!ہاروت و ماروت کون تھے
اور ان کا زمینی دور میں بھیجے جانے کا پس منظر
ہاروت اور ماروت دو فرشتے تھے۔ یہ بات قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیت 102 سے واضح ہوتی ہے۔ فرشتے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، نور سے بنی مخلوق ہیں جو اللہ کے حکم کے پابند ہیں اور کبھی اس کی نافرمانی نہیں کرتے۔
زمین پر بھیجے جانے کا پس منظر
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بنی اسرائیل میں، خاص طور پر حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور یا اس کے بعد کے زمانوں میں، جادو کا فتنہ عروج پر تھا۔ لوگ جادو کو ایک طاقتور علم سمجھنے لگے تھے اور شیاطین اسے خوب فروغ دے رہے تھے۔ شیاطین انسانوں کو جادو سکھاتے تھے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو گمراہ کرتے، میاں بیوی کے درمیان جھگڑے ڈلواتے، اور معاشرے میں فساد پھیلاتے تھے۔ صورتحال اتنی بگڑ گئی تھی کہ لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کے معجزات اور علوم کو بھی بعض اوقات جادو ہی سمجھنے لگے تھے۔
اس وقت فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے بنی نوع انسان کے گناہوں اور فساد کے بارے میں عرض کیا، کہ یہ لوگ زمین پر فساد پھیلا رہے ہیں اور شرک و نافرمانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو یہ بتایا کہ انسانوں کو ایک خاص نوعیت کی آزادی اور اختیار دیا گیا ہے، اور وہ آزمائشوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں، ہاروت و ماروت کو بابل (قدیم عراق کا ایک شہر جو جادو اور علوم کا مرکز تھا) میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہیں دنیا میں کیوں بھیجا گیا اور جادو کیوں سکھایا؟ (آزمائش کا مقصد)
ہاروت و ماروت کو زمین پر بھیجنے اور جادو سکھانے کا بنیادی مقصد انسانوں کی آزمائش اور جادو کی حقیقت کو واضح کرنا تھا۔ یہ ایک حکمت عملی تھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لیے تھی۔
قرآن کا واضح حکم
سورۃ البقرہ کی آیت 102 میں یہ بات بہت صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے
“اور وہ دونوں (فرشتے) کسی کو اس وقت تک کچھ نہ سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو فقط ایک آزمائش ہیں، سو تو کفر نہ کر۔”
یہ جملہ اس پورے واقعے کی کید (کلید) ہے۔ اس سے درج ذیل مقاصد واضح ہوتے ہیں
جادو کی حقیقت کا افشاء: اس وقت جادو کو ایک مافوق الفطرت یا بہت پراسرار چیز سمجھا جاتا تھا۔ ہاروت و ماروت کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ جادو دراصل کچھ خاص الفاظ، منتروں، اعمال، اور شیطانی قوتوں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت تھی جو لوگوں کو جادو کے فریب سے بچانے کے لیے ضروری تھی۔ جب لوگ جادو کے طریقوں اور اس کے پیچھے کی کمزوریوں کو جان لیتے تو وہ اس کے برے اثرات سے بہتر طریقے سے بچ سکتے تھے۔
جادو کا شرعی حکم واضح کرنا: فرشتوں نے واضح طور پر خبردار کیا: “سو تو کفر نہ کر۔” اس کا مطلب یہ تھا کہ جادو کا علم حاصل کرنا یا اس پر عمل کرنا انسان کو کفر اور شرک کی طرف لے جا سکتا ہے۔ یہ لوگوں کو جادو کی سنگینی اور اس کے شرعی قباحت سے آگاہ کرنے کے لیے تھا، تاکہ وہ اس سے دور رہیں۔
انسانوں کی آزمائش: یہ دراصل اللہ کی طرف سے انسانوں کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔ لوگوں کو جادو کا علم دیا جا رہا تھا، لیکن ساتھ ہی انہیں خبردار بھی کیا جا رہا تھا کہ یہ کفر کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس آزمائش میں کامیاب وہ تھے جو اس علم کو صرف جادو سے بچنے کے لیے استعمال کرتے یا اس سے بالکل گریز کرتے، اور ناکام وہ ہوئے جنہوں نے اس علم کو حاصل کر کے فساد پھیلایا اور کفر کا ارتکاب کیا۔ یہ ایک طرح سے انسانوں کو اختیار دینے کے مترادف تھا کہ وہ خیر کا راستہ چنتے ہیں یا شر کا۔
جادو سکھانے کا طریقہ کار
جب کوئی شخص جادو سیکھنے آتا، تو فرشتے پہلے اسے شدت سے خبردار کرتے اور کہتے کہ ہم تو صرف ایک آزمائش ہیں، اسے سیکھ کر کفر نہ کر لینا۔ اگر اس کے باوجود وہ شخص بضد رہتا اور اصرار کرتا، تو فرشتے اسے وہ الفاظ، طریقے، یا طلسمات سکھاتے جو جادو میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ اس لیے تھا تاکہ لوگوں کو جادو کے فن کی حقیقت سمجھ آ جائے اور وہ اس کے نقصانات سے واقف ہو سکیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک ڈاکٹر کو بیماریوں کے بارے میں علم ہوتا ہے تاکہ وہ ان کا علاج کر سکے، نہ کہ خود بیماری پھیلانے کے لیے۔
(ان پر آزمائش کیوں آئی اور کیا انہوں نے گناہ کیا؟ (روایات اور صحیح موقف)
ہاروت و ماروت کے زمین پر آنے کے بعد ان پر آزمائش کے حوالے سے مختلف اسرائیلی روایات اور بعض تفاسیر میں ایسے قصے ملتے ہیں کہ فرشتوں نے انسانوں کے گناہوں کو دیکھ کر خود پر غصہ کیا اور اللہ نے انہیں انسانوں کی صورت میں زمین پر بھیجا۔ جب وہ زمین پر آئے تو انسانی خواہشات کا شکار ہو گئے اور بعض گناہوں (جیسے شراب پینا، زنا کرنا، اور قتل کرنا) کا ارتکاب کیا۔ اور پھر انہیں سزا کے طور پر بابل میں ایک کنویں میں الٹا لٹکا دیا گیا۔
تاہم، اس طرح کی روایات کی سندیں انتہائی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں، اور یہ قرآن و صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہیں۔
اسلام کا صحیح موقف
فرشتے معصوم ہیں: اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ فرشتے معصوم ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے اور گناہوں کا ارتکاب نہیں کرتے۔ قرآن مجید میں ہے: “وہ (فرشتے) اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے، اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔” (التحریم: 6)
قرآنی آیات سے کوئی گناہ ثابت نہیں: قرآن کی آیت 102 میں ہاروت و ماروت کے کسی گناہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ان کے جادو سکھانے کا ذکر ایک آزمائش کے طور پر کیا گیا ہے جہاں وہ ہمیشہ خبردار کرتے تھے کہ “سو تو کفر نہ کر۔” یہ واضح کرتا ہے کہ وہ خود گناہوں میں ملوث نہیں ہوئے۔
اسرائیلی روایات کا رد: مذکورہ بالا قصے اسرائیلیات (بنی اسرائیل سے منقول کہانیاں) کا حصہ ہیں جو اسلامی عقائد سے متصادم ہیں اور ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ممکن ہے کہ یہ قصے جادو کی برائی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے یا فرشتوں کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے گھڑے گئے ہوں۔
لہٰذا، صحیح اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ ہاروت و ماروت نے کوئی گناہ نہیں کیا، بلکہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق ایک خاص مشن پر تھے جس میں وہ لوگوں کو آزمائش میں ڈال رہے تھے اور جادو کی حقیقت واضح کر رہے تھے۔ ان پر کوئی گناہ کی آزمائش نہیں آئی، بلکہ ان کے ذریعے انسانوں پر آزمائش آئی۔
اللہ نے انہیں دنیا میں کیوں چھوڑ دیا اور اب وہ کہاں ہیں؟
اللہ نے انہیں دنیا میں چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ اپنا مقصد پورا کریں۔ ان کا مقصد تھا لوگوں کو جادو کے شر سے آگاہ کرنا اور انہیں کفر سے بچنے کی تنبیہ کرنا۔ جب یہ مقصد پورا ہو گیا تو ان کا مشن بھی ختم ہو گیا۔
موجودہ مقام کے بارے میں
قرآن و حدیث میں ہاروت و ماروت کے موجودہ مقام کے بارے میں کوئی صریح اور مستند معلومات نہیں ملتیں۔
قرآن نے صرف ان کے بابل میں ہونے کا ذکر کیا ہے، لیکن ان کے انجام یا موجودہ مقام کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی ہے۔
بعض تفاسیر میں جو روایات پائی جاتی ہیں کہ وہ بابل میں ایک کنویں میں الٹے لٹکے ہوئے ہیں یا انہیں سزا کے طور پر قید کر دیا گیا ہے، وہ سب کی سب اسرائیلیات اور ضعیف روایات پر مبنی ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
لہٰذا، ایک مسلمان کو صرف اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ ہاروت و ماروت اللہ کے فرشتے تھے، جو ایک خاص مقصد کے تحت بابل میں ظاہر ہوئے اور انسانوں کو جادو کے فتنے سے آگاہ کیا۔ ان کا مشن مکمل ہوا اور اب وہ کہاں ہیں، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ہمیں غیر مستند معلومات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔
ہاروت و ماروت کے واقعے سے حاصل ہونے والے اسباق (خلاصہ)
یہ قصہ ہمیں کئی اہم سبق سکھاتا ہے
جادو کفر اور شرک کی جڑ ہے: جادو انتہائی مذموم اور اسلام میں حرام ہے۔ اسے سیکھنا، سکھانا، یا اس پر عمل کرنا انسان کو ایمان سے خارج کر سکتا ہے، جیسا کہ فرشتوں کی تنبیہ “سو تو کفر نہ کر” سے واضح ہے۔
علم کی اہمیت اور اس کا صحیح استعمال: علم ایک نعمت ہے، لیکن اس کا غلط استعمال تباہ کن ہو سکتا ہے۔ جادو کا علم صرف اس کے شر کو سمجھنے کے لیے حاصل کیا جا سکتا ہے، نہ کہ اس پر عمل کرنے کے لیے۔
آزمائش اللہ کی سنت ہے: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتے ہیں تاکہ ان کا ایمان اور ان کا انتخاب واضح ہو سکے۔
شیطانی وسوسوں سے بچنا: شیاطین انسان کو ہر طرح سے گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور جادو ان کے بڑے ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے۔ ہمیں ہر قسم کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔
غیر مستند روایات سے اجتناب: دین کے معاملات میں صرف قرآن و صحیح حدیث پر بھروسہ کرنا چاہیے اور ایسی روایات سے گریز کرنا چاہیے جو اسلامی عقائد کے خلاف ہوں یا جن کی سندیں مشکوک ہوں۔
یہ واقعہ مسلمانوں کو جادو کے فتنے سے بچنے اور صرف اللہ پر توکل کرنے کا درس دیتا ہے۔