فرض عین کا کیا مطلب   

فرض عین کا کیا مطلب    فرض عین کا کیا مطلب   

فرض عین کا کیا مطلب

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

طلب العلم فريضة على كل مسلم

ہر مسلمان پر علم کا حاصل کرنا فرض ہے

رسول اللہ نے مزید فرمایا

اطلب العلم ولو بالصين

علم حاصل کرو اگرچہ چین میں ہو

اس سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ کون سا علم ہر مسلمان پر فرض ہے، چنانچہ اس مسئلے میں 20 سے زائد فرقے بن گئے ہیں۔ ہم تفصیل نقل کر کے کلام کو لمبا نہیں کرتے ،البتہ خلاصہ یہ ہے کہ ہر فریق نے اس علم کو واجب قرار دیا جس کے در پہ وہ خود ہے چنانچہ متکلمین کہتے ہیں کہ وہ “علم کلام” ہے کیوں کہ اس کے ذریعے توحید کا ادراک ہوتا ہے اور اسی کے ذریعے اللہ تعالی کی ذات وہ صفات کا علم حاصل ہوتا ہے۔

فقہا کرام فرماتے ہیں، کہ اس سے مراد علم فقہ ہے کیوں کہ اس کے ذریعے عبادات اور حلال و حرام کا پتہ چلتا ہے،نیز کون سے  معاملات جائز اور کون سے نہ جائز ہے علم فقہ سےمعلوم ہوتی ہے، ان کی مراد وہ علم فقہ ہےجس کی ہر ایک کو ضرورت ہوتی ہے نادر اور کم واقع ہونے والے واقعات مراد نہیں۔

مفسرین وہ محدثین فرماتے ہیں یہ کتاب و سنت کا علم ہے، کیوں کہ ان دونوں کے ذریعے تمام علوم تک رسائی ہوتی ہے۔

اہل تصوف کہتے ہیں ،کہ اس سے علم تصوف مراد ہے۔

ان میں سے بعض کا قول ہے کہ بندے کا اپنے حال اور خداوند تعالی کے ہاں اپنے مقام کو جاننا مراد ہے، انہی میں سے کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ اخلاص اور نفس کی آفتوں کا علم نیز شیطانی وسوسوں اور فرشتے کے الہام میں تمیز کرنا مراد ہے ۔   بعض حضرات فرماتے ہیں اس سے علم باطن مراد ہے اور یہ خاص لوگوں پر واجب ہے جو اس کے اہل ہیں ان حضرات نے لفظ کے عموم کو بدل ڈالا۔

ابو طالب کہتے ہیں ،کہ اس سے وہ علم مراد ہے جس کو وہ حدیث شامل ہو جس میں اسلام کی بنیادوں کا ذکر ہے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔

اسلام کی بنیاد پانچ چیزیں ہیں ،اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں، اور حضرت مصطفی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں ،نماز قائم کرنا ،زکوۃ ادا کرنا ،ماہ رمضان کے روزے رکھنا ،اور استطاعت ہو تو بیت اللہ شریف کا حج کرنا ،کیونکہ یہ پانچ چیزیں واجب ہے ۔لہذا ان پر عمل کرنے کے طریقے اور کیفیت وجوب کا جاننا واجب ہے۔

اور جس بات پر طالب علم کو یقین کرنا اور شک سے بچنا چاہیے ہم اسے ذکر کرتے ہیں، وہ یہ ہے  کہ

علم کی دو قسمیں ہیں

(ایک علم معاملہ)

(نمبر دو علم مکاشفہ)

اور فرض علم سے مراد علم معاملہ ہے۔

عاقل اور بالغ بندے کو جن معاملات کا حکم دیا جاتا ہے وہ تین ہیں۔

(نمبر ایک اعتقاد)

(نمبر دو عمل)

(نمبر تین بعض کاموں ٭کو چھوڑ دینا)

مثلا جب کوئی شخص چاشت کے وقت احتلام یا عمر کے ذریعے بالغ ہو جائے تو سب سے پہلے اس پر کلمہ شہادت کا سیکھنا اور اس کا معنی سمجھنا واجب ہے

اور وہ کلمہ،، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔

اس کلمے میں غور و فکر کرنے بحث کرنے اور دلائل لکھنے کے ذریعے اس کی وضاحت اس پر واجب نہیں، بلکہ اس کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ وہ اس کی تصدیق کرے اور کسی شک وہ شبہ اور اضطراب نفس کے بغیر اس پر پکا یقین اور اعتقاد رکھے  اور یہ بات صرف تقلید اور سننے سے حاصل ہو جاتی ہے۔( بحث اور دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی)

کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے اجڑ لوگوں سے تصدیق اور اقرار کو کسی دلیل کے سیکھے بغیر قبول کیا، جب وہ شخص اس طرح کر لے گا تو اس نے وجوب وقت پر عمل کر لیا اس وقت اس پر جس چیز کا جاننا فرض عین تھا وہ کلمہ توحید کو سیکھنا اور اس کو سمجھنا تھا۔ اس وقت اس پر اس کے علاوہ کچھ بھی واجب نہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ اس کے بعد فوت ہو جائے تو اللہ تعالی کا فرمانبردار اور گناہوں سے اجتناب کرنے والا شمار ہوگا۔

اس کے علاوہ جو کچھ واجب ہوتا ہے، وہ ان عوارض کی وجہ سے ہوتا ہے جو ا سے پیش آتے ہیں اور یہ عوارض عمل کرنے میں ہوتے ہیں یا اسے چھوڑنے میں اور یا اعتقاد میں ہوتے ہیں۔

جہاں تک عمل کا تعلق ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ اگر وہ  چاشت سے ظہر تک زندہ رہے تو ظہر کا وقت داخل ہوتے ہی اس پر طہارت اور نماز سیکھنے کے اعتبار سے ایک نیا عمل واجب ہو جائے گا ۔اگر وہ صحیح تندرست ہے  اور اس حالت میں ہے کہ اگر وہ سورج کے زوال تک کچھ نہ سیکھے تو وقت ظہر میں سب کچھ سیکھ کر عمل نہ کر سکے گا بلکہ اگر سیکھنے میں  مشغول ہو تو ظہر کا وقت نکل جائے گا تو اس حالت میں یہ کہنا صحیح ہے کہ ظاہر یہی ہے کہ وہ ظہر تک زندہ رہے گا ،لہذا اس پر وقت سے پہلے سیکھنا واجب ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عمل کے لیے جس علم کا حاصل کرنا شرط ہے وہ وجوب عمل کے بعد واجب ہو جاتا ہے لہذا زوال سے پہلے واجب نہ ہوگا ۔(باقی نمازوں کا  معاملہ بھی اسی طرح ہے)

پھر اگر وہ ماہ رمضان تک زندہ رہے تو اس کے سبب اس پر روزے کا علم حاصل کرنا واجب ہو جائے گا ،یعنی وہ اس بات کا علم حاصل کرے کہ اس کا وقت صبح سے لے کر غروب آفتاب تک ہے۔ اور اس میں نیت کرنا، کھانا، پینے، اور جماع سے باز رہنا ،واجب ہے ۔اور یہ عمل عید کا چاند دیکھنے یا اس پر دو گواہوں کی گواہی تک ہے۔

پھر اگر اسے مال حاصل ہو جائے یا بالغ ہوتے وقت اس کے پاس مال تھا تو اس پر اس چیز کا علم واجب ہے جس کے سبب زکوۃ فرض ہوتی ہے ۔لیکن یہ اسی وقت لازم نہ ہوگا بلکہ اسلام کے وقت سے ایک سال پورا ہونے پر لازم ہوگا اگر وہ صرف اونٹوں کا مالک ہو تو اس پر صرف  اونٹوں کی زکوۃ سے متعلق علم حاصل کرنا واجب ہوگا ۔(اسی طرح مال کی دوسری اقسام کا حکم ہے)

اس کے بعد جب حج کے مہینے آجائے، تو  حج  سےمتعلق    علم کی فوری ضرورت نہیں، کیونکہ اس کی ادائیگی تاخیر سے بھی ہو سکتی ہے۔( لہذا فی الفور اس کے مسائل کا سیکھنا لازمی نہیں)

لیکن علماء اسلام کو چاہیے کہ وہ اسے آگاہ کرے کہ جو شخص سامان سفر اور سوار کا مالک ہو اس پر حج فرض ہے۔ اگرچہ تاخیر کے ساتھ ہے حتی کہ بعض اوقات وہ احتیاط کے طور پر جلد از جلد ادا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو جب وہ ارادہ کرے تو اس پر حج کا طریقہ سیکھنا لازم ہے، اور وہ بھی فرائض اور واجبات کا سیکھنا ہے۔( نفل کا سیکھنا ضروری نہیں کیوں کہ نفل  تو اپنی طرف سے ادا کرتا ہے لہذا اس کا علم بھی نفل ہے اس کا سیکھنا فرض نہیں)

اور کیا محض وجوب حج کے بارے میں اسے اسی وقت آگاہ کرنے سے خاموشی اختیار کرنا حرام ہے؟

تو یہ بات فقہ سے متعلق ہے اسی طرح ان تمام افعال کا علم آہستہ آہستہ حاصل کرے گا جو فرض عین ہے۔

کسی فعل کو چھوڑنے سے متعلق علم بھی حسب ضرورت واجب ہوتا چلا جائے گا ۔اور یہ شخصیات کے حوالے سے بدلتا رہتا ہے کیوں کہ گونگے پر حرام کلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا واجب نہیں ،اسی طرح اندھے پر حرام نظر کا علم واجب نہیں۔ جنگل میں رہنے والے پر مجالس کا علم حاصل کرنا واجب نہیں، کیونکہ وہاں ایسے مجالس نہیں ہوتے۔

گویا جن چیزوں کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اس کے لیے غیر ضروری ہے، تو ان کے بارے میں علم حاصل کرنا واجب نہیں البتہ جن امور کے ساتھ اس کا تعلق ہو ان سے آگاہی حاصل کرنا واجب ہے۔ جس طرح کوئی شخص اسلام لاتے وقت ریشمی   کپڑا پہنے ہوئے ہو، یا مغضوبہ زمین پر بیٹھا ہوا ہو، یا غیر محرم کی طرف دیکھ رہا ہو، تو ان امور کی وضاحت واجب ہو گئی ۔اور جن امور میں فی الحال مبتلا نہیں لیکن عنقریب ان کے ساتھ تعلق پیدا ہوگا جیسے کھانا، پینا، تو ان امور کی تعلیم واجب ہے حتی کہ اگر کسی ایسے شہر میں ہو جہاں شراب نوشی اور خنزیر کھانے کا رواج ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان لوگوں کو اس کے چھوڑنے کی تعلیم دے اور تنبیہ کرے اور جن باتوں کا سیکھنا واجب ہے ان کو سکھانا بھی واجب ہے۔

جہاں تک عقائد اور قلبی اعمال کا تعلق ہے تو ان کا سیکھنا بھی حضرات کے مطابق ہے ۔اگر اسے ان معانی پر شک پیدا ہو، جن پر کلمہ طیبہ کے دونوں جز دلالت کرتے ہیں توحید و رسالت تو اس بات کا سیکھنا واجب ہے جو اس شک کو زائل کر دے ،اور اگر ا سے اس قسم کا شک نہ ہو لیکن وہ اس اعتقاد سے پہلے فوت ہو جائے گا اللہ تعالی قدیم ہے اور اس کا دیدار ہو سکتا ہے،( نیز وہ حوادث قابل تغیر امور کا محل نہیں ہے )تو بالاتفاق وہ شخص اسلام پر فوت ہوا۔

اور یہ خطرات جو اعتقادات کو واجب کرتے ہیں ان میں سے بعض خود دل میں اٹھتے ہیں اور بعض شہر والاں سے سن کر پیدا ہوتے ہیں پس اگر وہ ایسے شہر میں ہو جس میں بدعت کے بارے میں کلام وہ گفتگو عام ہو تو لازم ہے کہ اس کے بالغ ہوتے ہی اس سے امور حق سکھا کر بدعت سے محفوظ کر لیا جائے ،کیوں کہ اگر باطل اس تک پہنچ گیا تو اس کے دل سے اس کا  نکالنا واجب ہوگا ،اور بسا اوقات ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے ہے مثلا اگر یہ مسلمان تاجر ہو اور شہر میں سود کا معاملہ عام ہو تو اس پر سود سے بچنے کا علم حاصل کرنا واجب ہے تو فرض عین علم میں یہی بات حق ہے ۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو عمل واجب ہے اس کی کیفیت کا علم رکھتے ہوئے۔ پس جس شخص کو واجب عمل اور اس کے وقت وجود کا علم حاصل ہو گیا اس نے وہ علم حاصل کر لیا ،جو فرض عین ہے۔

صوفیا کرام نے جو فرمایا کہ اس سے شیطان کے وسوسوں اور فرشتوں کے الہام  کا  علم مراد ہے وہ ابھی صحیح ہے ۔لیکن یہ اس شخص کے لیے ہے جو اس کے در پے ہو اور جب غالب گمان یہ ہے کہ انسان شر یا اور حسد کی طرف بلانے والی باتوں سے نہیں بچ سکتا تو اس پر لازم ہے کہ وہ مہلکات سے ان باتوں کا علم حاصل کرے جن کا وہ حاجت مند ہو اور اس پر یہ بات کیسے واجب نہ ہوگی۔

 حالانکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

تین باتیں ہلاک میں ڈالنے والی ہے۔ (نمبر ایک )ایسا بخیل اور لالچ جس کی اطاعت کی جائے،، (نمبر دو )وہ خواہش جس کی پیروی کی جائے،،( نمبر تین )اور انسان کا خود پسندی میں مبتلا ہونا۔

ان امور سے کوئی بھی شخص محفوظ نہیں اور اس کے علاوہ دیگر قلبی خرابیاں مثلا تکبر خودپسندی وغیرہ جن کا ہم ذکر کریں گے، وہ ان تینوں خرابیوں کے تابع ہیں، جو حدیث ذکر کیا گیا ہے

اور ان کا ازالہ فرض عین ہے، اور جب تک ان کی تعریف اور اسباب کی  معرفت  نیزان کی علامات کی پہچان اور علاج کا طریقہ معلوم نہ ہو ان کا ازالہ ممکن نہیں ،کیوں کہ جو شخص برائی کو نہیں پہچانتا وہ اس میں پڑ جاتا ہے۔ علاج یہ ہے کہ ہر ایک سبب کی ضد سے مقابلہ کیا جائے اور یہ بات سبب اور مسبب کی پہچان کے بغیر کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔

(اسلئے کہاں گیا کہ مہلکات کا علم اکژحاصل کرنا فرض عین ہے)

اگر نو مسلم شخص کسی دوسرے  دین کو چھوڑ کر اس دین میں نہیں آیا( بلکہ کفر سے اسلام کی طرف آتا ہے ٭تو اسے جنت وہ دوزخ اور حشر و نشر پر ایمان سکھانے میں جلدی کرنی چاہیے ،تاکہ وہ اس پر ایمان لائے اور تصدیق کرے ،اور یہ کلمہ شہادت کی تکمیل ہے۔ کیونکہ  اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کے بعد اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ رسالت کی تبلیغ سے آگاہ ہو ،اور وہ اس طرح ہے کہ جو شخص اللہ تعالی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اس کے لیے جنت ہے، اور جو آدمی ان دونوں کی نافرمانی کرے گا اس کے لیے جہنم ہے۔

جب تم اس سے آگاہ ہو گے تو  تمہیں معلوم ہو گیا کہ مذہب حق ہی ہے، اور یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ ہر شخص پر رات دن میں جو کچھ ایسے حالات آتے ہیں کہ اس کی عبادات وہ معاملات کے سلسلے میں  نئےنئے واقعات وہ لوازم پیدا ہوتے ہیں اس لیے جو نئی اور عجیب بات اس پر ظاہر ہو اس کے بارے میں پوچھنا ضروری ہے ،اور جس بات کا عنقریب واقع ہونا غالب ہو اس کے بارے میں علم حاصل کرنا لازم ہے، جب یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی

طلب العلم فريضة على كل مسلم۔

  العلم  میں جو الف لام کے ذریعے ٭العلم ٭معرفہ ہے، اس سے مراد اس عمل کا علم ہے جو مسلمان پر واجب ہے کوئی دوسرا علم مراد نہیں۔ تو اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ علم تجریجی کیوں ہے۔

نیز کب واجب ہوتا ہے ۔


تراویح کے بعض رکعت چھوٹ جائے تو کیا حکم ہے

When will Amma Bhai die?

4 thoughts on “فرض عین کا کیا مطلب   

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *