مردے قبر میں زندہ ہوتے ہیں
ایک اللہ والے قبرستان سے گذر رہے تھے۔ کہ اسکو قرآن کی تلاوت سنائ دی۔ اس نے اردگرد نظر دوڑائی لیکن کوئ دکھائی نہ دیا
تلاوت کی آواز مسلسل آرہی تھی۔ اللہ نے اس بزرگ پہ منکشف کیا تو اس نے دیکھا کہ پاس ہی ایک قبر میں ایک مردہ انسان قرآن کی تلاوت کررہا ہے۔ اس بزرگ نے اسکو السلام وعلیکم کہا۔ تو مردے نے سر اٹھا کر وعلیکم والسلام کہا۔
اس اللہ والے بزرگ نے پوچھا کہ ہم نے سنا ہے کہ مرنے کے بعد کوئ عمل نہیں ہوتا۔ دو ہی باتیں ہوتی ہے یا سزا یا جزا۔ آرام یا عذاب۔ لیکن یہ نہیں سنا تھا کہ قبر میں بھی ذکر و افکار تلاوت و تسبیح کرنی پڑتی ہے۔اور آپ تو ماشاء اللہ قرآن پڑھ رہے ہو۔
مردے نے کہا کہ جو انسان وفات پاتا ہے اس سے سب سے پہلے تین سوال ہوتے ہیں۔ اگر وہ ان تین سوالات کے جوابات دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اسکو کہا جاتا ہے کہ تم کو قبر میں اپنا وقت قیامت کے دن کے انتظار میں گزارنا ہے۔ جب تمام دنیا والے یہاں پہنچ جائے گے تو قیامت قائم کردی جاۓ گی۔ یہ قبر تمہاری آخری آرام گاہ ہے۔
یہاں قبر میں اگر تمہارے پاس کوئی مشغلہ یا مصروفیت نہیں ہوگی تو تم یہاں اکتا جاؤ گے۔ اس لئے تمہارا پسندیدہ کام جو دنیا میں تم کو اچھا لگتا تھا تم وہ بتا دو ۔ تم کو یہاں اسکی اجازت مل جاۓ گی۔ میں تو دنیا میں قرآن کو محبوب رکھتا تھا۔لہذا میں نے ان سے کہا کہ مجھے قرآن پڑھنے کی اجازت مل جائے تو میرے لیے بہت کچھ ہے اسلئے مجھے یہاں قرآن کی اجازت ملی۔ میں نے قبر 70 ہزار قرآن ختم کئے ہیں میں آپکو 70 ہزار قرآن دیتا ہو۔ آپ بس اوپر سے ایک سبحان اللہ کہہ کر مجھے اسکا ثواب دے ۔
اس بزرگ نے جب یہ سنا تو سوچا کہ یہ تو بے حد سستا سودا ہے۔ ایک سبحان اللہ کے 70 ہزار قرآن کریم کا ثواب ملے گا۔ تو اس نے مردے سے کہا کہ آپ اتنا سستا سود کیوں کررہے ہو۔

مردے نے کہا
تم جہاں سے باتیں کررہے ہو وہ دنیا ہے۔ دنیا میں سبحان اللہ کہنے کا بڑا ثواب ہے۔ میں جہاں ہو اسکو آخرت کہتے ہیں۔ یہاں 70 ہزار قرآن کریم کا ایک سبحان اللہ کے برابر ثواب نہیں۔۔۔۔
کتاب ۔۔مرنے کے بعد کیا ہوگا
اس وقت ہم دنیا میں ہے آئیں اور اس وقت سے فائدہ اٹھائیں۔ اللّٰہ کا ذکر کثرت سے کریں ابھی
*سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم*
رسول اللہ ﷺ کا فرمان
“الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون”
(سنن ابی داود، حدیث: 1047)
ترجمہ: “انبیاء اپنی قبور میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔”
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام زندہ ہیں اور عبادت کرتے ہیں، اور اولیاء اللہ کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے قبر میں خاص زندگی عطا فرماتا ہے۔
شہداء کے بارے میں قرآن و حدیث:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
“وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ”
(آل عمران: 169)
ترجمہ: “اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے انہیں مردہ گمان نہ کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں۔”
اور نبی ﷺ نے فرمایا
“أرواح الشهداء في أجواف طير خضر، تسرح في الجنة حيث شاءت.”
(صحیح مسلم، حدیث: 1887)
ترجمہ: “شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے اندر ہیں جو جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں۔”
انبیاء کرام کی حیات
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
“مررتُ على موسى ليلة أُسري بي عند الكثيب الأحمر، وهو قائم يصلي في قبره.”
(صحیح مسلم، حدیث: 2375)
ترجمہ: “جب مجھے معراج کروائی گئی تو میں سرخ ٹیلے کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا، وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔”
مردے سلام سنتے ہیں
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“ما من أحد يسلم عليّ إلا رد الله عليّ روحي حتى أرد عليه السلام.”
(سنن ابی داود، حدیث: 2041)
ترجمہ: “جو کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔”
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی ﷺ قبر میں زندہ ہیں اور امت کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔
عام مسلمانوں کا حال
نبی ﷺ نے فرمایا
“إن الميت يسمع خفق نعالهم إذا ولّوا مدبرين.”
(صحیح بخاری، حدیث: 1338)
ترجمہ: “جب لوگ میت کو دفن کرکے واپس جاتے ہیں تو میت ان کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔”
جب عام مسلمان قبر میں یہ سن سکتا ہے، تو اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ اور زیادہ قوت اور زندگی عطا فرماتا ہے۔