گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا

گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا

گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا

وقت! ایک ایسا انمول خزانہ جو ہر کسی کو یکساں طور پر ملتا ہے، مگر اس کی قدر اور استعمال کا طریقہ ہر شخص کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی بہتی ہوئی ندی ہے جو کبھی رکتی نہیں، کبھی پیچھے مڑتی نہیں، اور جو لمحہ اس میں سے گزر گیا، وہ ہمیشہ کے لیے گزر گیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم سب جانتے ہیں، مگر اس کی گہرائیوں کو کم ہی لوگ سمجھ پاتے ہیں۔ “گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا” یہ محض ایک جملہ نہیں، بلکہ زندگی کا ایک اٹل اصول ہے، ایک ایسا سبق جو اگر وقت پر سیکھ لیا جائے تو زندگی سنور جاتی ہے، ورنہ پچھتاووں کی گرد میں لپٹ کر رہ جاتی ہے۔

۔ قرآن کی روشنی میں وقت کی اہمیت

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے جس سے وقت کی بے پناہ اہمیت اجاگر ہوتی ہے کیونکہ اللہ عزوجل کبھی بھی کسی کمتر چیز کی قسم نہیں کھاتے۔

1۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر میں ’وقتہ فجر اور عشرۂ ذوالحجہ‘ کی قسم کھائی ہے

وَالْفَجْرِO وَلَيَالٍ عَشْرٍO

(الفجر، 89 : 1 – 2)

اس صبح کی قَسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی)o اور دس (مبارک) راتوں کی قَسمo‘‘

2۔ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی قسم بھی کھائی ہے، ارشاد ہوتا ہے

وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىO وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىO

(الليل، 92: 1 – 2)

رات کی قَسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے) o اور دن کی قَسم جب وہ چمک اٹھےo

3۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحیٰ میں ’چاشت کے وقت اور رات‘ کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا

وَالضُّحَىO وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىO

(الضحيٰ، 93: 1 – 2)

قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)o اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائےo‘‘

4۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں ’زمانہ کی قسم‘ کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا

وَالْعَصْرِO إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍO

(العصر، 103: 1 – 2)

زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے) بیشک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے) ‘‘

مذکورہ تمام آیاتہ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے فجر، صبح، چاشت، رات، دن اور زمانہ کی قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول ہے کہ وہ ہمیشہ کسی غیر معمولی شے پر قسم کھاتا ہے۔ لہٰذا ان آیات میں جو اس نے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ان کے ذریعے درحقیقت ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اپنی زندگی کے اوقات کو معمولی اور حقیر نہ سمجھو، اس کے ایک ایک لمحہ کا تم سے حساب ہونا ہے۔

۔ احادیثہ مبارکہ کی روشنی میں وقت کی اہمیت

احادیثہ مبارکہ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقت کی اہمیت کو بیحد اجاگر کیا ہے۔

۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرمایا :

نہعمَتَانہ مَغْبہونٌ ہہيهہمَا کَثہيرٌ مہنَ النَّاسہ : الصہّحَّةہ وَالْہَرَاغہ.

(بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب لا عيش إلا عيش الآخرة، 5: 2357، رقم: 6049)

(ترمذي، السنن، کتاب الزهد، باب الصحة والفراغ. . . ، 4: 550، رقم: 2304)

دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں : صحت اور فراغت

اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغت اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی ہیں اور ان کو کبھی زوال نہیں آنا حالانکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔ جو ربہ کائنات ان عظیم نعمتوں سے نوازنے والا ہے وہ ان کو کسی وقت بھی چھین سکتا ہے لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر استعمال میں لانا چاہیے۔

۔ حضرت ابو بَرزَہ اَسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرمایا :

لَا تَزہولہ قَدَمَا عَبْدہ يَوْمَ الْقہيَامَةہ حَتَّی يہسْأَلَ : عَنْ عہمْرہهہ ہہيْمَا أَہْنَاهہ، وَعَنْ عہلْمہهہ ہہيْمَ ہَعَلَ، وَعَنْ مَالہهہ مہنْ أَيْنَ اکْتَسَبَهہ وَہہيمَ أَنْہَقَهہ، وَعَنْ جہسْمہهہ ہہيمَ أَبْلَاهہ.

(ترمذي، السنن، کتاب صہة القيامة والرقائق، باب ما جاء ہي شأن الحہساب والقہصاص، 4: 612، رقم: 2417)

’’قیامت کے دن بندہ اس وقت تک (اللہ کی بارگاہ میں) کھڑا رہے گا جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا: 1۔ اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری، 2۔ اس نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا، 3۔اس نے مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا۔ 4۔اس نے اپنا جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔‘‘

قارئینہ کرام! کیا ہم یوم قیامت اللہ رب العزت کے حضور اپنی زندگی، علم، مال اور جسم کے بارے میں سوالات کے جواب دینے کو تیار ہیں؟ کیا ہم اللہ عزوجل کی طرف سے عطا کردہ ان نعمتوں کا حق ادا کر رہے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے احوالہ حیات کا جائزہ لینا ہوگا اور پھر درستگی کی طرف آنا ہوگا۔ اسی صورت میں ہم قیامت کے روز اللہ پاک کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ سکیں گے۔

۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرمایا :

إنْ قَامَتہ السَّاعَةہ وَبہيَدہ أَحَدہکہمْ ہَسہيلَةٌ، ہَإہنہ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَقہوْمَ حَتَّی يَغْرہسَهَا ہَلْيَہْعَلْ.

(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 191، رقم: 13004)

اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لئے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہئے

اندازہ کیجیے کہ شارع اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے متبعین کو کس قدر وقت کی اہمیت اور اعمال صالحہ کا احساس دلا رہے ہیں کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور کوئی اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی ذرا بھر نیکی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس میں بھی غفلت کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ فوراً نیکی کر ڈالے۔

۔ حضرت مَعقہل بن يَسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرمایا

لَيْسَ مہنْ يَوْمہ يَأْتہي عَلَي ابْنہ آدَمَ إلَّا يہنَادہي ہہيْهہ، يَا ابْنَ آدَمَ، أنَا خَلْقٌ جَدہيدٌ، وَأَنَا ہہيْمَا تَعْمَلہ عَلَيْکَ غَدًا شَهہيْدٌ، ہَاعْمَلْ ہہيَّ خَيْرًا أشْهَدہ لَکَ بہهہ غَدًا، ہَإہنہّي لَوْ قَدْ مَضَيْتہ لَمْ تَرَنہي أبَدًا، قَالَ : وَيَقہولہ اللَّيْلہ : مہثْلَ ذَلہکَ.

(أبو نعيم أصبهاني، حلية الأولياء، 2 : 303)

’’اولادہ آدم پر ہر نیا آنے والا دن (اسے مخاطب ہوکر) کہتا ہے: اے ابن آدم! میں نئی مخلوق ہوں، میں کل (یوم قیامت) تمہارے عمل کی گواہی دوں گا پس تم مجھ میں عملہ خیر کرنا کہ میں کل تمہارے حق میں اسی کی گواہی دوں، اگر میں گزر گیا تو پھر تم مجھے کبھی بھی دیکھ نہیں سکو گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی طرح کے کلمات رات بھی دہراتی ہے

اتنے واضح فرامین جاننے کے بعد بھی اگر کوئی مسلمان غفلت کا مظاہرہ کرے اور اپنے دن و رات کو کھیل کود، فضول گپ شپ، کھانے پینے، ہوٹلنگ، سیر و سیاحت، گھومنے پھرنے اور سونے میں گزار دے تو اس پر سوائے حیف کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کسی صاحب حکمت کا بڑا خوبصورت قول ہے :

إن الليل والنهار يعملان ہيک ہاعمل ہيهما.

(قرشي، مکارم الأخلاق، 1 : 29)

رات اور دن تجھ پر عمل کر رہے ہیں تو بھی ان میں عمل کر

۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ہرمایا

اغْتَنہم خَمْساً قَبْلَ خَمْسہ : شَبَابَکَ قَبْلَ هَرَمہکَ، وَصہحَّتَکَ قَبْلَ سہقْمہکَ، وَغَنَاءَکَ قَبْلَ ہَقْرہکَ، وَہَرَاغَکَ قَبْلَ شہغْلہکَ، وَحَيَاتَکَ قَبْلَ مَوْتہکَ.

(حاکم، المستدرک، 4: 341، رقم: 7846)

پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو: بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، محتاجی سے پہلے تونگری کو، مصروفیت سے پہلے فراغت کو اور موت سے پہلے زندگی کو

حدیث مبارکہ میں زندگی کے چار احوال جوانی، صحت، غناء اور فراغت، کی طرف خصوصی اشارہ کرنے کے بعد ساری زندگی کو موت کے مقابل رکھ دیا گیا ہے۔ جس طرح جوانی کے بعد بڑھاپے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صحت کے ساتھ بیماری سے واسطہ پڑتا ہے، امیری کے ساتھ ہقیری لاحق ہوتی ہے اور ہراغت کے ساتھ مصروہیت بھی گھیرتی ہے اسی طرح انسان کو دنیاوی حیات کے بعد موت کا بھی سامنا کرنا ہے۔ اب یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں جوانی، صحت، تونگری اور ہراغت کے تمام اوقات کو کس طرح بسر کرتا ہے؟ زندگی کے یہ تمام لمحات انسان کے آنے والے احوال پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جوانی، صحت، غناء، فراغت اور ساری زندگی اگر ہم مثبت سرگرمیوں اور خیر کے کاموں میں صرف کریں گے تو لازمی بات ہے کہ ہماری دنیا و عقبیٰ بہتر ہوگی لیکن اگر ہم نے اہن گرانقدر اوقات کی قدر نہ کی تو یقیناً پھر ہمیں ہی اس کے نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اس لئے اللہ رب العزت نے مؤمنوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ہرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَO وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

(الحشر، 59: 18 – 19)

ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئیے کہ اس نے کل (قیامت) کے لئے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہوo اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھلا بیٹھے پھر اللہ نے اُن کی جانوں کو ہی اُن سے بھلا دیا (کہ وہ اپنی جانوں کے لئے ہی کچھ بھلائی آگے بھیج دیتے)، وہی لوگ نافرمان ہیںo

ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ وقت کی قدر کو اس وقت محسوس کرتے ہیں جب وہ اسے کھو چکے ہوتے ہیں۔ بچپن کھیل کود میں، جوانی غفلت میں، اور بڑھاپا حسرتوں میں گزر جاتا ہے۔ کاش! ہم ہر گزرتے لمحے کو اس کی اصل قدر کے ساتھ پہچان سکیں۔ آئیے، اس حقیقت کو چند حکایتوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وقت کی اہمیت کیا ہے اور اسے ضائع کرنے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔

حکایت نمبر 1: طالب علم کی غفلت

ایک گاؤں میں احمد نام کا ایک ذہین طالب علم رہتا تھا۔ اس کے اساتذہ اور والدین کو اس سے بہت امیدیں تھیں۔ احمد پڑھائی میں اچھا تھا، مگر اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ ہر کام کو کل پر ٹال دیتا تھا۔ امتحانات قریب آتے، تو وہ سوچتا کہ ابھی بہت وقت ہے، آج نہیں تو کل پڑھ لوں گا۔ اس کے دوست اسے پڑھنے کے لیے کہتے، تو وہ ہنس کر ٹال دیتا، “ابھی تو بہت وقت ہے، امتحانات میں کافی دن باقی ہیں۔”

وقت پر لگا کر پرواز کرتا رہا اور احمد کی غفلت بڑھتی گئی۔ جب امتحانات سر پر آ گئے، تو اس نے دیکھا کہ سلیبس کا ایک بڑا حصہ ابھی تک پڑھا ہی نہیں ہے۔ وہ راتوں کو جاگ کر پڑھنے لگا، مگر جو پڑھائی مہینوں میں ہونی تھی، وہ چند دنوں میں کیسے ممکن تھی؟ اس کا ذہن تھک گیا، نیند کی کمی سے طبیعت خراب ہونے لگی، اور وہ دباؤ کا شکار ہو گیا۔

امتحانات کے نتائج آئے تو احمد کی کارکردگی انتہائی مایوس کن تھی۔ وہ نہ صرف اچھے نمبروں سے محروم رہا، بلکہ اس کے والدین اور اساتذہ کی امیدیں بھی ٹوٹ گئیں۔ اس نے اپنی آنکھوں میں آنسو لیے اپنے دوستوں سے کہا، “کاش! میں نے اس وقت کو ضائع نہ کیا ہوتا۔ کاش! میں نے اس وقت پڑھ لیا ہوتا جب میرے پاس کافی وقت تھا۔ آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ گزرا ہوا وقت واقعی واپس نہیں آتا۔” اس کے بعد احمد نے وقت کی قدر کرنا سیکھی، مگر جو موقع وہ گنوا چکا تھا، وہ دوبارہ کبھی نہیں ملا۔

حکایت نمبر 2: تاجر کی بے پرواہی

ایک شہر میں سلیم نام کا ایک نوجوان تاجر تھا۔ اس کے والد نے اسے ایک کامیاب کاروبار ورثے میں دیا تھا۔ سلیم کے پاس کاروبار کو مزید وسعت دینے کے بے شمار مواقع تھے، مگر وہ وقت کا پابند نہیں تھا۔ وہ صبح دیر سے اٹھتا، دکان پر دیر سے پہنچتا، اور گاہکوں سے ملنے میں سستی کرتا۔ اس کے ملازمین بھی اس کی بے پرواہی دیکھ کر کاہل ہو گئے تھے۔

ایک دن اس کے ایک بزرگ دوست نے اسے سمجھایا، “سلیم! وقت کی قدر کرو۔ کاروبار میں ایک لمحہ بھی ضائع کرنا نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ آج جو گاہک تمہارے پاس آیا ہے، اگر تم نے اسے وقت پر اچھی سروس نہ دی، تو وہ دوبارہ نہیں آئے گا۔ آج جو موقع تمہیں مل رہا ہے، اگر تم نے اسے وقت پر نہ پکڑا، تو وہ کسی اور کے ہاتھ لگ جائے گا۔”

سلیم نے اپنے دوست کی بات کو ہنس کر ٹال دیا۔ وہ سوچتا رہا کہ کاروبار تو چل ہی رہا ہے، کیا فرق پڑتا ہے اگر تھوڑی دیر ہو جائے۔ اسی دوران، اس کے مقابل ایک نیا تاجر آیا جو وقت کا بہت پابند تھا۔ وہ صبح سویرے دکان کھولتا، گاہکوں کو بہترین سروس دیتا، اور نئے مواقع تلاش کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سلیم کے گاہک اس نئے تاجر کی طرف منتقل ہونے لگے۔ سلیم کا کاروبار دن بدن گھٹنے لگا، یہاں تک کہ اسے شدید مالی نقصان اٹھانا پڑا۔

جب سلیم کا کاروبار بالکل تباہ ہو گیا، تو اس نے اپنے بزرگ دوست کو یاد کیا۔ وہ ان کے پاس گیا اور روتے ہوئے کہنے لگا، “آپ نے سچ کہا تھا، دوست۔ میں نے وقت کی قدر نہیں کی، اور آج میرا سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ کاش! میں نے اس وقت آپ کی بات سن لی ہوتی جب میرے پاس وقت تھا۔ گزرا ہوا وقت واقعی واپس نہیں آتا۔” سلیم نے اس نقصان سے ایک بڑا سبق سیکھا، مگر جو مالی استحکام اور کاروباری ساکھ وہ کھو چکا تھا، اسے دوبارہ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

حکایت نمبر 3: بزرگ کی نصیحت

ایک گاؤں میں ایک بہت دانا اور تجربہ کار بزرگ رہتے تھے جن کا نام بابا جی تھا۔ لوگ دور دور سے ان کے پاس مشورہ لینے آتے تھے۔ ایک دن ایک نوجوان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا، “بابا جی! میں اپنی زندگی میں بہت پریشان ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔”

بابا جی نے مسکرا کر نوجوان سے پوچھا، “بیٹا! کیا تم نے کبھی بہتی ہوئی ندی کو غور سے دیکھا ہے؟”

نوجوان نے حیرانی سے کہا، “جی بابا جی، دیکھا ہے۔”

بابا جی نے فرمایا، “کیا تم نے دیکھا کہ وہ ندی کبھی پیچھے مڑتی ہے؟ کیا اس کا پانی کبھی واپس آتا ہے جہاں سے وہ بہہ چکا ہے؟”

نوجوان نے سر نفی میں ہلا دیا۔

بابا جی نے کہا، “بالکل اسی طرح ہماری زندگی کا وقت بھی ہے۔ جو لمحہ گزر گیا، وہ کبھی واپس نہیں آتا۔ تم آج جو پریشان ہو، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ تم نے گزرے ہوئے وقت کی قدر نہیں کی۔ جب تمہارے پاس پڑھنے کا وقت تھا، تم نے کھیل کود میں گزار دیا۔ جب کمانے کا وقت تھا، تم نے سستی کی۔ اب جب وقت گزر چکا ہے، تو تم پریشان ہو رہے ہو۔”

بابا جی نے مزید کہا، “بیٹا! میں نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو وقت کو ضائع کرتے ہیں اور پھر پچھتاتے ہیں۔ میں نے خود بھی اپنی جوانی میں کچھ وقت ضائع کیا جس کا مجھے آج بھی افسوس ہے۔ اگر میں اس وقت کو صحیح طریقے سے استعمال کرتا تو آج میری زندگی اور بہتر ہوتی۔ وقت ایک ایسا تحفہ ہے جو صرف ایک بار ملتا ہے۔ اسے استعمال کرو، اس سے فائدہ اٹھاؤ، اس کی قدر کرو۔ کیونکہ جو لمحہ گزر گیا، وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔”

نوجوان نے بابا جی کی نصیحت کو دل سے سنا اور اس پر عمل کرنے کا پختہ ارادہ کیا۔ اس نے اپنی زندگی کو نئے سرے سے منظم کیا اور وقت کی قدر کرنا سیکھی۔

حکایت   نمبر 4: کسان کی کاہلی

ایک سرسبز گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا جس کا نام رحیم تھا۔ اس کے پاس ایک زرخیز زمین تھی جو اچھی فصل دینے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ موسم بہار آیا، کھیتوں میں بیج بونے کا وقت تھا۔ دوسرے کسان اپنے کھیتوں میں دن رات محنت کر رہے تھے، مگر رحیم کاہل تھا۔ وہ سوچتا، “ابھی تو بہت وقت ہے، کل بونگا، پرسوں بونگا۔”

اس کی بیوی اسے بار بار یاد دلاتی کہ یہ بیج بونے کا بہترین وقت ہے، اگر وقت پر بیج نہ بوئے تو فصل اچھی نہیں ہوگی۔ مگر رحیم نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں اور فضول کاموں میں وقت گزارتا رہا۔ جب اس نے بیج بونے کا ارادہ کیا، تو موسم بدل چکا تھا، بارشیں کم ہو گئی تھیں، اور زمین سخت ہو چکی تھی۔

اس نے جیسے تیسے بیج بوئے، مگر وقت گزر چکا تھا۔ اس کی فصل دوسرے کسانوں کی فصلوں جیسی اچھی نہیں ہوئی۔ جب کٹائی کا وقت آیا، تو دوسرے کسانوں کے گودام اناج سے بھرے ہوئے تھے، جبکہ رحیم کا گودام تقریباً خالی تھا۔ اسے شدید مالی نقصان ہوا۔

رحیم کو اپنی کاہلی اور وقت ضائع کرنے پر بہت افسوس ہوا۔ اس نے سر پکڑ کر کہا، “میں نے اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیا۔ کاش! میں نے وقت پر بیج بو دیے ہوتے۔ آج مجھے سمجھ آیا کہ گزرا ہوا وقت واقعی واپس نہیں آتا۔” اس کے بعد رحیم نے وقت کی قدر کرنا سیکھی اور ہر کام وقت پر کرنے کا عہد کیا۔

حکایت   نمبر5: فنکار کا التوا

ایک خوبصورت شہر میں ایک باصلاحیت فنکار رہتا تھا جس کا نام عابد تھا۔ وہ مصوری کا بہت شوقین تھا اور اس کے بنائے ہوئے خاکے اور تصاویر بہت خوبصورت ہوتے تھے۔ اسے ایک بڑے مقابلے میں حصہ لینے کا موقع ملا جس میں بہترین فنکار کو ایک مشہور آرٹ گیلری میں اپنی نمائش کا موقع ملنا تھا۔

عابد کے پاس مقابلہ جیتنے کے لیے کافی وقت تھا، مگر وہ ہمیشہ اپنے کام کو ٹال دیتا تھا۔ وہ سوچتا، “ابھی تو بہت وقت ہے، آج نہیں تو کل بنا لوں گا۔” اس کے دوست اسے روز یاد دلاتے کہ مقابلے کی آخری تاریخ قریب آ رہی ہے، مگر وہ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ “فکر مت کرو، میں وقت پر اپنا شاہکار بنا لوں گا۔”

وقت گزرتا گیا اور آخری تاریخ بالکل سر پر آ گئی۔ عابد نے جلدی جلدی ایک تصویر بنائی، مگر وہ اس معیار کی نہیں تھی جو وہ عام طور پر بناتا تھا۔ اس کے پاس اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح دکھانے کا وقت نہیں تھا۔ جب مقابلے کے نتائج کا اعلان ہوا، تو عابد کی تصویر کو کوئی خاص مقام نہیں ملا، جبکہ اس کے ایک کم باصلاحیت دوست نے صرف اس لیے انعام جیت لیا کہ اس نے وقت پر اپنی بہترین تصویر بنائی تھی۔

عابد کو بہت مایوسی ہوئی اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے افسوس کے ساتھ کہا، “میں نے اپنی کاہلی کی وجہ سے ایک بہترین موقع گنوا دیا۔ کاش! میں نے وقت پر اپنا کام مکمل کر لیا ہوتا۔ گزرا ہوا وقت واقعی واپس نہیں آتا۔” اس واقعے کے بعد عابد نے کبھی بھی اپنے کام کو ٹالنے کی عادت نہیں رکھی اور وقت کی قدر کرنا سیکھا۔

وقت کی حقیقت اور اس کی اہمیت

یہ حکایتیں ہمیں ایک ہی بنیادی سبق سکھاتی ہیں: وقت کی قدر کرو، کیونکہ یہ ایک ایسی دولت ہے جو ایک بار خرچ ہو جائے تو دوبارہ نہیں ملتی۔ ہر گزرتا لمحہ ہمیں اپنی زندگی کے اختتام کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہم ہر دن، ہر گھنٹے، ہر منٹ اور ہر سیکنڈ کے ساتھ اپنے مقصد حیات سے قریب یا دور ہو رہے ہوتے ہیں۔

وقت کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا یک طرفہ بہاؤ ہے۔ یہ کبھی رکتا نہیں، کبھی پیچھے نہیں مڑتا۔ نہ ہم ماضی میں جا سکتے ہیں اور نہ ہی مستقبل کو حال میں لا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس صرف حال کا لمحہ ہے، اور اسی لمحے میں ہمیں اپنے فیصلے کرنے ہیں، اپنے کام کرنے ہیں، اور اپنی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔

وقت کا صحیح استعمال ہمیں کامیابی، خوشی اور اطمینان کی طرف لے جاتا ہے۔ جو لوگ وقت کے پابند ہوتے ہیں، وہ اپنے اہداف کو حاصل کرتے ہیں، اپنے تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں، اور ایک مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ وقت کو ضائع کرتے ہیں، وہ پچھتاووں، ناکامیوں اور حسرتوں کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔

وقت کو کیسے استعمال کریں؟

اہداف کا تعین: اپنی زندگی کے اہداف واضح کریں۔ جب آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو آپ اپنے وقت کو اس کے مطابق استعمال کر سکیں گے۔

وقت کا انتظام: اپنے روزمرہ کے کاموں کی فہرست بنائیں اور انہیں ترجیح دیں۔ کون سا کام زیادہ اہم ہے اور کون سا کم۔ اس طرح آپ اپنے وقت کو مؤثر طریقے سے استعمال کر سکیں گے۔

ٹال مٹول سے بچیں: “آج کا کام کل پر مت ٹالو” یہ ایک سنہری اصول ہے۔ جو کام آج ہو سکتا ہے، اسے آج ہی مکمل کریں۔

فضول کاموں سے پرہیز: سوشل میڈیا، غیر ضروری تفریح، اور بے مقصد گپ شپ میں وقت ضائع کرنے سے گریز کریں۔ یہ چیزیں وقت کو خاموشی سے نگل جاتی ہیں۔

سیکھنے میں سرمایہ کاری: اپنے وقت کو نئی چیزیں سیکھنے، اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے، اور اپنے علم میں اضافہ کرنے میں لگائیں۔ یہ آپ کے مستقبل کے لیے بہترین سرمایہ کاری ہے۔

صحت کا خیال: اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی وقت کا بہترین استعمال ہے۔ ایک صحت مند جسم اور دماغ ہی آپ کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

خود احتسابی: دن کے اختتام پر اپنے وقت کے استعمال کا جائزہ لیں۔ کیا آپ نے اپنا وقت مؤثر طریقے سے استعمال کیا؟ کہاں بہتری کی گنجائش ہے؟

نتیجہ

وقت ایک انمول امانت ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔ یہ ایک ایسی دولت ہے جسے ہم اپنی مرضی سے استعمال کر سکتے ہیں، مگر ایک بار جو لمحہ گزر گیا، وہ واپس نہیں آتا۔ ہمیں ہر لمحے کی قدر کرنی چاہیے، اسے بامقصد بنانا چاہیے، اور اسے اپنی کامیابی اور خوشی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

یاد رکھیں، کل کبھی نہیں آتا، اور آج جو ہے، وہ کل ماضی بن جائے گا۔ اس لیے، آج کے لمحے کو پکڑیں، اسے اپنی مٹھی میں رکھیں، اور اسے اپنی زندگی کا سب سے قیمتی حصہ سمجھیں۔ کیونکہ جب وقت گزر جاتا ہے، تو صرف پچھتاوے باقی رہ جاتے ہیں، اور پچھتاوے کبھی گزرا ہوا وقت واپس نہیں لا سکتے۔ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو بھرپور طریقے سے جئیں اور وقت کی قدر کریں، کیونکہ “گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا۔”

اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو وقت کا پابندبنا آمین


کیا ہم یہی مسلمان ہیں؟۔۔

سورة ياسين 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *