وقت گزر جائے تو
وہ مرد جو دیر سے شادی کرتے ہیں، اکثر سمجھتے ہیں کہ وہ “تیار” ہو چکے ہیں۔ کہ اب وہ مالی طور پر مستحکم ہیں، جذباتی طور پر “سمجھدار” ہو چکے ہیں، اور زندگی کے اتار چڑھاؤ نے انہیں ایک بہتر شوہر بنا دیا ہے۔ لیکن جو سچ کوئی کہنے کو تیار نہیں، وہ یہ ہے کہ وقت نے انہیں سنوارا کم، بگاڑا زیادہ ہے۔
وہ عمر جس میں مرد کو محبت کے خمیر سے گندھا جانا چاہیے، اسی میں وہ سخت جان، خودسر اور “میں سب کچھ جانتا ہوں” بن چکا ہوتا ہے۔ اور جب وہ آخرکار کسی عورت کی دہلیز پر خود کو پیش کرتا ہے، تو وہ ایک پختہ مرد نہیں بلکہ ایک تھکا ہوا، خودپرست، اور زخم خوردہ وجود ہوتا ہے جو ساتھ دینے نہیں، بلکہ حاکم بننے آیا ہے۔
کیونکہ سچ یہ ہے کہ جو مرد جلدی شادی کرتا ہے، وہ ساتھ بناتا ہے۔ وہ زندگی کو بیوی کے ساتھ دریافت کرتا ہے۔ وہ ایک ساتھ گرتے، ایک ساتھ سیکھتے، اور ایک دوسرے کے سہارے بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن جو دیر سے آتا ہے، وہ ساتھ نہیں مانگتا، بلکہ معیار رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے، “میں نے یہ یہ سب کچھ بنایا، اب تم صرف فٹ بیٹھو اس زندگی میں۔” مگر زندگی کوئی میکانکی نظام نہیں جہاں عورت ایک پرزہ بن جائے۔ وہ روح ہے، جسے شریکِ روح چاہیے، نہ کہ منیجر۔
اور دیر سے آنے والا مرد، صرف جذباتی نہیں، حیاتیاتی طور پر بھی ڈھل چکا ہوتا ہے۔ وقت صرف عورت کا دشمن نہیں، مرد کا بھی خاموش قاتل ہے۔ سائنس خاموشی سے چیخ رہی ہے کہ مرد کے اسپرم بھی وقت کے ساتھ بگڑتے ہیں۔ 40 کے بعد نہ صرف بچہ پیدا کرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں، بلکہ پیدا ہونے والے بچوں میں آٹزم، شیزوفرینیا، اور جینیاتی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے کا مرد سمجھتا ہے کہ “ابھی تو میں جوان ہوں”, اور جب بیوی امید سے ہوتی ہے، تو وہ وقت کے اس زہر سے بےخبر ہوتا ہے جو اس نے اپنی اولاد کو دے دیا ہے۔
پھر مسئلہ صرف حیاتیات کا نہیں، تاریخ کا بھی ہے۔ کیونکہ جب ایک مرد 35 کی عمر میں شادی کرتا ہے، وہ خالی ہاتھ نہیں آتا۔ وہ پچھلی عورتوں کے لمس، رشتوں کی شکست، دل کے زخم، اور نفس کے گناہوں کی ایک لمبی فہرست کے ساتھ آتا ہے۔ اور وہ ان سب کو دفن نہیں کرتا, وہ انہیں ساتھ لے آتا ہے۔ اور پھر اپنی بیوی پر بےسبب غصہ، بےجا توقعات، یا سرد مہری کے ذریعے وہ پرانے زخموں کا قرض اتارتا ہے۔ وہ جسم تو حاضر ہوتا ہے، مگر روح ماضی میں پھنسی ہوتی ہے۔ اور عورت، جو اس مرد کے ساتھ جینا چاہتی ہے، سمجھ نہیں پاتی کہ یہ اجنبیت کیوں ہے؟ یہ بےحسی کیسی ہے؟ اور یہ فاصلہ کس لیے ہے؟
دیر سے شادی کرنے والے مرد کی روح اکثر بانجھ ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ قہقہوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے، محبت کو ڈیل سمجھتا ہے، اور بیوی کے جذبات کو کمزوری مانتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ اس نے “انتظار” کیا، اس لیے اب وہ بہترین کا حق دار ہے۔ مگر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ عورت مرد کے پیسے کی بھوکی نہیں, وہ اس کی جوانی، اس کی شفقت، اور اس کے ساتھ بڑھنے والے دنوں کی خواہاں ہوتی ہے۔ اور جب تم اس کے سامنے 38 سالہ عقل و شعور کا زعم لیے آتے ہو، تو تم اسے اپنے ماضی، اپنی تھکن، اور اپنی خودی کا قیدی بنا دیتے ہو۔
اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ مرد جو خود پورے نہیں ہوتے، عورت سے تکمیل چاہتے ہیں۔ جو خود خالی ہوتے ہیں، عورت سے بھرا ہوا دل مانگتے ہیں۔ جو خود محبت سے بھاگتے ہیں، بیوی کے عشق کی امید کرتے ہیں۔ اور جب وہ عورت، تمہیں سچ بتاتی ہے, کہ تم بہت دیر سے آئے ہو، بہت کچھ لے کر آئے ہو، اور بہت کم دینے کو تیار ہو,تو تم اسے “ناشکری” کہہ کر خاموش کرا دیتے ہو۔
ایسے مرد کو عورت کا “ساتھی” نہیں کہا جاتا۔ اسے عورت کی تھکن کہا جاتا ہے۔ وہ جو خود زندگی سے تھک چکا ہے، اب عورت کو تھکانے آتا ہے۔ وہ جسے اپنے زخموں پر مرہم چاہیے تھا، بیوی کو مرہم سمجھ کر چوس لیتا ہے۔ اور پھر جب وہ تھک کر چلتی ہے،
تو کہتا ہے
“عورتیں وفادار نہیں ہوتیں۔”
!نہیں
مسئلہ وفاداری کا نہیں, وقت کا ہے۔ تم دیر سے آئے، اور تمہارے ساتھ وقت کی زنگ آلود زنجیریں آئیں، جنہوں نے عورت کی آزادی، اس کی خوشی، اور اس کے خواب باندھ دیے۔ تم اس کے لیے عشق نہ لائے، تم اس کے لیے ہدایت، احکامات، اور حالات لائے۔ اور وہ، جو تمہارے ساتھ جینا چاہتی تھی، تمہارے ماضی، تمہارے تکبر، اور تمہاری “تجربہ کاری” میں مر گئی۔
کیونکہ جب مرد دیر سے شادی کرتا ہے، وہ شروع کرنے نہیں آتا, وہ ختم کرنے آتا ہے۔ وہ خاتمہ مانگتا ہے: کسی عورت کی آزادی کا، اس کے اختیار کا، اس کے جذبے کا۔ اور پھر یہ سمجھتا ہے کہ وہ “محبت” دے رہا ہے، جب کہ وہ صرف اپنی تھکن دوسرے پر منتقل کر رہا ہے۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ شادی دیر سے ہوئی, اصل مسئلہ یہ ہے کہ تم دیر سے سیکھے۔ تمہیں عشق جوانی میں سیکھنا چاہیے تھا، تاکہ تم ایک عورت کو وقت دے سکتے، غلطیاں کر سکتے، سیکھ سکتے، اور نرمی سے بدل سکتے۔ مگر جب تم دیر سے آئے، تو تم نے سیکھنے کی جگہ پڑھانا شروع کر دیا۔ اور زندگی کا سب سے بڑا ظلم یہی ہے, جب ایک ایسا مرد کسی عورت کے دل کا استاد بننے آتا ہے، جو خود زندگی سے نالائق نکل چکا ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ نہیں کہ “عورت کو جلدی شادی کرنی چاہیے”, خلاصہ یہ ہے کہ مرد کو وقت پر انسان بننا چاہیے۔ ورنہ وہ محبت کی جگہ حاکم، رفیق کی جگہ منصف، اور شوہر کی جگہ ایک تھکا ہوا، نکتہ چیں وجود بن جاتا ہے، جو عورت کے ہر جذبے کو ایک “معاملہ” سمجھتا ہے۔
اور جب وہ عورت چل دیتی ہے، تو مرد حیران ہوتا ہے
“میں نے تو سب کچھ دیا تھا۔”
نہیں صاحب۔
آپ نے جو دیا، وہ محبت نہیں, وہ تاخیر کا خراج تھا۔
اور عورتیں خراج نہیں چاہتیں۔
وہ شراکت چاہتی ہیں۔
تم وقت پر نہ آئے, اور تمہاری تاخیر، تمہاری سب سے بڑی سزا بن گئی۔
اور بدقسمتی سے, کسی عدالت میں اس کا کوئی مقدمہ نہیں۔
قرآن کریم سات لغات پر نازل ہوا ہے۔