پرانے جوتے اور نئی راہیں
ایک سبق آموز حکایت دورِ حاضر کے لیے
ابتدائیہ
آج کا انسان ترقی، رفتار، اور نئی جدتوں کا دیوانہ ہے۔ ہر چیز نئی، چمکتی، تیز اور فیشن ایبل ہونی چاہیے۔ لیکن اسی رفتار میں ہم بعض اوقات ان قیمتی روایات اور احساسات کو فراموش کر بیٹھتے ہیں جو زندگی کو اصل معنوں میں خوبصورت بناتے ہیں۔ ہم اپنی جڑوں سے کٹتے جا رہے ہیں، اور شاید اسی لیے سکون ہم سے روٹھ گیا ہے۔
یہ حکایت ایک ایسی کہانی ہے جو ہر اس شخص کے لیے آئینہ ہے جو اپنی پرانی بنیادوں کو چھوڑ کر نئی راہوں کی طرف دوڑ تو رہا ہے، لیکن اصل منزل سے بے خبر ہے۔
کہانی کا آغاز
ایک نوجوان، جو یورپ کی ایک مشہور یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹرز کر کے وطن واپس آیا، اپنے والد کی حالت دیکھ کر اندر سے شرمندہ بھی ہوا اور کچھ نالاں بھی۔
اس کے والد ایک محنت کش درزی تھے۔ پرانی طرز کی دکان، لکڑی کی میز، سیون مشین، اور دیوار پر لٹکے کپڑوں کے سانچے۔ دکان میں نہ اے سی، نہ کمپیوٹر، اور نہ ہی کوئی ماڈرن سسٹم۔
بیٹے نے دل ہی دل میں سوچا:
“یہ سب کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ابا کو آرام کرنا چاہیے۔ میں انہیں شہر لے جاؤں گا، نئی زندگی دوں گا۔”
اگلے دن اس نے باپ سے کہا:
“ابا جان! آپ نے بہت محنت کی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ آپ آرام کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ یہ دکان بند کریں اور میرے ساتھ شہر چلیں۔ وہاں ہم ایک نیا بزنس شروع کریں گے، نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ۔ یہ پرانی سوچ اب نہیں چلے گی۔”
بوڑھے باپ نے بیٹے کو مسکرا کر دیکھا۔ ان آنکھوں میں فخر بھی تھا، دعا بھی، اور ایک ہلکی سی تشویش بھی۔
باپ کا خاموش پیغام
باپ نے بیٹے کا ہاتھ تھاما اور کہا
“بیٹا، میں خوش ہوں کہ تم نے تعلیم حاصل کی۔ لیکن ایک دن میرے ساتھ چلو، کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔ شاید وہ چیز تمہارے خیال کو تھوڑا بدل دے۔”
اگلے دن وہ دونوں ایک تنگ گلی میں پہنچے۔ وہاں ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا، جس کی عمر 70 کے لگ بھگ لگتی تھی۔ وہ ایک چھوٹے سے ٹپے پر بیٹھا جوتوں کی مرمت کر رہا تھا۔ اس کے سامنے پرانے، ٹوٹے، ادھڑے ہوئے جوتے رکھے تھے۔ اس کے چہرے پر تھکن تھی، لیکن آنکھوں میں چمک۔
بوڑھے درزی نے بیٹے سے کہا
“یہ دیکھو، یہ بوڑھا آدمی روزانہ درجنوں لوگوں کے پرانے جوتے مرمت کرتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنے جوتے پھینک سکتے تھے، وہ یہاں آتے ہیں، ان کی مرمت کرواتے ہیں، اور مطمئن ہو کر چلے جاتے ہیں۔”
نوجوان نے فوراً جواب دیا
“ابا جان! یہ کیا ہے؟ نہ عزت، نہ آمدنی، نہ ترقی۔ ایسی زندگی کا کیا فائدہ؟”

سبق آموز بات
باپ نے گہری سانس لی اور کہا
“بیٹا، یہ صرف جوتے سی نہیں رہا… یہ ٹوٹے ہوئے انسانوں کو امید دے رہا ہے کہ چیزیں ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ یہ ہمیں سکھا رہا ہے کہ پھینک دینے سے بہتر ہے کہ مرمت کی جائے۔”
پھر وہ رک کر بولا
“تمہارے لیے شاید یہ جوتے بیکار ہیں، پر کسی کے لیے یہی جوتے اس کا آخری سہارا ہوتے ہیں۔ ہم نے بھی تمہیں کبھی پرانا نہیں سمجھا، بلکہ تمہاری ہر بات کو اہم جانا۔ تو کیا تم ہماری دنیا کو محض پرانی کہہ کر نظر انداز کر سکتے ہو؟”
بیٹا خاموش ہو گیا۔
نئے اور پرانے کا ملاپ
وہ پورا دن گلی کے کونے پر بیٹھا رہا۔ وہ دیکھتا رہا کہ کیسے لوگ آتے، بوڑھے موچی سے باتیں کرتے، کبھی پرانے جوتوں کے ساتھ بچپن کی یادیں سنا دیتے، کبھی اپنی بیٹی کی شادی کے لیے چمڑے کے جوتے سیدھے کراتے۔
ہر جوتے کے ساتھ ایک کہانی جڑی تھی، اور ہر مرمت کے ساتھ ایک نئی امید۔
شام کو بیٹے نے باپ کا ہاتھ تھاما اور کہا
“ابا جان! آپ نے آج مجھے نئی یونیورسٹی میں داخل کر دیا ہے۔ مجھے سکھا دیا کہ زندگی صرف نیا پہننے یا کمانے کا نام نہیں، بلکہ جو ہمارے پاس ہے، اس کی قدر کرنے کا نام بھی ہے۔”
دورِ حاضر کے لیے پیغام
آج کے انسان کو یہ سبق سمجھنا ضروری ہے کہ ترقی اور جدت ضروری ہیں، مگر بنیادیں ہمیشہ پرانی ہی ہوتی ہیں۔ ہم اگر نئی منزلیں پانا چاہتے ہیں تو پرانی جڑوں کو نہیں کاٹ سکتے۔
ہمارے والدین، ہمارے بزرگ، وہ پرانے جوتے نہیں جنہیں ہم چھوڑ دیں، بلکہ وہ وہی پرانی راہیں ہیں جنہوں نے ہمیں سیدھا چلنا سکھایا۔
قرآنی روشنی
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
“وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا”
(سورہ الإسراء: 24)
“اور کہہ دیجیے: اے میرے رب! ان دونوں (ماں باپ) پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔”
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ماں باپ کی خدمت، ان کے تجربے کی قدر اور ان کی باتوں کو سننا محض اخلاق نہیں بلکہ ایک عبادت ہے۔
خلاصہ
پرانے جوتے پھینکنے سے بہتر ہے کہ انہیں مرمت کیا جائے۔
پرانے بزرگ، پرانی تعلیمات، پرانی روایات — سب وہ خزانے ہیں جن سے ہمیں سیکھنا چاہیے۔
ترقی وہی ہوتی ہے جو جڑوں سے جڑی ہو، ورنہ درخت سایہ نہیں دیتا۔