ماعز رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ
ماعز رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ
حضرت یزید بن نعیم بن ہزال اپنے والد حضرت نعیم بن ہزال سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی حضرت نعیم نے کہا کہ ماعز بن مالک یتیم تھے ۔۔
اور میرے والد حضرت ہزال کی پرورش میں تھے انہوں نے جوان ہو کر محل کی ایک لونڈی سے زنا کر لیا جب میرے والد کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے ان سے کہا کہ اپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلے جاوں اور جو کچھ تم نے کیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتا دیجئے شاہد اپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری مغفرت کی دعا کرے ، میرے والد کا اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں تھا استغفار اس کے گناہوں کا سبب بن جائے ۔۔
ماعز رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے اپ مجھ پر کتاب اللہ کا حکم جاری کیجئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ بات سن کر اپنا منہ ان کی طرف سے پھیر لیا وہ وہاں سے ہٹ گئے ،، اور وہ پھر ائے اور کہا کہ یا رسول اللہ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے اپ مجھے پر کتاب اللہ کا حکم جاری کیجئے یہاں تک کہ انہوں نے یہ بات چار بار یعنی چار مجلسوں میں کہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپ نے یہ بات چار بار کہی ہے یعنی چار بار اقرار کرنے سے تیرا جرم ثابت ہو گیا ہے اب یہ بتا کے تو ہم اغوش ہوا تھا ؟ انہوں نے کہا ہاں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اپ اس کے بدن کو اپنے بدن سے لپٹایا تھا ؟ انہوں نے کہا ہاں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے اس کے ساتھ جماع کیا تھا ؟ انہوں نے کہا ہاں اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔۔
چنانچہ ان کو حرہ لے جایا گیا اور جب وہاں سنگسار کیا جانے لگا اور انکو پتھروں کی چوٹ لگنے لگی تو وہ بد حواس ہو گئے یعنی وہ پتھروں کی چوٹ برداشت نہ کر سکے اور جہاں سنگسار کیا جا رہا تھا وہاں سے بھاگ کھڑے ہوے راستے میں ان کو عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالی عنہ ملے جن کے ساتھ یعنی ماعز رضی اللہ تعالی عنہ کو سنگسار کرنے والے تھک گئے تھے عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اونٹ کے پاؤں کی ہڈی اٹھائی اور ان کو اس سے ماعز رضی اللہ تعالی عنہ کو مارا یہاں تک کہ انہوں نے انکو ختم کر ڈالا اس کے بعد عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ائے اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پورا واقعہ بیان کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ان کو چھوڑ کیوں نہیں دیا شاید وہ اپنے اقرار سے رجوع کر لیتا اور اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کر کے سنگساری کے بغیر ہی انکا گناہ معاف کر دیتا ۔۔۔۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حدود اللہ میں سے کسی ایک حد کا جاری کرنا خدا کے تمام شہروں پرچالیس رات تک بارش برسنے سے بہتر ہے ۔۔
حدود اللہ کے قائم کرنے سے شہر میں اللہ کی برکت اس لیے اتی ہے کہ حدود اللہ کے نافذ کرنے سے معاصی اور جرائم کو روکا جاتا ہے ۔ اور جب گناہ رک جاتے ہیں تو اسمان سے برکات کے نزول کے دروازے کھل جاتے ہیں اس کے برعکس حدود کو نافذ نہ کرنا یا اس میں سستی کرنا گویا مخلوق خدا کو گناہ اور معاصی میں مبتلا ہونے کا موقع دینا ہے اور یہ معاصی قحط سالی خشک سالی اور فساد عالم کے اسباب ہیں جس کی وجہ سے صرف انسان ہی اس کا شکار نہیں بنتے بلکہ غیر انسان ،درندے ،پرندے ،چرندے، اور چھوٹے چھوٹے جانور بھی اس کا شکار بنتے ہیں اور سب تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔۔
چنانچہ منقول ہے کہ حباری بھی اس نہ کردہ گناہ کی زد میں اکرد بدلا پن میں مبتلا ہو کر مر جاتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مذکور ہے ۔۔
حباری ایک پرندے کا نام ہے اس کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ رزق اور پانی کی تلاش کرنے میں اپنے نظیر اپ ہے دور دور تک جا کر دانہ پانی تلاش کر ک
لاتا ہے جب وہ مر جاتا ہے تو دیگر پرندوں کا کیا حال ہوگا ۔۔
=========================