مغرور کا انجام
ایک بازار سے ایک مغرور شخص گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک عورت پر پڑی جس نے سر پر گھی کا ڈول اٹھا رکھا تھا۔ اس شخص نے عورت کو آواز دی اور نخوت سے پوچھا: “اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟”
عورت نے جواب دیا: “جی، میں گھی بیچ رہی ہوں۔
اس شخص نے کہا: “اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟
جب عورت نے گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارا تو کچھ گھی اس شخص کی قمیض پر گر گیا۔ یہ دیکھ کر وہ شخص بہت بگڑ گیا اور غصے سے دھاڑتے ہوئے بولا: “نظر نہیں آتا کیا؟ میری قیمتی قمیض خراب کر دی ہے تو نے! میں جب تک تجھ سے اس قمیض کے پیسے لے لوں، تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دوں گا۔”
عورت نے بیچارگی سے کہا: “میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیض پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔”
اس شخص نے اصرار کرتے ہوئے کہا: “جب تک تم سے قیمت وصول نہ کر لوں، میں تمہیں یہاں سے ہلنے نہیں دوں گا۔”
عورت نے پوچھا: “کتنی قیمت ہے آپ کی قمیض کی؟
اس شخص نے جواب دیا: “ایک ہزار درہم۔

عورت نے روتے ہوئے کہا: “میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟
مغرور شخص نے بے رحمی سے کہا: “مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔
عورت نے التجا کرتے ہوئے کہا: “مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نہ کرو۔
ابھی وہ شخص عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے عورت سے سارا ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا قصہ کہہ سنایا۔
نوجوان نے اس شخص سے کہا: “جناب، میں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت دیتا ہوں۔” اس نے جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر مغرور شخص کو دے دیے۔
یہ شخص ہزار درہم لے کر جانے لگا تو نوجوان نے کہا: “جاتے کہاں ہو؟
اس شخص نے پوچھا: “تمہیں مجھ سے اور کیا چاہیے؟
نوجوان نے کہا: “تم نے اپنی قمیض کے پیسے لے لیے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دو اور جاؤ۔
اس شخص نے حیرانی سے کہا: “قمیض کس لیے؟
نوجوان نے جواب دیا: “ہم نے تمہیں قمیض کے پیسے دے دیے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دے دو۔
اس شخص نے گھبراتے ہوئے کہا: “تو کیا میں ننگا جاؤں؟
نوجوان نے کہا: “ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
اس شخص نے کہا: “اور اگر میں قمیض نہ دوں تو؟”
نوجوان نے کہا: “پھر ہمیں اس کی قیمت دے دو۔”
اس شخص نے پوچھا: “کتنی قیمت؟”
نوجوان نے کہا: “دو ہزار درہم۔”
مغرور شخص نے کہا: “لیکن تم نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیے تھے۔”
نوجوان نے جواب دیا: “اب تمہارا اس سے کوئی مطلب نہیں۔”
اس شخص نے کہا: “یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔”
نوجوان نے کہا: “پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیض اتار دو۔”
مغرور شخص نے روہانسا ہو کر کہا: “تم مجھے رسوا کرنا چاہتے ہو؟”
نوجوان نے کہا: “اور جب تم اس مسکین عورت کو رسوا کر رہے تھے تو؟”
اس شخص نے کہا: “یہ ظلم اور زیادتی ہے۔”
نوجوان نے حیرت سے کہا: “کمال ہے کہ تمہیں اب ظلم محسوس ہو رہا ہے!”
آخر کار، اس شخص نے مزید شرمندگی سے بچنے کے لیے جیب سے دو ہزار درہم نکال کر نوجوان کو دے دیے۔ نوجوان نے مجمعے میں اعلان کیا کہ یہ دو ہزار درہم اس عورت کے لیے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔
ہمارے معاشرے میں اکثر لوگوں کا حال بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی مطلب نہیں ہوتا، لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔ اگر ہم معاشرتی طور پر دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں، تو ہم دنیا کی بہترین قوموں میں شمار ہو سکتے ہیں۔
سلامت رہیں۔