قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی نعمت
قرآن مجید، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو سرچشمہ ہدایت، علم اور نور ہے۔ اس کا نزول بنی نوع انسان کی رہنمائی، ان کی روحانی و اخلاقی تربیت، اور انہیں دنیا و آخرت کی فلاح کی راہ دکھانے کے لیے ہوا۔ قرآن کو پڑھنا، سمجھنا، اس پر عمل کرنا، اور پھر دوسروں تک اس کے پیغام کو پہنچانا، اسلام میں ایک ایسی عظیم نعمت اور فضیلت سمجھی جاتی ہے جس کی مثال مشکل ہے۔ یہ صرف ایک دینی فریضہ نہیں بلکہ ایک روحانی سفر ہے جو فرد کو اللہ سے جوڑتا ہے اور معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لاتا ہے۔ اس تحریر میں ہم قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی ان گنت برکات، فضائل، اور دلائل پر گہرائی سے غور کریں گے جو قرآنی آیات، احادیث نبویہ، اور فقہائے کرام کے اقوال سے ثابت ہیں۔
قرآن پڑھنے کی فضیلت اور برکات
قرآن کی تلاوت ایک ایسی عبادت ہے جو ہر مسلمان کو اپنے رب کے قریب کرتی ہے۔ یہ نہ صرف قلوب کو منور کرتی ہے بلکہ روح کو تازگی بخشتی ہے اور دماغ کو وسعت دیتی ہے۔
. ثواب عظیم اور اجر بے پایاں
قرآن کی تلاوت پر ملنے والا اجر و ثواب بے مثال ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے
“جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ‘الم’ ایک حرف ہے، بلکہ ‘الف’ ایک حرف ہے، ‘لام’ ایک حرف ہے اور ‘میم’ ایک حرف ہے۔” (سنن ترمذی: 2910)
اس حدیث کی رو سے، قرآن کا ہر حرف نیکیوں کی پیداوار کا ذریعہ ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ جب کوئی شخص روزانہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں حروف کی تلاوت کرتا ہے تو اس کے نامہ اعمال میں کتنی نیکیاں جمع ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا کاروبار ہے جس میں گھاٹا نہیں بلکہ ہر پل نفع ہی نفع ہے۔ یہ دلیل واضح طور پر قرآن کی تلاوت کے دنیوی اور اخروی فوائد کو اجاگر کرتی ہے۔
روحانی سکون اور قلبی اطمینان
آج کے پرفتن دور میں جہاں ہر شخص کسی نہ کسی ذہنی تناؤ اور پریشانی کا شکار ہے، قرآن کی تلاوت قلبی سکون کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
“الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ” (الرعد: 28)
“جو لوگ ایمان لائے، ان کے دل اللہ کے ذکر سے سکون پاتے ہیں۔ خبردار! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔”
قرآن اللہ کا ذکر ہے، اور اس کی تلاوت سے دلوں کو ایسا سکون میسر آتا ہے جو دنیا کی کسی اور چیز سے نہیں مل سکتا۔ یہ ایک قسم کی روحانی پناہ گاہ ہے جہاں روح کو حقیقی آرام ملتا ہے۔ پریشانیوں، غموں اور دکھوں میں قرآن ہی وہ واحد چیز ہے جو انسان کو اللہ کی قربت کا احساس دلاتی ہے اور اسے صبر و استقامت کی تلقین کرتی ہے۔
ہدایت کا سرچشمہ اور حق و باطل میں فرق کرنے والا
قرآن مجید ہدایت کا ایک مکمل دستور العمل ہے۔ یہ انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، چاہے وہ اخلاقیات ہوں، معاشرت ہو، معیشت ہو یا سیاست۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
“إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا” (الاسراء: 9)
“یقیناً یہ قرآن اس راہ کی رہنمائی کرتا ہے جو سب سے سیدھی ہے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں، بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔”
قرآن پڑھنے سے انسان حق اور باطل کے درمیان فرق کو سمجھتا ہے، صحیح اور غلط کا امتیاز سیکھتا ہے، اور اپنی زندگی کو اللہ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی روشنی ہے جو تاریکیوں میں راستہ دکھاتی ہے۔
شفاعت کا ذریعہ
قیامت کے دن قرآن اپنے پڑھنے والے کے لیے شفاعت کرے گا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
“قرآن پڑھو! کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا۔” (صحیح مسلم: 804)
یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہے کہ قیامت کی ہولناکیوں میں جب ہر شخص اپنی فکر میں ہوگا، قرآن اپنے قاری کے حق میں گواہی دے گا اور اس کی نجات کا سبب بنے گا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا میں قرآن کے ساتھ تعلق آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔
حفظِ قرآن کی فضیلت
قرآن کو سینے میں محفوظ کرنا یعنی حفظ کرنا، ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ حافظِ قرآن اللہ کے نزدیک خاص مرتبہ رکھتے ہیں۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“جو شخص قرآن پڑھنے میں مشغول ہو اور مجھ سے دعا کرنے سے قاصر ہو تو میں اسے سوال کرنے والوں سے بہتر عطا کروں گا۔” (سنن ترمذی: 2926)
حافظِ قرآن کے والدین کو بھی قیامت کے دن نور کا تاج پہنایا جائے گا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کو حفظ کرنا نہ صرف فرد بلکہ اس کے خاندان کے لیے بھی باعث فخر اور اجر کا ذریعہ ہے۔
قلب کا نور اور بصیرت
قرآن پڑھنے سے دلوں میں نور پیدا ہوتا ہے اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ جب انسان قرآن کی آیات پر غور کرتا ہے، تو اسے کائنات کے راز، زندگی کے مقاصد اور اللہ کی حکمتوں کا ادراک ہوتا ہے۔ یہ ادراک اسے دنیوی معاملات میں صحیح فیصلے کرنے اور اخروی نجات کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد دیتا ہے۔
قرآن پڑھانے کی فضیلت اور برکات
قرآن پڑھانا صرف پڑھنے سے بھی زیادہ افضل ہے، کیونکہ یہ علم کو پھیلانا، دین کی دعوت دینا، اور آنے والی نسلوں کو راہ راست پر لانا ہے۔ قرآن پڑھانے والا ایک عظیم ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتا ہے اور اس کے بدلے میں اسے بے پناہ اجر ملتا ہے۔
بہترین انسان کا لقب
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
“تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔” (صحیح بخاری: 5027)
یہ حدیث قرآن کے معلم کے مقام کو واضح طور پر بیان کرتی ہے۔ بہترین ہونے کا یہ لقب کسی عام شخص کو نہیں بلکہ اسے دیا گیا ہے جو اللہ کے کلام کو سیکھتا ہے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی نظر میں قرآن کا معلم ایک بہت بلند مرتبہ رکھتا ہے۔
صدقہ جاریہ
قرآن پڑھانا ایک بہترین قسم کا صدقہ جاریہ ہے۔ جب ایک استاد کسی کو قرآن پڑھاتا ہے اور وہ شاگرد آگے چل کر دوسروں کو پڑھاتا ہے، تو اس کا اجر استاد کو بھی ملتا رہتا ہے۔ جب تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، استاد کے نامہ اعمال میں نیکیاں جمع ہوتی رہتی ہیں، خواہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہو۔ یہ ایک ایسا نفع بخش سرمایہ ہے جس کا اجر موت کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا۔
علم کی وراثت اور نبوی مشن
انبیاء کرام نے کوئی مالی وراثت نہیں چھوڑی بلکہ انہوں نے علم کی وراثت چھوڑی۔ قرآن کا علم نبیوں کی وراثت ہے اور جو اسے سیکھتا اور سکھاتا ہے وہ اس وراثت کا حقدار بنتا ہے۔ قرآن پڑھانے والا درحقیقت انبیاء کے مشن کو آگے بڑھا رہا ہوتا ہے، جو کہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا اور انہیں ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ یہ ایک ایسا بلند مقصد ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا۔
علم کی برکت اور عمل کی توفیق
جب کوئی شخص قرآن پڑھاتا ہے، تو اسے اپنے علم کی بار بار دہرائی کا موقع ملتا ہے، جس سے اس کا علم مزید پختہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، قرآن کی تعلیم و تدریس اسے خود اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دیتی ہے، کیونکہ جب انسان دوسروں کو کچھ سکھاتا ہے تو وہ خود بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں پڑھانے کا عمل اس کی اپنی عملی زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں لاتا ہے۔
معاشرتی اصلاح اور نسلوں کی تربیت
قرآن پڑھانے والے افراد معاشرے کی اصلاح میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ بچوں اور نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کراتے ہیں، انہیں اخلاق حسنہ سکھاتے ہیں، اور انہیں دین کی صحیح سمجھ فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک ایسی نسل تیار کرتے ہیں جو دین پر عمل پیرا ہوتی ہے اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد دراصل قرآن کی تعلیم پر ہی استوار ہوتی ہے۔
خیر کا پھیلانا
قرآن پڑھانے سے خیر اور بھلائی پھیلتی ہے۔ جب لوگ قرآن سیکھتے ہیں، تو وہ اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں، جس سے معاشرے میں امن، عدل، اور اخوت کو فروغ ملتا ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو ایک فرد سے شروع ہو کر پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ قرآن کی تعلیم سے جہالت کا اندھیرا دور ہوتا ہے اور علم کی روشنی پھیلتی ہے۔
قرآن سے تعلق قائم کرنے کے عملی پہلو
قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی نعمت کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لیے چند عملی اقدامات ضروری ہیں
روزانہ کی تلاوت کا معمول
چاہے تھوڑا ہی سہی، روزانہ قرآن کی تلاوت کا معمول بنانا چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے، خواہ تھوڑا ہی ہو۔” (صحیح بخاری: 6464) یہ روزانہ کا تعلق انسان کو اللہ سے جوڑے رکھتا ہے اور اس کی روحانی پیاس بجھاتا ہے۔
تجوید و قراءت کی درستگی
قرآن کو صحیح تلفظ اور تجوید کے ساتھ پڑھنا بہت ضروری ہے۔ تجوید وہ علم ہے جو قرآن کو اس کے صحیح مخارج اور صفات کے ساتھ پڑھنا سکھاتا ہے۔ اس کے لیے کسی اچھے قاری یا استاد سے سیکھنا چاہیے۔ قرآن کی تلاوت میں لحن جلی (بڑی غلطی) اور لحن خفی (چھوٹی غلطی) سے بچنا چاہیے تاکہ معنی کی تبدیلی سے بچا جا سکے۔
قرآن کو سمجھنے کی کوشش
صرف تلاوت ہی کافی نہیں بلکہ اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے مستند تفاسیر اور ترجموں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جب انسان قرآن کے معانی کو سمجھتا ہے تو اس کے دل میں اس کی عظمت اور حکمت مزید راسخ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو غور و فکر کے لیے نازل فرمایا ہے:
“أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا” (محمد: 24)
“کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں؟”
تدبر اور عمل
قرآن کو سمجھنے کے بعد اس کی آیات میں تدبر کرنا، یعنی گہرائی سے غور کرنا، اور پھر اس پر عمل پیرا ہونا حقیقی مقصد ہے۔ قرآن ایک عملی کتاب ہے جو صرف معلومات فراہم نہیں کرتی بلکہ زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔
قرآن کی تعلیم و تدریس کا عزم
ہر اس شخص کو جو قرآن کا علم رکھتا ہو، اسے دوسروں تک پہنچانے کا عزم کرنا چاہیے۔ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اللہ کے کلام کو عام کریں تاکہ کوئی بھی ہدایت سے محروم نہ رہے۔ اس کے لیے قرآن کی کلاسیں منعقد کرنا، حلقے بنانا، اور دوسروں کو ترغیب دینا شامل ہے۔
خلاصہ اور نتیجہ
قرآن پڑھنے اور پڑھانے کی نعمت ایک ایسی عظیم فضیلت ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ وہ راستہ ہے جو انسان کو دنیا و آخرت کی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ قرآن کی تلاوت سے قلب کو سکون، روح کو طمانیت، اور ایمان کو تازگی ملتی ہے۔ یہ حق و باطل میں تمیز سکھاتا ہے، اخلاق سنوارتا ہے، اور فرد کو اللہ کے احکامات کا پابند بناتا ہے۔
جبکہ قرآن پڑھانا، علم کے پھیلاؤ، دین کی خدمت، اور نسلوں کی تربیت کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ کرنے والے کو ‘بہترین شخص’ کا لقب دلاتا ہے اور صدقہ جاریہ کی صورت میں بے پناہ اجر کا باعث بنتا ہے۔ قرآن کا معلم درحقیقت انبیاء کے نقش قدم پر چلتا ہے اور معاشرتی اصلاح میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
لہٰذا، ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ قرآن سے اپنے تعلق کو مضبوط کرے، اسے پڑھے، سمجھے، اس پر عمل کرے، اور پھر اس کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچائے۔ یہی وہ راستہ ہے جس میں دنیا و آخرت کی بھلائی مضمر ہے اور اسی میں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کی نعمت کو تھامے رکھنا دراصل اپنے آپ کو اللہ کی حفاظت میں دینا ہے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونا ہے۔ یہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جس کا منافع کبھی ختم نہیں ہوتا۔
——