کیا ہم یہی مسلمان ہیں؟۔۔

 کیا ہم یہی مسلمان ہیں؟۔۔   کیا ہم یہی مسلمان ہیں؟۔۔ 

 کیا ہم یہی مسلمان ہیں؟۔۔ 

 کیا ہم یہی مسلمان ہیں؟۔۔ 

عید کا دن ہے گلے آج تو مل ظالم، رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے، ماہ رمضان المبارک اپنے اختتام کو پہنچ گیا ماہ رمضان کے دوران مسلمانوں نے عبادت اوردعاؤں کا خصوصی اہتمام کیا، روزے رکھے گئے، نمازوں کی پابندی کی گئی، مساجد اپن وسعتوں کے باوجود تنگ دامنی کا شکوہ کر رہی تھی، سحری اور افطاری کا اہتمام کیا گیا، زکوۃ اور فطرہ وغیرہ دیا گیا، غریب اور مفلوک الحال مسلمانوں کی مدد کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی، بھوک اور پیاس کا احساس کیا گیا، دینی مدارس اور طلبہ کی حتی الامکان مدد کی گئی، غریبوں، بیواؤں اور مسکینوں کی بھی داد رسی کی گئی، مساجد میں خصوصی عبادت کا اہتمام کیا گیا، تراویح اور تہجد کی نمازوں میں مسجد آباد رہیں اخری عشرے میں بے شمار مساجد میں اعتکاف کا اہتمام بھی کیا گیا، وسائل اور حیثیت رکھنے والے افراد نے عمرہ کی سعادت بھی حاصل کی، اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں گڑگڑا کر دعائیں کی گئی، اپنے گناہوں کی معافی طلب کی گئی، اپنے معاملات کو اللہ تعالی سے رجوع کیا گیا، غرض یہ کہ ماہ رمضان کے جو تقاضے تھے ان کی تکمیل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔۔۔ یہ ضروری ہے کہ کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں، اور کچھ خامیاں بھی رہ گئی ہے، تا ہم اللہ رب العزت جو کہ رحمان اور کریم ہے اس لیے اس کی بارگاہ سے امید ہے کہ اللہ اپنے فضل و کرم سے ان کوتاہیوں اور خامیوں کو معاف فرمائے گا۔۔ جب کہ ماہ رمضان المبارک اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے تو یہ اندیشہ بھی سر ابھرنے لگے ہیں۔۔ 

رمضان کے بعد مسجد ایک بار پھر ویران ہو جائیں گی ، مسلمان ایک بار پھر سے لہو لعب کا شکار ہو جائیں گا، اپنے معاملات میں شریعت کو فراموش کر بیٹھے گا، غریبوں اور مسکینوں کی داد رسی کا سلسلہ رک جائے گا، یہ کم از کم تھم جائے گا، لوگ دنیاوی کاموں میں اس قدر مصروف ہو جائیں گے کہ انہیں مساجد کی یاد بھی نہیں آئیگی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ سے لگا تار اور مسلسل رجوع ہوتے ہوئے دین اور دنیا دونوں میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، رمضان المبارک نے ہمیں جو سکھایا ہے اس کو غیر رمضان میں بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ ہماری زندگیاں اس طرح بارونق رہے جس طرح ماہ رمضان میں رہی ہیں۔۔۔ اپنی زندگیوں میں احکام شریعت پر عمل کرنے کو مسلمان لازم کر لے ہم نے ماہ رمضان میں جو زندگی گزاری ہے اسی طرح کی زندگی سال بھر گزارنے کی ضرورت ہے ہمیں یہ ہمیں یہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح ایک دوسرے سے ہمدردی اور مدد کا جو جذبہ ماہ رمضان المبارک میں رکھا تھا اس کو سال بھر برقرار رکھا جائے مساجد کو آباد رکھا جائے نمازوں کی پابندی کی جائے، یہ بات درست ہے کہ روزے صرف ماہ رمضان میں فرض ہے تا ہم نمازیں سال بھر اور ایک دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے۔۔۔۔

فرائض کی ادائیگی سے ہمیں جو سکون اور تمانیت قلب حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور شے میں ممکن نہیں ہے نمازوں کی پابندی ہمیں دین اور دنیا دونوں میں سرخروئی اور کامیابی عطا کرتی ہے لہذا ہمیں ہر حال میں نماز کی پابندی کی جو عادت بن گئی ہے اسے برقرار رکھنا چاہیے احکام خداوندی کی تکمیل ہر حال میں کی جانا چاہیے سنتوں کی ادائیگی میں بھی ہمیں جوش و جذبے کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے غریبوں اور مسکینوں کی سال بھر داد رسی حتی الامکان کی جانا چاہیے ایک صالح اسلامی معاشرے کی جو تصویر ماہ رمضان میں دیکھنے میں اتی ہے اسے برقرار رکھنا چاہیے تاکہ اغیار ہمارے خلاف جو سازشیں کر رہے ہیں انہیں ناکام بنایا جا سکے اور مسلمانوں کی جان وہ مال اور عزت و ابرو کی حفاظت ہو سکے ہم سے ماہ رمضان وداع ہوا ہے، لیکن احکام شریعت پر عمل اوری ہمارے لیے ساری زندگی ضروری ہے۔۔

اج دنیا بھر کے جو حالات ہیں وہ سپر ایا ہے ساری دنیا اسلام اور مسلمان کے دشمن بنی ہوئی ہے ہمارے خلاف منظم سازشیں کی جا رہی ہیں ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے جدوجہد کی جا رہی ہے اور منصوبے بنائے جا رہے ہیں ان منصوبوں اور سازشوں کو ہم احکام شریعت کی پابندی کرتے ہوئے ہی ناکام بنا سکتے ہیں دنیا کے سامنے مسلمانوں کا عملی کردار پیش کرنا ضروری ہے جو ہم نے ماہ رمضان میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی ہمیں یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ماہ رمضان نے ہمیں جو ڈسپلین سکھایا ہے  ہم اس کو پوری زندگی میں برقرار رکھیں گے، اور اس کے ذریعے دین اور دنیا دونوں میں سرخروئی حاصل کریں گے۔۔۔۔

========

خوف و خشیت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *