مصروف باپوں کے بچے 

مصروف باپوں کے بچے  مصروف باپوں کے بچے 

مصروف باپوں کے بچے 

موجودہ دور میں زندگی کے جد و جہد کی رفتار اتنی تیز ہوتی جا رہی ہے کہ خاندان کے افراد کے بکھرنے کا سامان پیدا ہو رہا ہے کھانے کمانے کی فکر انسانی اعصاب پر اس طرح سوارہو گئی ہے کہ ایک ہی کنبے کے مختلف افراد کو اب اتنی مہلت بھی نہیں ملتی کہ کچھ وقت اکٹھا  بیٹھ کر گزار سکے۔

 خصوصا موجودہ دور کا باپ اپنی اولاد سے بہت زیادہ دور رہنے لگا ہے چھٹی کے دن کے سوا سے شاذ ونادار ہی اپنے بچوں سے کھیلنے یا باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے۔

 اور صبح سویرے بچوں کے جاگنے سے پہلے کام پر چلا جاتا ہے اور رات کو اس وقت گھر لوٹتا ہے جب بچے سو چکے ہوتے ہیں ایسے بچوں کے نزدیک ان کے باپ کی حیثیت ایک ایسے شخص کی ہے جو انہوں نے جیب خرچ، نئے کپڑے، اور چھوٹے موٹے کھلونوں کے لیے پیسے دیتا ہو، بحیثیت باپ کے اس کے بچے اس سے  گھلنے ملنے سے ہچکچاتے ہیں۔

ایک خاتون اپنی کتاب میں لکھتی ہے کہ۔

 ایک نامور مقامی تاجر میرے شوہر کے گہرے دوست ہے اور اکثر ہمارے گھر اتے جاتے رہتے ہیں شروع میں ان کا کاروبار بڑا محدود تھا لیکن شب وہ روز کی محنت سے وہ اسے وسیع کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

 لیکن اس جدوجہد نے انہیں ان کے کنبے سے دور کر دیا ایک دن جب وہ ہمارے یہاں ائے تو بہت اداس تھے ان کا بیٹا جو تقریبا  بیس برس کا تھا وہ ایک امتحان میں ناکام ہو گیا تھا، لیکن روزانہ اس کے والد صاحب اسے اچھا خاصا جیب خرچ دیا کرتا تھا پھر بھی اس نے اپنے سر پر بہت سا ادھار چھوڑ رکھا تھا۔

 وہ صاحب بڑے تلخ مزاجی سے کہنے لگے ذرا اپ ہی سوچے کہ میں نے اس کی خاطر کیا کیا محنت کی ہیں اسے عمدہ تعلیم دلوائی ہے اسے وہ تمام سہولتیں میسر ہیں جن سے میں خود اس کی عمر میں محروم رہا ہوں اچھے سے اچھا لباس  اور اس کی خواہش کے مطابق اسے جیب خرچ دیتا رہا ہوں اور تو اور جب میں مروں گا تو لاکھوں روپیوں کا کاروبار اس کے لیے چھوڑ جاؤں گا لیکن ذرا اسے دیکھئے اس نے میری ساری امید پر پانی پھیر دیا ہے۔

اپ نے دیکھ لیا کہ اس نے اپنے بیٹے کو تمام سہولت مہیا کر رکھی تھی ہر چیز ماسوا اپنی محبت اور اپنی توجہ کے، اپنے ناکامی کے بعد جب بیٹا باپ کے سامنے ایا تو بیٹے کی خاموشی میں ایک قسم کی بغاوت پوشیدہ تھی اس موقع پر اس کی سمجھ میں کچھ نہ ایا کہ بیٹے سے کیا کہے بعد میں اس نے بڑے اداس لہجے میں ہمیں بتایا کہ میں اسے سمجھانے سے قاصر ہوں اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔

 میں نے انہیں بتایا کہ جس شخص سے اپ کبھی کبھار ملے اسے بھلا اپ کس طرح سمجھا سکتے ہیں لیکن اس کی ماں تو ہر وقت اس کے پاس رہتی تھی انہوں نے جواب دیا بچے کی تربیت ماں کے فرائض میں شامل ہے۔

مصروف باپوں کے بچے 
مصروف باپوں کے بچے

کئی لحاظ سے یہ بات درست ہے لیکن ازدواجی فرائض کی طرح والدانی فرائض بھی ایک مشتری کا معاملہ ہے خاص طور سے لڑکوں والے گھروں میں تو باب سے قربت بہت ہی ضروری ہے یہاں میں اپ کے سامنے اپنے والدین کے گھر کی مثال پیش کرتا ہوں اگر ہم اپنے گھر کے  حالات کو رحم و کرم پر چھوڑ دیتے تو شاید اپ تک وہ بھی اجڑ چکا ہوتا ۔

میرے والد صاحب ایک بحری جہاز میں ملازم تھے ملازمت کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ بعض اوقات کئی کئی ماہ گھر سے باہر رہنا پڑتا تھا لیکن ہمارے نزدیک ان کی حیثیت ہمیشہ ایک جیتے جاگتے اور ہم میں رچے بسے باپ جیسے رہی وجہ یہ ہے کہ سفر کے دوران میں وہ فقط میری ماں ہی اس کو نہیں بلکہ ہم سب بہنوں بھائیوں کو فردا فردا بڑے دلچسپ اور طویل خط لکھا کرتے تھے۔

  ان خطاؤں میں وہ سفر کے دلچسپ واقعات وہ حالات اس انداز میں لکھا کرتے تھے جیسے ہم ان کے ساتھ سفر پر ہو اور اپنے انکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہوں اس طرح وہ جہاں بھی جاتے اور ان کے ساتھ تصور کی صحرا افرینی سے بھی ہم وہاں پہنچ جاتے ان خطوں سے ہمیں محسوس ہوتا کہ وہ ہم سے اور ہم ان سے زیادہ دور نہیں۔

 جب وہ چھٹی پر گھر ایا کرتے تھے تو سارا وقت ہمارے درمیان گزارتے اور ہم بے حد خوش ہوتے ہم نے کبھی انہیں خود سے دور محسوس نہ کیا۔

 اس کے برعکس اپ کو ایسے باپ بھی ملیں گے جو اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کے دوسرے اخراجات کے لیے روپیہ کمانے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ اسی اولاد سے دور ہو جاتے ہیں اور ان کو اپنے پیار و خلوص سے محروم رکھتے ہیں وہ اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ بچوں کو خواہ دنیا کی بہترین نعمت میسر کیوں نہ ہو پھر بھی وہ والد کے پیار کے تلافی نہیں کر سکتی۔

بچوں کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لینے کے علاوہ باپ کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ان کے مستقبل کو بھی پیش نظر رکھے۔

 بی اے کے بعد میں استاد بننا چاہتا تھا میرے والد کسی بنا پر اس پیشے کے حق میں نہ تھے لیکن خوش قسمتی سے میری ماں میرے خواہش کے قائل تھے ایک طویل بحث کے بعد انہوں نے والد صاحب کو اپنا ہم خیال بنا لیا مجھے بخوشی اجازت دے دی لیکن یہ اجازت چونکہ سچے دل سے تھی اسی لیے میں دل میں یہ خلش محسوس نہیں کی کہ جب اپ کے ارادے میں اپ کے کنبے کے دوسرے افراد کی رضا شامل ہو تو اپ کی ہمت بے حد بڑھ جاتی ہے اور اپ اس کام کو بہتر انجام دیتے ہیں۔

 مجھے افسوس ہے کہ میرے شوہر کا وہ تاجر دوست اور ان کا بیٹا بچپن کی دلچسپ یادداشتوں سے محروم ہیں جو میرے اور میرے دوسرے بہن بھائی کا اثاثہ ہے بچپن برق رفتار ہوتا ہے لیکن یہ ایسا دور ہے جس میں ہم  ہر شے کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں اور زمانے کی یاد داشت عمر بھر ساتھ دیتی ہے۔ 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی ماں کو دیکھتے کہ اپنے بچے سے پیار کر رہی ہے تو بہت متاثر ہوتے کبھی ماؤں کی بچوں سے محبت کا ذکر اتا تو فرماتے اللہ جس شخص کو اولاد دے دے اور وہ اس سے محبت کرے اور اس کا حق بجا لائے تو تو دوزخ کی اگ سے محفوظ رہے گا۔

================

نماز کا طریقہ

===========

سوره الواقعة

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *