مومنوں کی عبرت ناک موت

مومنوں کی عبرت ناک موت مومنوں کی عبرت ناک موت

مومنوں کی عبرت ناک موت

یہ قصہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جسے سن کر دل لرز جاتا ہے یہ صرف پرانی کہانی نہیں بلکہ ہمارے آج کے حالات کے لیے بھی ایک ایسا سبق ہے

اس میں یہ سبق چھپا ہے کہ عبادت کا اصل حسن اخلاص میں ہے نہ کہ صرف ظاہری دکھاوے میں ہے۔بنی اسرائیل وہ قوم تھی جسے اللہ تعالی نے اپنے زمانے کے سب سے بڑے انعامات سے نوازا تھا :ان میں انبیاء بھیجے گئے آسمانی کتابیں اتاری گئی اورانہیں دنیا میں عزت دی گئی مگر ایمان کا ذائقہ کمزور پڑا اور نیتیں خراب ہونے لگی تو اللہ تعالی کی ان نعمتوں کا اثر ختم ہوتا گیا۔

ایک شہر ایسا تھا جو اپنی ظاہری دینداری کے لیے مشہور تھا لوگ وہاں کے رہنے والوں کو دیکھ کر کہتے یہ ہیں اللہ کے خاص بندے، راتوں کو جاگنے والے، دن کو روزہ رکھنے والے ،لیکن اس بستی کی چمک صرف باہر تک تھی اندر سے دل کالےہو چکے تھے:اس بستی کے چند بڑے عابدین اور علماء ایسے تھے جو بظاہر سادہ زندگی گزارتے تھے چہروں پر داڑھی کپڑوں میں سادگی ہاتھوں میں تسبیح لیکن ان کے دل دنیا کے لالچ شہرت کی طلب اور ریاکاری سے بھرے ہوئے تھے”۔

 وہ لوگوں کو نصیحت تو کرتے تھے مگر خود عمل میں سست ،کمزوروں کا حق مارتے،یتیموں کے مال میں خیانت کرتے، اور پھر مسجد میں بیٹھ کر لمبے سجدے کرتے ان کے لیے عبادت اللہ کی رضا کے لیے نہیں بلکہ اپنے مقام کو بڑھانے اور تعریف سمجھنے کا ذریعہ بن گئی تھی۔

اللہ تعالی نے اپنے ایک نبی کو اس بستی میں بھیجا نبی نے انہیں پیغام دیا “اے لوگو! اللہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے تمہارے ہاتھ کے رکوع و سجود اور زبان کا ذکر اس وقت قبول نہیں ہوتا جب تک دل اس کے حکم کے آگے جھک نہ جائے اپنے اپ کو دھوکہ مت دو ؛اللہ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ہے پہلے پہل کچھ لوگ نرم پڑے، مگر اکثریت نے کہا ہم اللہ کے سب سے بڑے عبادت گزار بندے ہیں ہمیں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے یہ جملہ ان کی تباہی کا آغاز تھا۔

وقت گزرتا گیا اور گناہ عام ہونے لگے حرام کھانا، جھوٹ بولنا ،سود لینا ،اور غریبوں پر ظلم کرنا ،معمول بن گیا جو لوگ نبی کی بات مانتے ان کا مذاق اڑایا جاتا دین کی اصل روح ختم ہو گئی اور عبادت محض رسم و رواج رہ گئی ایک دن نبی نے ان سب کو جمع کر کر آخری “تنبیہ “کی اللہ کی قسم اگر تم نے توبہ نہ کی تو عذاب تم پر  آ پہنچے گا ایسا عذاب جو تم نے نہ دیکھا ہوگا نہ سنا ہوگا۔

لوگوں نے اس بات کو مذاق میں لے لیا کچھ لوگوں نے کہا ہم پر اللہ کا عذاب کیسے آسکتا ہے کیا تم بھول گئے کہ ہم رات بھر اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں اور دن بھر ہم روزہ رکھتے ہیں تو اللہ کا عذاب ہم پر کیسے آئے گا۔

 

وہ رات ایک عجیب سکوت میں ڈوبی ہوئی تھی ہوا کا ایک ڈھونکا تک نہ چل رہا تھا آسمان پر بادل بھی نہیں تھے ،مگر فضا بھری محسوس ہو رہی تھی شہر کے کچھ لوگ تہجد کے لیے اٹھے مگر دل میں وہی ریاکاری تھی ،کچھ لوگ حرام کمائے کھا رہے تھے کچھ لوگ اپنے منصوبے بنا رہے تھے اچانک زمین کے نیچے سے ایک گہری گرج اٹھی ایسا لگا جیسے پہاڑ کے اندر سے کوئی چیخ نکلی ہو، دیواریں لرز گئی چراغ بجھ گئے.

اور لوگ خوف سے باہر بھاگے لیکن بھاگنے کا راستہ کہاں تھا زمین ان کے قدم کے نیچے تھی ،ایک لمحے میں آسمان سے ایک زوردار آواز آئی بستی کی بنیاد ہل گئی مکان درخت بازار سب کچھ زمین میں دھنسنے لگے،چیخوں کی آوازیں آسمان کو چیر رہی تھی مگر کچھ ہی لمحوں میں سب خاموش ہو گئے جب سورج نکلا تو وہاں ایک گہرا گڑا تھا پرندے بھی اس طرف آنے سے ڈر رہے تھے کل تک آباد گلیاں اور چہل پہل ،اب بس ایک عبرت ناک نشانی تھی۔

اللہ تعالی قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے

فمنهم من خسفنا به الأرض

سورۃ العنکبوت

.ان میں سے کچھ کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا

یہ آیت صرف تاریخ بیان نہیں کر رہی ہے بلکہ ہمیں خبردار کر رہی ہے کہ اللہ کا قانون ہمیشہ ایک جیسا ہے جب کوئی قوم نہ فرمانی اور غرور میں ڈوب جائے تو وہ اپنی حفاظت خود ختم کر دیتی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اس وقت کسی قوم کو ہلاک کرتا ہے جب وہ گناہ کو معمول بنا لے اور نیکی کو صرف دکھاوے کے لیے کرے یہی وہ مرض تھا جو اس بستی کو لے ڈوبا تھا ظاہری نیکی کے ساتھ باطنی گندگی نے ان کی عبادت کو بیکار کر دیا۔

آج ہمارے لیے اس پیغام سے کیا سبق حاصل ہوتا ہے

آج ہم اپنے گرد نظر ڈالے تو محسوس ہوگا کہ یہ واقعہ ماضی کا نہیں بلکہ ہمارے حال کا عکس ہے ہماری مسجدوں میں نمازی ہے تلاوت کرنے والے ہیں دین کی باتیں کرنے والے ہیں مگر معاشرے میں جھوٹ ،دھوکا ،سود ،ظلم ،یا کاری، بھی عام ہیں ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کہیں ہماری عبادت بھی صرف رسم و رواج تو نہیں رہ گئی کہیں ایسا نہ ہو کہ ظاہری نیکی پر فخر کرتے رہیں اور دل کے گناہوں کو نظر انداز کریں۔

ہماری طرف سے کچھ پیغام

نمبر ایک: نیت درست رکھے ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے ہو نہ کہ دنیاوی تعریف کے لیے۔

نمبر دو :دل کی صفائی حسد بغض اور غرور اور ریاکاری سے بچے۔

نمبر تین: کمزور کا حق ادا کرے عبادت کا ایک بڑا حصہ لوگوں کے حقوق پورے کرنے میں ہیں۔

نمبر چار: اللہ کا خوف قائم رکھیں یہ یاد رکھے کہ وہ ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔

اس واقعے سے سبق کیا حاصل ہوا

اس بستی کا انجام ہمارے لیے ایک کھلا سبق ہے عبادت کا مقصد دل کا اللہ کے سامنے جھکنا ہے اگر دل میں غرور ہو ظلم ہو اور یا کاری ہو تو لمبے سجدے بھی ہمیں نہیں بچا سکتے اللہ ہمیں اخلاص عاجزی اور سچائی عطا کرے اور ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے جو ان بستی کے لوگوں پر آیا تھا۔


 دہشت گردی اور جہاد

سورة النحل

One thought on “مومنوں کی عبرت ناک موت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *