لفظ بیٹا شفقت سنت اور تربیت کا پیغام

لفظ بیٹا شفقت سنت اور تربیت کا پیغام لفظ بیٹا شفقت سنت اور تربیت کا پیغام

لفظ بیٹا شفقت سنت اور تربیت کا پیغام

لفظ “بیٹا” – ایک شفقت بھرا خطاب

اگر اپ گھر میں داخل ہو اور بچوں یا اہلیہ کی کسی بات پر غصہ ائے تو صبر کیجئے. اور غصہ ختم ہونے کے بعد نرمی سے سمجھائیے اپ کا یہ تھوڑا سا صبر اپ کے بچوں کو کئی گناہ شاکر بنا دے گا جب بھی دفتر یا دکان سے گھر ائے تو بچوں کے لیے ضرور کوئی چیز لائے

اور پیار وہ محبت سے انہیں کھلائے یہ یا تقسیم کرے ان سے خوب پیار و محبت کا اظہار کرے, کہ بچے اپ کے انے کا انتظار کرے اور اپ کے لیے دعائیں کرے, یہ نہ ہو کہ اپ کی موت کی دعائیں کرے. اگر بچے کے کپڑے یا ہاتھ منہ وغیرہ گندے ہیں اور ان کی والدہ کسی کام میں مشغول ہیں تو اپ ہی انہیں صاف کر دیجئے۔

صفائی اور سنتِ نبوی ﷺ

 اسی سلسلے میں ترمذی شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ایک حدیث مروی ہے فرماتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ اسماء بن زید (کی ناک کی رینٹھ) صاف کرے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ مجھے اجازت دے کہ میں صاف کر لوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “اے عائشہ اس سے محبت کرو کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔

گھر میں داخل ہوتے وقت رویہ

ہر مسلمان والد کو چاہیے کہ بچہ اگر کسی گندی حالت میں ہے تو خود ہی اٹھ کر اس کا منہ دھلا دے اس کو اچھے صاف کپڑے پہنا دے۔ اور اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرنے کی نیت کر لے تو سونے پر سہاگہ ہے کہ بچے کی صفائی بھی ہو گئی اور اہلیہ بھی خوش ہو گئی کہ میرا شوہر کتنے اچھے اخلاق کا حامل ہے

کہ جہاں اس بچے کو وہ میرا بچہ سمجھ رہا ہے وہاں دوسرے ذمہ داریوں کے اعتبار سے خود اپنے اپ کو بھی میرا شریک سمجھ رہا ہے، اور اللہ تعالی بھی خوش ہوں گے کہ اس بندے میں تواضع بھی ہے اور مسلمان معصوم بچے سے محبت بھی ہے۔

میاں بیوی کے جھگڑوں کا حل

لفظ بیٹا شفقت سنت اور تربیت کا پیغام
لفظ بیٹا شفقت سنت اور تربیت کا پیغام

 کہ جب سردار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم یہ ایک بچے کی ناک کی رینٹھ صاف کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو پھر میں کیا ہوں۔ اس سنت مبارکہ پر مسلمان شوہر عمل کرے تو گھر کے بہت سے جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔

 اس لیے کہ میاں بیوی میں بہت سے جھگڑا ہوں کا سبب یہ بنتا ہے کہ شوہر یہ کہتا ہے کہ تم بچوں کا خیال نہیں رکھتے تم خود بھی گندی رہتی ہو اور اپنے بچوں کو بھی ایسا ہی گندے رکھتی ہو تم بچوں کو پڑھاتی نہیں ہو تم خود بھی انپڑھ ہو اور بچوں کو بھی انپڑ بنا رہی ہو وغیرہ وغیرہ

ان تمام حالاتوں میں شوہر یہ سوچ لے کہ یہ سب کام جس طرح بیوی کے ذمہ داری میں ہے اسی طرح ہر شوہر یعنی بچے کے والد کی بھی ذمہ داری ہے معاشرے نے یہ رواج نہ فرق کر دیا ہے کہ بعض ذمہ داریاں ماں کی سمجھی جاتی ہے حالانکہ شرعا اور اخلا والد کی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں

سارے بچوں کو یکساں محبت دیجئے

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ والدین اپنے سب سے چھوٹے بچے سے زیادہ محبت کرتے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے بچے پریشانی کا شکار رہتے ہیں اور اس بچے سے حسد کرنے لگتے ہیں اس طرف بھی توجہ کرنی چاہیے حد سے زیادہ محبت بچوں کو اپنے اپ سے مطمئن کر دیتی ہے اور یہ چیز مستقبل میں ان کی ناکامی اور شکست کا باعث بنتی ہے

کیونکہ انہیں اپنی زندگی میں بہت سے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہاں اور پھر وہاں والدین جیسی محبت اور سلوک انہیں نہیں مل سکے گا جس کی وجہ سے انہیں مایوسی ہوتی ہے 

جس طرح غذا انسان کے جسم کے لیے ضروری ہے اسی طرح اسی طرح سے محبت بچے کی روحانی اور نفسیاتی تربیت کے لیے ضروری ہے جس طرح غذا کی کمی یا زیادتی جسم پر نہ مطلوب اثرات مرتب کرتی ہے اسی طرح محبت کی کمی یا زیادتی بھی بچوں میں نفسیاتی بیماریوں کا موجودہ بنتی ہے لہذا محبت میں میانہ روی ضروری ہے اور ویسے بھی ہر کام کے لیے یہی اصول مناسب ترین ہے۔

نتیجہ

لفظ “بیٹا” ایک پیار بھرا خطاب ہے جس میں شفقت، دعا اور قربت کی خوشبو بسی ہوتی ہے۔ ہر والد کو چاہیے کہ بچوں کو صرف زبانی محبت نہ دے بلکہ عملی طور پر ان کی صفائی، تربیت، تعلیم اور دیکھ بھال میں شریک ہو۔ یہ عمل نہ صرف سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی ہے بلکہ گھر کو جنت کا نمونہ بنانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔

=============

رحم دل بادشاہ کا امتحان

==================

سوره القصص

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *