غریب نائی اور سیلاب کی کہانی: دنیاوی مال کی حقیقت
ایک زمانہ تھا، جب گاؤں میں ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور بڑی بڑی عمارتوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ لوگ سادہ زندگی گزارتے تھے اور ان کی ضروریات بھی محدود تھیں۔ ایسے ہی ایک پرسکون گاؤں میں، جہاں ہر طرف سرسبز لہلہاتے کھیت تھے اور ایک چھوٹی سی ندی بہتی تھی، ایک انتہائی غریب نائی رہتا تھا۔ اس نائی کا نام کریم دین تھا۔ کریم دین کی غربت اتنی شدید تھی کہ اس کے پاس اپنی کوئی ذاتی ملکیت نہیں تھی۔ نہ کوئی گھر تھا، نہ بیوی بچے، نہ ہی کوئی جائیداد۔ اس کی تمام تر ملکیت بس ایک بوسیدہ چادر اور ایک پھٹا پرانا تکیہ تھا۔
کریم دین دن بھر گاؤں کے چوک میں موجود ایک گھنے برگد کے درخت کے نیچے اپنی پرانی کرسی لگا کر بیٹھ جاتا اور گاؤں والوں کی حجامت کرتا۔ وہ اپنی اس چھوٹی سی دکان سے مشکل سے دو وقت کی روٹی کما پاتا تھا۔ اس کی زندگی میں کوئی بڑی خواہش نہیں تھی، نہ ہی کوئی شکایت۔ وہ اپنی سادگی میں خوش اور مطمئن تھا۔ جب شام ہوتی اور سورج غروب ہو جاتا، تو کریم دین اپنی چادر اور تکیہ اٹھاتا اور گاؤں کے واحد سرکاری پرائمری سکول کے باہر چلا جاتا۔ سکول کی بند دیوار کے ساتھ چادر بچھا کر تکیہ رکھتا اور پرسکون نیند سو جاتا۔ اس کا بستر آسمان تھا اور چھت کھلے ستارے۔ اس کے لیے یہی سب کچھ تھا۔ اسے نہ چوری کا ڈر تھا، نہ کسی چیز کے چھن جانے کا غم، کیونکہ اس کے پاس تھا ہی کچھ نہیں جو چھن جاتا۔
سیلاب کی آفت اور نائی کا سکون
پھر ایک دن، قدرت کو شاید اس گاؤں والوں کا امتحان لینا تھا۔ رات بھر موسلادھار بارش ہوتی رہی۔ آسمان سے پانی ایسے برسا جیسے بادلوں کے منہ کھول دیے گئے ہوں۔ صبح کے وقت، جب گاؤں میں لوگوں کی آنکھ کھلی تو ہر طرف چیخ و پکار کا شور تھا۔ ندی میں طغیانی آ چکی تھی اور سیلاب کا پانی تیزی سے گاؤں میں داخل ہو رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانی کی سطح بلند ہوتی گئی اور گاؤں کے کچے مکانات اور کھیت پانی میں ڈوبنے لگے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ لوگ اپنے گھروں سے قیمتی سامان، جانور اور نقدی نکالنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ اسے کسی اونچی اور محفوظ جگہ پر لے جا سکیں۔
کریم دین کی آنکھ بھی کھلی۔ اس نے دیکھا کہ جہاں وہ رات کو سویا تھا، وہاں پانی چڑھ چکا تھا۔ وہ فوراً اٹھا اور اپنی چادر اور تکیہ لپیٹ کر سکول کے ساتھ بنی پانی کی اونچی ٹینکی پر چڑھ گیا۔ یہ ٹینکی گاؤں میں سب سے اونچی جگہ تھی۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنی چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر نیچے بہتے سیلاب اور بھاگتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی، کوئی خوف نہیں تھا۔ وہ بالکل پرسکون تھا۔ اس کے پاس کچھ تھا ہی نہیں جو سیلاب بہا لے جاتا۔
امیروں کا اضطراب اور نائی کا عجیب جواب
لوگوں کو وہ دیکھ رہا تھا، کوئی اپنے سر پر نقدی سے بھری بوری اٹھائے بھاگ رہا تھا، کوئی سونے کے زیورات کو کپڑوں میں لپیٹ کر جان بچاتا پھر رہا تھا، کسی نے اپنی بکریاں یا قیمتی مال مویشی پکڑے ہوئے تھے اور وہ انہیں سیلاب کے پانی سے بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا۔ ہر چہرے پر خوف، پریشانی اور کچھ کھو دینے کا غم نمایاں تھا۔ ان کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں اور ان کا سارا وجود کانپ رہا تھا۔
اسی دوران، گاؤں کا ایک بہت امیر شخص، جسے لوگ حاجی صاحب کے نام سے جانتے تھے، سیلاب کے پانی میں سے بھاگتا ہوا آیا۔ اس نے ایک ہاتھ میں سونے کے زیورات اور دوسرے ہاتھ میں پیسوں کا تھیلا اٹھا رکھا تھا اور تیسرے ہاتھ میں شاید اپنے بہترین کپڑوں کا گٹھڑ۔ اس کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا اور سانسیں بے ترتیب تھیں۔ جب وہ حاجی صاحب، کریم دین نائی کے پاس سے گزرے اور اسے ٹینکی پر سکون سے لیٹا ہوا دیکھا تو غصے سے ان کا رنگ سرخ ہو گیا۔ وہ چلا کر بولے:
“اوئے نائی! ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے۔ ساڈی جان تے بنی اے، ساڈے گھر تباہ ہو گئے نیں۔ ساڈی ساری پونجی پانی لے گیا اے، تے توں ایتھے سکون نال لمبا پیا ہویا ایں؟ تینوں کوئی فکر نہیں؟”
حاجی صاحب کی بات سن کر کریم دین نائی نے ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک عجیب سی چمک تھی:
“لالے! اج ای تے غربت دی چس آئی اے!”
نائی کی بات کا مفہوم: دنیاوی بے فکری اور آخرت کا حساب
کریم دین کے یہ الفاظ سن کر حاجی صاحب اور وہاں موجود چند اور لوگ جو اپنا مال بچانے کی کوشش کر رہے تھے، حیران رہ گئے۔ نائی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آج ہی کے دن تو اسے اپنی غربت کی اصل قدر اور لذت محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا جو چھن جاتا، اس لیے اسے کوئی خوف یا پریشانی نہیں تھی۔ اس کی سادگی ہی اس کی سب سے بڑی دولت تھی۔ یہ ایک ایسا جملہ تھا جو دنیاوی مال و دولت کی بے ثباتی اور انسان کی ہوس کو بہترین انداز میں بیان کر رہا تھا۔
روزِ محشر کا منظر اور نائی کی کہانی
جب میں نے یہ کہانی پہلی بار سنی، تو ہنس پڑا، لیکن ہنسی کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ایک گہرا خیال آیا۔ میں نے سوچا کہ کیا روزِ محشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہی نہیں ہوگا؟ جس دن تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اس دن کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکے گا کہ میں نے یہ دنیا میں کر لیا، وہ کر لیا۔ اس دن صرف اور صرف اپنے اعمال ہی کام آئیں گے۔
ایک طرف دنیا کے غریب لوگ کھڑے ہوں گے، جن کے پاس دنیا میں زیادہ کچھ نہیں تھا، جن کی زندگی سادگی میں گزری۔ ان کا حساب نسبتاً آسان ہو گا۔ ان سے دو وقت کی روٹی، سادے کپڑے، حقوق اللہ (یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اگر واجب ہوئی ہو) اور حقوق العباد (دوسروں کے حقوق کی ادائیگی) کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ان کی فہرست بہت مختصر ہوگی اور ان کا حساب بھی تیزی سے مکمل ہو جائے گا۔ ان کے چہروں پر ایک عجیب سا سکون اور اطمینان ہو گا، کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ انہوں نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا حساب بخوبی دیا ہے اور ان کے پاس دنیاوی بوجھ زیادہ نہیں تھے۔
امیروں کا کٹھن امتحان اور غربت کا سکون
دوسری طرف دنیا کے وہ امیر لوگ کھڑے ہوں گے جن کے پاس بے پناہ دولت، جاگیریں، پلازے، دکانیں، فیکٹریاں، عالیشان گاڑیاں، محلات، سونے اور ہیروں کے زیورات، بینک بیلنس، بے شمار ملازم، اور ہر طرح کی آسائشیں تھیں۔ انہیں ہر ایک چیز کا حساب دینا ہوگا۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ یہ دولت کہاں سے کمائی (حلال تھی یا حرام)؟ کیسے خرچ کی؟ کیا اس پر زکوٰۃ دی؟ کیا دوسروں کے حقوق ادا کیے؟ کیا ملازمین کے ساتھ انصاف کیا؟ کیا اللہ کے احکامات پر عمل کیا اور عیش و آرام میں ڈوب کر فرائض کو بھلایا تو نہیں؟
اتنی ساری چیزوں کا حساب دیتے ہوئے، وہ لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہوں گے کہ کہیں کوئی غلطی یا کمی نہ رہ گئی ہو۔ ان کے چہروں پر پریشانی، پشیمانی اور خوف نمایاں ہو گا، کیونکہ انہیں معلوم ہو گا کہ انہوں نے دنیا میں کتنی زیادہ نعمتیں استعمال کیں اور ان کا حساب کتنا بھاری ہو گا۔
تب شاید اسی نائی کی طرح، جو اس دن سیلاب میں حاجی صاحب کو دیکھ کر پرسکون مسکرا رہا تھا، روزِ محشر بھی غریب لوگ ان امیروں کو دیکھ رہے ہوں گے۔ ان کے چہروں پر ایک عجیب سا سکون ہو گا اور شاید وہ دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے:
“اج ای تے غربت دی چس آئی اے…”
یہ کہانی اور یہ منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیا کی یہ تمام تر چمک دمک، مال و دولت اور عیش و آرام عارضی ہیں۔ اصل کامیابی اور سکون آخرت کی تیاری میں ہے، جب انسان اپنے رب کے سامنے سرخرو ہو۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو سادگی، ایمانداری اور قناعت کے ساتھ گزاریں، تاکہ روزِ حساب ہمارا بوجھ ہلکا ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اطمینان کے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔
آمین یا رب العالمین؛
ماشاءاللہ بہت اچھا 👍