۔۔
آج ہم اس بات پر غور کریں
کہ ہم اس قیمتی تحفے یعنی رمضان المبارک کی کتنی قدر کیے ہیں اپنے محسن آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو منانے کی کتنی فکر کرے ہیں، عید کا دن انعام کا دن ہے جو اللہ رب العزت اپنے بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے اس کے احکام کی تعمیل کی ہو جس طرح ایک طالب علم کو نتائج کے دن کا بڑی بے صبری سے انتظار رہتا ہے اسی طرح روزے دار کو عید کے دن کا انتظار رہتا ہے جس طرح نتائج کے دن ہر پرچےلکھنے والے کو انعام نہیں دیا جاتا’’ بلکہ صرف انہیں انعام دیا جاتا ہے جو اس کے حقدار ہو جنہوں نے اس انعام کو حاصل کرنے کے لیے دنوں رات جدوجہد کی ہو، سال بھر محنت کی ہو، اور امتحان کا پرچہ صحیح حل کیا ہو، اسی طرح رمضان بھی ایک امتحان ہے اللہ اس مہینے میں اپنے بندوں کی ایمانی کیفیت کا امتحان لیتا ہے، اور اس میں کامیاب ہونے والوں کو خاص انعامات سے نوازتا ہے یہ انعام ان لوگوں کے لیے ہو گا جنہوں نے اس ماہ مبارک کا احترام کیا ہو۔۔
اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اے اللہ ہم کو رمضان المبارک کے تینوں عشروں سے مالا مال فرما ہماری کامل مغفرت فرما اور ہم کو تیرا قرب نصیب فرما اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت نصیب فرما۔۔۔