وہ اذیت پسند جن کے ساتھ رہنا عذاب سے کم نہیں

وہ اذیت پسند جن کے ساتھ رہنا عذاب سے کم نہیں وہ اذیت پسند جن کے ساتھ رہنا عذاب سے کم نہیں

وہ اذیت پسند جن کے ساتھ رہنا عذاب سے کم نہیں

دنیا میں ہمیں مختلف قسم کے لوگ ملتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے پہلی ملاقات کے بعد دل چاہتا ہے کہ دوبارہ کبھی سامنا نہ ہو، مگر زندگی کے کئی شعبوں میں ان سے واسطہ پڑ ہی جاتا ہے، چاہے وہ گھر ہو، دفتر ہو یا کوئی اور جگہ۔ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد کو اذیت پسند (Sadists) کہا جا سکتا ہے۔

ان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنے اردگرد کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتے۔ انہیں دوسروں کو اذیت دے کر خوشی محسوس ہوتی ہے، چاہے یہ اذیت لفظوں کے تیروں کی صورت میں ہو، چہرے کے تاثرات میں چھپی ہو یا پھر جسمانی تشدد کی شکل میں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے آپ کو بار بار اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے، اپنی کامیابیوں کو چھپانا پڑتا ہے، اور تو اور، کئی بار یہ ثابت کرنے کے لیے کہ آپ بہت دکھی ہیں، باقاعدہ اداکاری کرنی پڑتی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس اداکاری تک پہنچتے پہنچتے، کیا آپ ان کے مظالم کا شکار ہو کر ذہنی اور جسمانی طور پر تباہ و برباد نہیں ہو چکے ہوتے؟

یہ لوگ کسی کی تعریف نہیں کر سکتے۔ اگر تعریف کریں گے بھی تو اس میں اپنی بڑائی کا جذبہ نمایاں ہوگا۔ کسی کی اصلاح کریں گے تو اس میں ایک طرح کی فرعونیت جھلکے گی، اور اگر مسکرا کر بات کریں گے یا مدد کریں گے تو اسے کسی نہ کسی طرح احسان ضرور جتائیں گے۔ اگر آپ دن کہیں گے تو ان کے لیے رات ہوگی، اور اگر رات کہیں گے تو وہ دن کو صحیح ثابت کریں گے۔ ان کے لیے ان کی اپنی ذات سب سے اہم ہوتی ہے، اور باقی تمام لوگ غیر ضروری یا فالتو۔

یہاں دو اہم سوالات جنم لیتے ہیں:

  یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ کوئی پیدائشی خامی ہے یا ان کا اپنایا ہوا رویہ؟

  ایسے ظالم لوگوں کے ظلم سے کیسے بچا جائے؟

ذاتی تجربات کی روشنی میں:

میں آپ کو اپنے تجربات سے چند واقعات سناتا ہوں۔

ریسکیو میں میرا باس 

میں ریسکیو کے شعبے میں کام کرتا تھا، اور وہاں میرا باس ایک مکمل سیڈسٹ تھا۔ میں تو خیر سچ کہوں تو اس کے رویے کا عادی ہو چکا تھا، اور مجھے اس کی خاص پروا نہیں تھی۔ البتہ وہاں ایک نیا افسر آیا جو خوش مزاج اور اچھا انسان تھا۔ چند دنوں کے بعد وہ ہمارے مشترکہ سیڈسٹ باس کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو گیا۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ بیچارہ Roy Lilly کی کتاب “Dealing with Difficult People” کا مطالعہ کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ اس نے افسردگی سے کتاب کا سرورق میری جانب کر دیا۔ میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پہلے کہ کچھ اور کہتا، اپنی دراز سے اسی کتاب کا اردو ترجمہ “مشکل لوگوں کو سمجھنے کے آسان طریقے” نکال کر سامنے کر دیا۔ پھر ہم دونوں کھل کر ہنسے۔

سکول ایجوکیشن کا بدبخت

ایک اور بدبخت سے مجھے سکول ایجوکیشن کے دوران واسطہ پڑا۔ وہ بھی ایک سیڈسٹ تھا، جو شدید احساسِ کمتری کا مارا ہوا تھا۔ اس نے اس کمتری کو اپنے ساتھ کام کرنے والوں پر احساسِ برتری کے جھوٹے احساس سے بدلنے کی کوشش کی تھی۔ وہ لوگوں کو اذیت دے کر خوش ہوتا تھا۔ چنانچہ، وہ لوگ جن کی خودی مدتوں پہلے کہیں دفن ہو چکی تھی، ان کے ساتھ اس کا ملنا جلنا ٹھیک تھا، لیکن وہ طبقہ جو اپنے کام سے مخلص تھا اور قوم کے بچوں کو پڑھانے کے لیے دل و جان سے حاضر تھا، انہیں اس میں بے شمار کیڑے، عیب اور نجانے کیا کیا کچھ نظر آتا تھا۔

صرف ایک واقعہ سنیے۔ میں نے چھٹی کے لیے ایک ضروری درخواست لکھی۔ صاحب بہادر نے اس خود ساختہ زعم میں کہ وہ ایم فل ہوتے ہوئے بھی مجھ پی ایچ ڈی سے زیادہ اچھے عہدے پر ہے، دو تین سرخ نشان لگا کر کہا: “دوبارہ لکھو!” میں نے دوبارہ لکھ دی، اس نے پھر کاٹ کر کہا: “دوبارہ لکھو!” یہی عمل اس نے پانچ بار دہرایا۔ میں نے اسے اپنے دماغ میں نفی (negative) کیا ہوا تھا، اس لیے اس کی باتیں میرے ذہن میں جگہ نہیں بنا سکیں۔ یہ کام میں نے ایک مشینی انداز میں کرکے اپنی جان چھڑا لی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں بزدل یا بے وقوف تھا؟ ذرا ٹھہریں!

میں فارغ وقت میں صرف لائبریری میں دوستوں کے ساتھ بیٹھتا تھا اور اس کے دفتر چکر نہیں لگاتا تھا، جب تک کہ اشد ضرورت نہ ہوتی۔ جب میں جاتا، وہ موقع محل دیکھ کر اپنی جرابیں اتار کر ٹانگیں میز پر میری جانب رکھ کر بیٹھ جاتا۔ ایک دو بار دوستوں نے کہا: “آپ اسے تھپڑ کیوں نہیں مار دیتے؟” میں نے کہا: “میں نے اپنے دماغ کو ٹریننگ دی ہوئی ہے کہ یہ ایک نفسیاتی مریض ہے اور میں اس کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں یہ الٹی چھلانگیں لگائے، اپنے کپڑے بھی پھاڑ ڈالے اور پاگلوں کی طرح اپنا سر نوچے۔ ہاں، یہ اگر میرے سر کی طرف آتا ہے تو پھر اس کی ایسی کی تیسی… اس کے لیے میں بالکل تیار ہوں۔”

یقین کریں، مجھے کبھی اس پر زیادہ غصہ نہیں آیا۔ وہ میری زندگی میں ایک مائنس (Minus) تھا، اور اس کی بیوقوفانہ حرکتیں میرے لیے وہاں سے نکلنے کے لیے تحریک (Motivation) تھیں۔ میں کبھی اس کی کوئی بات دماغ میں رکھ کر گھر لے کر نہیں آیا، کوشش کی کہ بالکل نظر انداز کروں اور وہ میرے خیالات تک میں نہ آسکے، کیونکہ وہاں کچھ نہ کچھ مثبت اور تحقیق و تنقید کے سوالات چلتے رہتے تھے، اور میرے ارد گرد اتنے سارے مثبت لوگ موجود تھے جن کی رفاقت اس کی بونگیوں (meaningless talks) کو زائل کر دیتی تھی۔

اکیڈمی کے صاحب

ایک اور صاحب کے ساتھ اکیڈمی میں کام کرنے کا موقع ملا۔ انہیں یہ خبط تھا (اور شاید اب بھی ہو) کہ ان سے آگے کوئی نہیں، نہ کوئی سوچ سکتا ہے، نہ دیکھ سکتا ہے، نہ سن سکتا ہے، نہ کسی سے کوئی تعلق قائم کر سکتا ہے۔ جب بھی دو دوست یا رفقائے کار اکٹھے ہوتے، تو گویا بہت بڑی سازش ہو جائے گی، کوئی ہنگامہ برپا ہو جائے گا، یا آپس میں سب مل بیٹھے تو قیامت آ جائے گی۔ چنانچہ، جب وہ ہمیں ملتے اور انہیں غلطی سے پتہ چل جاتا کہ ہم ایک دو دوست اکٹھے بیٹھے ہیں اور کوئی بات کی ہے یا ہم خدانخواستہ خوش ہیں تو بڑی کینہ توز نظروں سے ہمیں سر سے پاؤں تک دیکھتے، یا پھر نجانے کیا ثابت کرنے کے لیے اونچا نیچا بولتے یا منفی قسم کے سوالات کرتے۔ یا پھر جان بوجھ کر اپنے آپ کو حقیر ثابت کرنے کی کوشش کرتے تاکہ باقی سب شرمندگی محسوس کریں اور کہیں نہیں، نہیں ایسا نہیں ہے۔

ایسے لوگوں سے کیسے نمٹیں؟

تو دوستو، یہ تو چند لوگ ہیں جن کا ذکر میں نے کیا، ایسے بہت سارے لوگ آپ کے ارد گرد ہوں گے۔ اگر خدانخواستہ آپ کا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑ چکا ہے، چاہے وہ آپ کے نکاح میں ہوں، رشتہ داروں میں ہوں یا پڑوس میں، تو سمجھیے کہ آپ صبر و شکر کے ساتھ گزارہ کر کے دنیا ہی میں آدھی پونی جنت کے حقدار ہو گئے۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں، ان کے بچپن کی کمتری جسے یہ اب اقتدار، عہدہ یا کوئی بھی عارضی منزل ملنے پر احساسِ برتری میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (بڑے بابو کو تو چھوڑیں، کسی مقتدر ادارے کے کلرک بابو سے بھی آپ کا کبھی واسطہ پڑا ہے؟ کبھی اے جی آفس، سرکاری ہسپتال کے پرچی بنانے والے یا کمرے کے باہر بیٹھے داروغہ یا “صاحب” کے دفتر کے باہر بیٹھے نائب قاصد ہی سے واسطہ پڑ چکا ہے تو آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے)۔

تو ایسے لوگوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھیں؟ اگر آپ نے ایسے لوگوں کو زندگی میں کئی بار اور کئی سال تک بھگتا ہے اور آپ ان کی نفسیات سمجھ چکے ہیں تو ان سے جان چھڑانا سیکھ چکے ہوں گے، کچھ عاجزی اور محبت سے پیش آکر، یا کچھ نظر انداز کرکے، یا کچھ ڈانٹ ڈپٹ کرکے۔ اگر آپ نئے ہیں تو آپ کے لیے یہ سب سیکھنا بہت ضروری ہے ورنہ آپ کا حال بے حال ہونے والا ہے۔

چند عملی مشورے یہ ہیں

  نظر انداز کریں اور سیدھے ہو جائیں: کوشش کریں کہ ایسے لوگوں کو نظر انداز کریں اور خوامخواہ عزت دینے کے بجائے ایک دو بار سیدھے ہو جائیں۔ دیکھیے کہ اس سے کتنے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ البتہ قریبی رشتہ داری اور مستقل باس کی صورت میں ذرا کم سیدھے ہونا ہے۔

  دماغ سے نفی کر دیں: انہیں دماغ میں رکھ کر نظر انداز نہ کریں بلکہ دماغ سے نفی کرکے نظر انداز کریں۔ ان کی باتوں پر کم سے کم توجہ دیں۔

  تاثرات نہ دیں: ایک اور انداز میں ڈٹ کر دیکھیے، اور وہ یہ ہے کہ وہ جو بھی اذیت والی بات کریں یا کہیں، اپنے چہرے پر اس کے تاثرات نہ آنے دیں، اسے ہوا میں اڑا دیں اور اتنے پرسکون اور خوش باش رہیں کہ وہ اندر ہی اندر جل کر مر جائیں۔

  مستقل چھٹکارا: چوتھی چیز وہ ہے جسے کرنا ظاہر ہے مشکل ہے، اور وہ ہے مستقل چھٹکارا۔ ہم ہر جگہ مستقل چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ ہمیں بہرحال انسانی زندگی میں بہت سی جگہوں پر مفاہمت اور حکمتِ عملی ہی سے چلنا پڑتا ہے۔

  صبر اور نماز سے مدد طلب کریں: پانچویں چیز صبر اور نماز سے اللہ کی مدد طلب کرنا ہے۔ زندگی میں کوشش کرکے اسے اول جگہ دیں۔

اذیت پسندی سے چھٹکارا

میری دعا ہے کہ آپ ہمیشہ ایسے اذیت پسندوں سے دور رہیں، اور اگر خدانخواستہ آپ خود اذیت پسند یا Sadist ہیں یا اس جانب بڑھ رہے ہیں تو خود کو سمجھائیں، قابو کریں، زندگی کو آسانی کی جانب مائل کریں، چھوٹی چھوٹی باتیں نظر انداز کریں۔ یہ سمجھیں کہ یہ کائنات بہت وسیع ہے، ہر حسین سے زیادہ حسین، ہر دولت مند سے زیادہ دولت مند اور ہر عقل مند سے زیادہ عقل مند موجود ہے۔ آپ نے یہاں زندگی خوش خوش گزارنی ہے، لوگوں کی مدد کرنی ہے، عاجزی اور محبت سے دنیا فتح کرنی ہے۔ اپنی انا کو پاش پاش کرکے زندگی کے خوبصورت گوشے ڈھونڈنے ہیں۔ اس سے یقیناً زندگی پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگی اور روحانی تسکین ملے گی۔

شاید میں غلط ہوں… پر یہ نسخہ آزما کے دیکھیے


یہ کہانی ہم سب کی ہے 

سورة النور

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *