وقف کی شرعی حیثیت

 وقف کی شرعی حیثیت  وقف کی شرعی حیثیت

 وقف کی شرعی حیثیت

ہندوستان میں اوقافی زمینوں پر قبضے اور شرعی حکم

ہندوستان میں اوقافی زمینیں صدیوں سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود، تعلیم، اور مذہبی مقاصد کے لیے وقف کی جاتی رہی ہیں۔ یہ زمینیں مساجد، مدارس، یتیم خانوں، قبرستانوں، اور درگاہوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ان اوقافی املاک پر غیر قانونی قبضے ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں، جس کے گہرے سماجی، اقتصادی، اور مذہبی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

وقف کیا ہے؟

وقف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی “روک دینا” یا “ٹھہرا دینا” ہے۔ اسلامی اصطلاح میں، وقف سے مراد کسی جائیداد (جیسے زمین، عمارت، یا نقد رقم) کو اللہ کی رضا کے لیے اس طرح سے دائمی طور پر وقف کر دینا ہے کہ اس کی اصل جائیداد باقی رہے اور اس کی آمدنی یا منافع کو فلاحی، مذہبی، یا تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ایک بار جب کوئی جائیداد وقف ہو جاتی ہے، تو وہ وقف کرنے والے کی ملکیت سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے اور اسے فروخت، وراثت، یا ہبہ نہیں کیا جا سکتا۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں وقف کی اہمیت:

اگرچہ قرآن میں صراحتاً وقف کا ذکر نہیں ہے، لیکن اس کے بنیادی اصول احسان، صدقہ، اور خیرات کے تصورات میں پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

 تم ہرگز نیکی حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو۔ اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو، اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔” (آل عمران: 92)

“جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جسے چاہتا ہے بڑھاتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔” (البقرہ: 261)

احادیث میں وقف کی ترغیب

وقف کی بنیاد دراصل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خیبر کی اپنی زمین کے بارے میں مشورہ طلب کیا تو آپؐ نے فرمایا

“اگر تم چاہو تو اس کی اصل (زمین) کو روک لو اور اس کا پھل (آمدنی) صدقہ کر دو۔”

چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس زمین کو وقف کر دیا کہ نہ وہ بیچی جائے گی، نہ ہبہ کی جائے گی اور نہ اس کی وراثت ہو گی۔ اس کی آمدنی فقراء، مساکین، رشتہ داروں، غلام آزاد کرنے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے، اور مہمان نوازی کے لیے وقف کر دی۔ (صحیح مسلم، کتاب الوصیہ، حدیث نمبر 1632)

یہ حدیث وقف کے بنیادی اصولوں کو واضح کرتی ہے کہ اس کی اصل جائیداد غیر منقولہ رہے گی اور اس کا نفع خیراتی کاموں کے لیے استعمال ہوگا۔

وقف کی زمینوں پر قبضے کا مسئلہ اور اس کا شرعی حکم

ہندوستان میں اوقافی املاک پر ناجائز قبضے ایک سنگین اور دیرینہ مسئلہ ہیں۔ یہ قبضے مختلف طریقوں سے کیے جاتے ہیں:

دستاویزات میں ہیر پھیر: جعلی دستاویزات تیار کرکے وقف زمینوں کو اپنی ملکیت ظاہر کرنا۔

اوقاف بورڈ کی مبینہ بدعنوانی: بعض اوقات اوقاف بورڈ کے اندرونی افراد کی ملی بھگت سے بھی یہ زمینیں بیچی جاتی ہیں یا کرائے پر دی جاتی ہیں جو شرعاً اور قانوناً ناجائز ہے۔

سیاسی اثر و رسوخ: طاقتور افراد اور گروہ سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے وقف زمینوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

علم کی کمی: وقف کے اصولوں اور اس کی اہمیت سے ناواقفیت بھی اس مسئلے کا سبب بنتی ہے۔

قبضے کا شرعی حکم

اوقافی زمین پر ناجائز قبضہ شرعاً حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں

اللہ کی ملکیت میں مداخلت: وقف کی جائیداد اللہ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اس پر قبضہ کرنا گویا اللہ کے حق پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔

ناجائز تصرف: کسی بھی ایسی جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنا جو کسی خاص مقصد کے لیے وقف کی گئی ہو، شرعاً ناجائز ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ہے۔” (مسند احمد، حدیث نمبر 20695)

یہاں تو ایک ایسی جائیداد پر قبضہ ہے جو کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ امت کے عمومی مفاد کے لیے وقف ہے۔

غصب اور ظلم: اوقافی زمینوں پر قبضہ درحقیقت غصب اور ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ احادیث میں غصب پر سخت وعیدیں آئی ہیں:

“جس نے ایک بالشت زمین بھی ناحق غصب کی، قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔” (صحیح بخاری، حدیث نمبر 2453)

حقوق العباد کی پامالی: وقف کا مقصد دراصل فقراء، مساکین، طلباء، اور دیگر مستحقین کی امداد ہوتا ہے۔ اس پر قبضہ کرنا ان کے حقوق کو پامال کرنا ہے، اور حقوق العباد کی معافی اللہ تعالیٰ بھی نہیں دیتا جب تک کہ حق دار خود معاف نہ کرے۔

فساد فی الارض: یہ عمل معاشرے میں فساد اور ناانصافی کو بڑھاتا ہے۔

قیامت کے دن جواب دہی: ایسے افراد پر روز قیامت سخت پکڑ ہو گی۔ وہ نہ صرف دنیاوی عدالتوں میں جواب دہ ہیں بلکہ آخرت میں بھی انہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔

اوقافی زمینوں کا انتظام و اختیار کس کے ہاتھ میں ہو؟

اوقافی زمینوں کے انتظام و اختیار کا مسئلہ شرعی اور قانونی دونوں پہلوؤں سے اہم ہے۔

شرعی حکم

اسلامی فقہ کے مطابق، وقف کی جائیداد کا انتظام (نظارت) ایسے شخص کے سپرد کیا جاتا ہے جو امانت دار، عادل، اور وقف کے مقاصد کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس شخص کو “متولی” یا “ناظر” کہا جاتا ہے۔

واقف کی شرط: اگر وقف کرنے والے (واقف) نے اپنی وقف دستاویز میں کسی متولی کا تقرر کیا ہے اور اس کی شرائط مقرر کی ہیں، تو ان شرائط پر عمل کرنا واجب ہے۔

عادل اور امانت دار: متولی کا عادل اور امانت دار ہونا بنیادی شرط ہے۔ اگر کوئی متولی خیانت کرتا ہے، یا وقف کے مقاصد کے خلاف عمل کرتا ہے، تو اسے معزول کیا جا سکتا ہے۔

مقصد وقف کی تکمیل: متولی کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ وقف کی جائیداد کی حفاظت کرے اور اس کی آمدنی کو ان مقاصد کے لیے استعمال کرے جن کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ وہ وقف کی جائیداد کو فروخت یا اپنی ذاتی ملکیت میں منتقل نہیں کر سکتا۔

ہندوستان میں قانونی پہلو

ہندوستان میں اوقافی زمینوں کے انتظام کے لیے “وقف ایکٹ 1995” نافذ ہے۔ اس ایکٹ کے تحت

مرکزی وقف کونسل اور ریاستی اوقاف بورڈز: ملک بھر میں اوقافی املاک کی دیکھ بھال، انتظام، اور نگرانی کے لیے ایک مرکزی وقف کونسل اور ہر ریاست میں ریاستی اوقاف بورڈز قائم کیے گئے ہیں۔

اوقاف بورڈ کا کردار: ریاستی اوقاف بورڈز وقف کی جائیدادوں کا سروے کرتے ہیں، ان کا رجسٹریشن کرتے ہیں، اور ان کے معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔ متولیوں کی تعیناتی، ان کی نگرانی، اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی بورڈز کی ذمہ داری ہے۔

متولی کی ذمہ داریاں: متولی کو وقف کی جائیداد کا انتظام و انصرام وقف ایکٹ اور بورڈ کے قوانین کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔ وہ ہر سال بورڈ کو حسابات پیش کرنے کا پابند ہے۔

ٹرائبونلز (Tribunals): اوقافی تنازعات کے حل کے لیے خصوصی وقف ٹرائبونلز قائم کیے گئے ہیں جو وقف سے متعلق معاملات کی سماعت کرتے ہیں۔

کیا اوقافی زمینیں کسی کے ہاتھ میں آ سکتی ہیں؟

شرعاً اور قانوناً، وقف کی جائیداد کسی بھی فرد یا ادارے کی ذاتی ملکیت میں نہیں آ سکتی۔ ایک بار وقف ہو جانے کے بعد یہ اللہ کی ملکیت ہوتی ہے، اور اس کا مقصد صرف اور صرف دائمی خیرات ہے۔ اس کو بیچنا، ہبہ کرنا، یا وراثت میں منتقل کرنا مکمل طور پر ناجائز اور باطل ہے۔ اگر کوئی شخص یا ادارہ اس پر قبضہ کرتا ہے، تو وہ غاصب ہے اور اس کا قبضہ شرعاً اور قانوناً غیر معتبر ہے۔

اوقافی زمینوں کو قبضوں سے بچانے کے لیے حل

اوقافی زمینوں کو ناجائز قبضوں سے بچانے اور ان کے صحیح استعمال کو یقینی بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:

* اوقاف بورڈز کی شفافیت اور احتساب:

اوقاف بورڈز کو بدعنوانی سے پاک کرنا اور ان کے انتظامی ڈھانچے کو شفاف بنانا نہایت ضروری ہے۔

عوام کو بورڈ کی کارکردگی اور فیصلوں تک رسائی فراہم کی جائے۔

باقاعدہ آڈٹ اور نگرانی کا نظام مضبوط کیا جائے۔

مضبوط قانونی کارروائی:

حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف ایکٹ 1995 کو مزید مؤثر بنائے اور قبضے کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

اوقاف بورڈز کو قانونی معاونت اور فوری عدالتوں (Fast-track courts) کے ذریعے مقدمات کے تیزی سے حل کرنے کی سہولت فراہم کی جائے۔

ڈیجیٹلائزیشن اور ریکارڈ کی حفاظت:

تمام وقف املاک کے ریکارڈز کو ڈیجیٹلائز کیا جائے اور انہیں عوام کے لیے قابل رسائی بنایا جائے تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

جائیداد کی حدود بندی اور نقشوں کو جدید ٹیکنالوجی (جیسے GPS) کے ذریعے واضح کیا جائے۔

عوامی بیداری اور شمولیت:

اوقاف کی اہمیت، اس کے شرعی احکام، اور اس پر قبضے کے گناہوں کے بارے میں عوام کو بیدار کیا جائے۔

مقامی کمیونٹیز کو اوقافی املاک کی حفاظت میں شامل کیا جائے اور انہیں شکایات درج کرانے کا ایک آسان نظام فراہم کیا جائے۔

* علمائے کرام اور سماجی رہنماؤں کا کردار:

مساجد کے ائمہ، علمائے کرام، اور سماجی رہنماؤں کو اپنے خطبات اور عوامی اجتماعات میں وقف کی اہمیت اور اس پر قبضے کے گناہ پر روشنی ڈالنی چاہیے۔

* وہ لوگوں کو اوقافی املاک کی حفاظت اور ان کے صحیح استعمال کی ترغیب دیں۔

* متولیوں کی تربیت اور نگرانی:

متولیوں کو وقف کے شرعی اور قانونی اصولوں کے بارے میں تربیت دی جائے اور ان کی کارکردگی کی باقاعدہ نگرانی کی جائے۔

نااہل یا بدعنوان متولیوں کو ہٹانے کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کیا جائے۔

خلاصہ کلام:

اوقافی زمینیں مسلمانوں کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں جو ان کے مذہبی، تعلیمی، اور فلاحی مستقبل سے وابستہ ہیں۔ ان پر ناجائز قبضے نہ صرف ایک سنگین گناہ اور قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ مسلم کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہیں۔ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم سب مل کر ان قیمتی املاک کا تحفظ کریں اور انہیں ان مقاصد کے لیے استعمال ہونے دیں جن کے لیے انہیں وقف کیا گیا تھا۔ آپ کا یہ بلاگ اس اہم مسئلے پر بیداری پیدا کرنے میں یقیناً معاون ثابت ہوگا۔


 کیا جہنم سانس لیتی ہے؟

سورة طه

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *