قبروں کی زیارت مستحب ہے
نَهَيْتُکُمْ عَنْ ثَلَاثٍ وَأَنَا اٰمُرُکُمْ بِهِنَّ. نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا فَإِنَّ فِي زِيَارَتِهَا تَذْکِرَةً، وَنَهَيْتُکُمْ عَنِ الأَشْرِبَةِ أَنْ تَشْرَبُوْا إِلَّا فِي ظُرُوْفِ الأَدَمِ فَاشْرَبُوْا فِي کُلِّ وِعَاءٍ غَيْرَ اَنْ لَّا تَشْرَبُوْا مُسْکِرًا، وَنَهَيتُکُمْ عَنْ لُحُوْمِ الأَضَاحِيّ اَنْ تَأکُلُوْهَا بَعْدَ ثَلَاثٍ فَکُلُوْا وَاسْتَمْتِعُوْا بِهَا فِيْ أَسْفَارِکُمْ.
رواه مسلم)
ترجمہ
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے تو میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کر دیا تھا ،اب تم قبروں کی زیارت کر لیا کرو۔اسی طرح میں نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھ کر کھانے کو منع کیا تھا، اور اب تم جب تک چاہو اسے کھاؤ ۔نیز میں نے نبیز کو سوائے مشک کے دوسرے برتنوں میں رکھ کر پینے سے منع کیا تھا اب تم جن برتنوں میں چاہو سب میں پی لیا کرو ،لیکن نشہ کی کوئی چیز کبھی نہ پینا ۔
تفصیل
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں قبروں کی زیارت سے مطلقا منع فرما دیا تھا کیوں کہ زمانے جاہلیت قریب تھا قبروں پر جانے سے شرک آنے کا امکان تھا کیوں کہ شرک قبروں ہی کے راستے سے آتا ہے اور بے جا محبت کی وجہ سے آتا ہے جب مسلمانوں میں توحید کا عقیدہ راسخ ہو گیا اور طریقے اسلام طریقہ جہالیت سے ممتاز ہو گیا اور شرک میں پڑ جانے کا خطرہ نہ رہا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کی اجازت دے دی ،جو زیر بحث حدیث “فزورها “کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہو رہی ہے اب مسئلہ یہ رہ گیا کہ قبور کی زیارت کی عمومی ممانعت کے بعد جو اجازت دی گئی ہے وہ کس درجے کی ہے آیا مردوں کے ساتھ عورتوں کے لیے بھی یہ اجازت عام ہے یا یہ اجازت صرف مردوں تک محدود ہے ؟
اس میں علماء کا کچھ اختلاف ہے۔
علماء کے ایک طبقے کا خیال یہ ہے کہ زیارات کی عمومی ممانعت کے بعد اجازت کا یہ حکم عام ہے لہذا عورتیں بھی قبروں کی زیارت کے لیے جا سکتی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کا قبروں کی زیارت کے لیے جانا ثواب ہے ۔اور انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا طریقہ بھی سیکھا ہے اسی طرح مستدرک حاکم کی ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما بھی اپنی پھوپھی کی قبر پر زیارت کے لیے بروز جمعه جایا کرتی تھیں ۔ان علماء کا یہ خیال ہے کہ زیارت قبور کی یہ ممانعت وقتی تھی جو بعد میں منسوخ ہو گئی لہذا عورتوں کا قبروں پر جانا جائز ہے۔
محققین علماء نے یہاں ایک اچھا راستہ اختیار کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ عمر رسیدہ عورتیں جو قبروں کی زیارت کے آداب سے واقف ہو وہ زیارت کے لیے جا سکتی ہے۔ جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما سے ثابت ہے لیکن جو عورتیں جوان ہو یا بوڑھی ہو لیکن زیارت قبور کے آداب سے واقف نہ ہو، مثلا قبرپر جا کر صاحب قبرسے کس طرح ان سے مانگنا اور کس طرح ان سے نہیں مانگنا اگر ان کو یہ معلوم ہو تو وہ جا سکتی ہے ورنہ وہ قبر پر جا نہیں سکتی ۔
شرعًا قبور کی زیارت کرنا باعثِ اجر و ثواب اور تذکیرِ آخرت کا ذریعہ ہے۔ ائمہِ حدیث و تفسیر نے شرح و بسط کے ساتھ اس کی مشروعیت کو بیان کیا ہے۔ مذاہبِ اربعہ کے ائمہ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ تمام مسلمانوں کو خواہ مرد ہو یا عورت زیارتِ قبور کی اجازت ہے۔
زیارتِ قبور کا طریقہ (کیا ہے)؟
جو شخص بھی کسی عام مومن کی قبرپر چلا جائے تو قبلہ کی طرف پشت کرکے چہرہ میت کے سینے کی طرف کرے۔ ایک بار سورۂ فاتحہ اور تین بار سورۂ اخلاص پڑھے اور جب قبرستان میں داخل ہو تو یہ الفاظ کہے : اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ أهل الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ يَغْفِرُاﷲُ لَنَا وَلَکُمْ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اﷲُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ. (اے امؤمنین و مسلمین سے تعلق رکھنے والے لوگو! تم پر سلامتی ہو۔ اﷲتعالیٰ ہماری اور تمہاری بخشش و مغفرت فرمائے۔ ہم بھی ان شاء اﷲ تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔) اگر وہ قبر اولیاء و صلحاء میں سے کسی بزرگ کی ہو تو اپنا چہرہ اس بزرگ کے سینہ کی طرف کرے اور بیٹھ جائے اور 21 مرتبہ چار ضربوں کے ساتھ ان اسماء مبارکہ کا ورد کرے سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلاَئِکَةِ وَالرُّوْحِ اور سورہ القدر تین بار پڑھے۔ اس بزرگ ہستی کے سامنے اپنے قلب کو وساوس وخطرات سے پاک کرے تو اس زیارت کرنے والے کے دل میں اس بزرگ ہستی کی روحانی برکات پہنچ جائیں گی۔
——————
ملک الموت کو دیکھ کر لوگوں کی حسرتیں