غیبت زنا سے بدتر گناہ ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ ۔
اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بےشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
وعن أبي سعيد وجابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الغيبة أشد من الزنا قالوا يا رسول الله وكيف الغيبة أشد من الزنا قال إن الرجل ليزني فيتوب فيتوب الله عليه وفي رواية فيتوب فيغفر الله له وإن صاحب الغيبة لا يغفرله حتى يغفر ھالہ صاحبه
وفي رواية أنس قال صاحب الزنا يتوب وصاحب الغيبة ليس له توبة
روى البيهقي الأحاديث الثلاثة في شعب الإيمان
ترجمہ
اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ آور حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیبت کرنا زنا کرنے سے زیادہ سخت برائی ہے صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ غیب زنا سے زیادہ سخت برائی کس طرح ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح کہ جب آدمی زنا کرتا ہے تو توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے ۔اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو بخش دیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو اللہ تعالی نہیں بخشتا جب تک کہ اس کو وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے ۔اور حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زنا کرنے والا توبہ کرتا ہے اور غیبت کرنے والے کے لیے توبہ نہیں ہے
(ان تینوں روایتوں کو بھیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے)
تفصیل:
(لا يغفر له)
ظالم باشاہ متعدی بدعتی آور فاسق مجاہرکی غیبت اس لیے جائز ہے تاکہ لوگوں کو اس کے ظلم اور فتنہ و فساد سے باخبر رکھا جائے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ غیبت کرنے والے کی نیت خالص ہو نیز وہ اتنا با اثر ہو کے اس کی غیبت سے عام مسلمانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہو اور اثر ہوتا ہو اگر ایسا نہ ہو تو فضول غیبت فضول ہی ہے” زجاجۃ المصابیح یعنی المشکاۃ حنفی میں لکھا ہے کہ غیبت اس وقت کوحقوق العباد میں سے بن جاتی ہے۔
(مزید تفصیل کے لیے مشکاۃ شریف کی المرقات دیکھیے)
اس حدیث کے آخر میں جو جملہ آیا ہے( ليس له توبه)
اس جملے کے دو مطلب ہیں ۔پہلا مطلب یہ ہے کہ آدمی غیبت کو معمولی چیز سمجھتا ہے اس لیے توبہ نہیں کرتا تو غیبت کی توبہ نہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ توبہ کی قبولیت اور اس کی صحت کا مدار مغتاب شخص کے معاف کرنے پر موقوف ہے لہذا یہ کہنا درست ہے کہ غیبت کے لیے توبہ نہیں یعنی مستقل توبہ نہیں جو غیبت کرنے والے کے لیے اختیار میں ہو اور جب توبہ نہیں تو مغفرت بھی نہیں۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تو ہم کو غیبت کرنے والوں میں شمار نہ فرما اور نہ غیبت سننے والوں میں ہمارا شمار فرما بلکہ ہم کو ان دونوں سے بچا “آمین
ایک عاشق رسول نوجوان تخت نشین کیسا بنا؟