لالچی کا انجام
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۶)) (پ۲۸، الحشر: ۹) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔
’’حضرت حارث محاسبی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا: قناعت کرنے والا غنی ہوتا ہے اگرچہ بھوکا ہو اور حریص فقیر ہوتا ہے اگرچہ بادشاہ ہو۔‘‘
5: أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیۃ: 60۔
حکایت
ایک گاؤں میں سلیم نام کا ایک لالچی درزی رہتا تھا۔ وہ بہت چالاک اور چالاک تھا۔ اس نے ہمیشہ اپنی چالاکی سے دوسروں کو دھوکہ دے کر زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وہ کپڑوں کی سلائی کے لیے زیادہ پیسے لیتا اور پھر بھی کپڑوں کی سلائی میں کچھ کمی چھوڑ دیتا تاکہ لوگ دوبارہ اس کے پاس آجائیں۔ لیکن اس کا ایک خاص اصول تھا کہ وہ صرف امیر لوگوں کے لیے کام کرے گا اور غریبوں کو نظر انداز کرے گا۔
ایک دن گاؤں میں ایک بوڑھا آدمی آیا۔ اس کے کپڑے پھٹے اور جوتے ٹوٹ گئے۔ وہ سیدھا سلیم کی درزی کی دکان پر آیا اور نہایت عاجزی سے بولا بیٹا میرے پاس ایک قمیض ہے جس میں بٹن لگانا ہے کیا تم یہ کام کر سکتے ہو؟
سلیم نے سر سے پاؤں تک بوڑھے کی طرف دیکھا اور کہا، “بابا! میرے پاس اتنے چھوٹے کاموں کے لیے وقت نہیں ہے، کسی اور کے پاس جاؤ۔”
بوڑھے نے مسکرا کر اپنی جیب سے ایک سنہری بٹن نکالا اور کہا دیکھو یہ بٹن خالص سونے کا ہے، اگر تم اسے میری قمیض پر لگاؤ تو میں تمہیں تمہاری محنت کے صلے میں یہ بٹن دوں گا۔
سونے کا بٹن دیکھ کر سلیم کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس کے ذہن میں فوراً لالچ پیدا ہوا۔ اس نے بظاہر نرم لہجے میں کہا، “بابا، کیوں نہیں؟ آپ کا کام میرا کام ہے، قمیض لے آؤ، میں ابھی بٹن لگا دوں گا۔”
بوڑھے نے اپنی قمیض درزی کے حوالے کر دی۔ سلیم نے جلدی سے قمیض کا بٹن لگاتے ہوئے کہا، “یہ لو بابا، آپ کا کام ہو گیا، اب میرا صلہ؟”
بوڑھے نے سونے کا بٹن سلیم کو دیا اور مسکراتے ہوئے چلا گیا۔ سلیم نے خوشی سے بٹن جیب میں ڈالا اور دل ہی دل میں اپنی تعریفیں کرنے لگا کہ آج اسے اتنی قیمتی چیز بغیر کسی محنت کے مل گئی ہے۔
رات کو سلیم نے بٹن اپنے لاکر میں رکھا اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔ لیکن جونہی اس نے آنکھیں بند کیں، اسے عجیب سی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور ادھر ادھر دیکھا لیکن کچھ نظر نہیں آیا۔
سب ایک وہم ہے، مجھے زیادہ نہیں سوچنا چاہیے۔‘‘ سلیم نے خود کو تسلی دی اور دوبارہ سونے کی کوشش کی۔
لیکن جیسے ہی اس کی آنکھیں بند ہوئیں، اچانک سیف سے ایک تیز روشنی نکلی اور کمرہ روشنی سے بھر گیا۔ سلیم حیران ہوا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے سیف کھولا تو دیکھا کہ سونے کا بٹن نہیں تھا! اس کی جگہ ایک سیاہ، بدبودار پتھر پڑا تھا۔
سلیم کے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ “یہ کیا جادو ہے؟” وہ بڑبڑایا. اسی لمحے اسے کھڑکی کے باہر وہی بوڑھا نظر آیا جو اسے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔
سلیم نے چیخ ماری اور دروازہ کھول کر باہر بھاگا لیکن باہر کوئی نہیں تھا۔ اس کے بعد وہ کمزور سے کمزور ہونے لگا۔ اس کی دکان پر گاہک آنا بند ہو گئے، اس کے کپڑے خود ہی خراب ہونے لگے اور آخر کار وہ خود ہی ادھر ادھر گھومنے لگا۔
لوگوں نے سلیم کی حالت دیکھ کر کہا کہ یہ بوڑھا دراصل ایک ولی تھا جو لالچی لوگوں کو سبق سکھانے آیا تھا۔ اس کے بعد سلیم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔
(اس لے کہا جاتا ہےکہ لالچ بری بلا ہے )