ہماری حقیقت
انسان کی فطرت میں خود غرضی اور ناشکری کا عنصر شاید کچھ زیادہ ہی پایاجاتا ہے
اس لیے اللہ تعالی نے بارہا انسانوں کو صبر کے ساتھ شکر ادا کرنے کی تلقین کی ہے لیکن فطرت اور عادت سے مجبور انسان ہمیشہ ناشکری کرتا رہتا ہے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والے انسان سے مخلوق کی شکر گزاری کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ جائزہ لیں تو بے شمار مثالیں ہمارے سامنے آتی ہے جہاں انسان اپنی غرض پوری ہونے کے بعد نہ صرف ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ اپنی ساری ناکامیوں برائیوں اور خرابیوں کا ٹھیکرا دو سروں کے سر پھوڑتا ہے۔ جانوروں سے پورا فائدہ اٹھانے کے باوجود ہمیشہ ان کی برائی کرنا حضرت انسان کی پرانی عادت ہے ،کہتے ہیں دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا،پھر برائی کی بات یا مثال دینی ہو تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہونے کی مثال دی جاتی ہے ،اسی طرح وفاداری کے لیے دنیا بھر میں مشہور عالمی شہرت یافتہ کتا بھی اپنی تمام تر خوبیوں اور خصوصیات کے ساتھ انسان کی پوری ایمانداری ذمہ داری اور وفاداری کے ساتھ خدمت کرتا ہے ‘لیکن جب کوئی بری مثال دینی ہوتی ہے تو بیچارے کتے کو ہی پیش کیا جاتا ہے خواہ کتے کی دم تیڑھی ہونے کی مثال ہو یا سڑک پر کتے کی موت مرنے کی بات ہو ،غرض کے وفادار کتے کو ہی بدنام کیا جاتا ہے ،کوئی خاتون خاص طور پر اگر وہ بہو ہو اور ساس سسر اور شوہر کی جی جان سے خدمت کرے اور کبھی کسی کو کوئی جواب نہ دے تو اس بیچاری کی ان تمام خوبیوں کی تعریف بھی منفی انداز میں یہ کہہ کر کی جاتی ہے کہ وہ اللہ میاں کی گائے ہے،اگر اس نے کوئی بدمعاشی یا ہوشیاری کی تو وہ لومڑی ہو جاتی ہے، کچھ اچھا کر دے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی،غرض کے انسان مطلبی ہوتا ہے اور غرض پوری ہونے پر کسی کو نہیں پوچھتا اور نہ کسی کو بخشتا ہے ،اس کی یہ بھی عادت شریفہ رہی ہے کہ مفت میں جو بھی مل جائے وہ ٹوٹ کر کھا جاتا ہے اگر طبیعت بگڑ جائے تو کھانے میں نقص نکالنے لگے ،انسان سے یہ شکوہ تو سب ہی کرتے ہیں لیکن آج کل مرغ کی دل سے انسان کے لیے جو اہ نکل رہی ہے وہ پتہ نہیں کیا رنگ لائے گی،یہ مر غ ہی ہے جس نے ہر وقت ہر دستر اور ہر دعوت میں انسان کو ہمیشہ خیال کیا ؛یہاں تک کہ بیشتر موقع پر عزت تک بچائی ہے،مرغ آ پ کو بھی مختلف ڈشس کے ساتھ نسلوں سے انسان کی خدمت کرتے آرہا ہے ۔لیکن جب کوئی مصیبت آن پڑی ہے تو انسان سارا غصہ مرغ پر ہی اتار تا ہے ،چھلا ہوا مرغ مسلم مل جائے تو سارا کا سارا چٹ کر جائے ؛اور کسی کو گنجا دیکھے تو چھلا ہوا مرخ کہہ کر اس کا مذاق اڑا یا جاتا ہے ،یہاں تک کہ اسکولوں میں شریر بچوں کو سزا دینے کے لیے بھی مرغا ہی بنایا جاتا ہے پوری آ ب وہ تاب کے ساتھ سو روپے اور اس سے زیادہ قیمت پر فروخت ہونے والا یہ آج انتہائی کم قیمت یعنی 20۔30 روپیے یا اس سے بھی کم قیمت پر فروخت ہو رہا ہے بلکہ پولٹری فارمس والے تو چکن میلا لگا کر پکا کر مفت میں کھلا رہے ہیں ،’اللہ اکبر” ہمیں ڈر ہے کہ مرغ انسان کی اس ناشکری خود غرضی ہر غیر انسانی سلوک کا ہمیشہ شکوہ کرتا رہے گا ،یہ وہی مرغ یعنی چکن ہے جس کی ایک ایک ڈش کا نام لے کر انسان محفلوں میں فخر محسوس کرتا ہے اور دوسروں کو ان کے کھانے کی ترغیب دیتا ہے یہ وہی مرغ ہے جو ہرموقع پر امیر اور غریب سب کے کام آتا اور مذہب سماج میں سب ہی کی اکثر عزت بھی بچاتا ہے،چکن سے تیار ہونے والے کھانوں اور ڈشس کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اگر ہم ان کو گننے لگیں تو صفحات بھر جائیں اور پڑھنے والوں کے منہ سے مسلسل رال ٹپکتی رہے گی، لیکن اس موقع پر کچھ نام گنوانا تو ہم پر شاید واجب ہو جاتا ہے ،جیسے چکن بریانی، چکن نہاری ،چکن حلیم ،چکن حریص، چکن مصالحہ ،چکن چلی ،چکن مولائی ،چکن افغانی ،ہرا چکن ،لال چکن، اچاری چکن ،چکن 65 ،وغیرہ وغیرہ، چکن کی اتنی اقسام تیار کی جاتی ہے کہ اب صرف چکن کا میٹھا بنانا باقی رہ گیا ہے، اتنی اقسام کی ڈشس نہ تو بڑے کے پاس ملے گی نہ ہی چھوٹا کبھی ان کی تکمیل کر سکے گا اور نہ ہی منجلے سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے، چکن کے آگے یہ سب پھیکے پڑ جاتے ہیں، چکن نہ ہو تو دعوت کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے غیر فطری طرز زندگی اور خراب عادات وہ اطوار کی وجہ سے انسان جب بھی کسی وبائی مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کی انگلی چکن کے طرف ہی اٹھتی ہے۔ یہاں تک کہ چکن کو بدنام کرنے کے لیے بیماری کا نام بھی چکن گنیا رکھ دیا گیا ہے،پھر چکن نے کبھی اف تک نہیں کی ،زمانے قدیم میں راجہ مہاراجاؤں کے دور میں مرغوں کی بھی اعلی نسلیں اور ان کے بھی ٹھاٹ باٹ اور شان و شوکت ہوتی تھی،ان کی کلغی طرہ امتیاز ہوتی ،اور شاید اسی کو دیکھ کر بادشاہوں کے سر کے لیے تاج بنانے کا خیال آیا ہوگا،زر زمین اور زن کیلئے نہ سہی لیکن اپنے شوق و ذوق کی تسکین کے لیے مرغوں کی لڑائی شاہوں کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا تھا ۔لیکن اب مرغ کی شاہی نسلیں ختم ہو گئی ،اور دور جدید نے مرغون کی نسلوں کو عصری مشینوں میں ایسے گھما دیا کہ ان کی شناخت مشکل ہو گئی ،یعنی نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز والا معاملہ ہو گیا۔سب ایک ہی رنگ میں آگئے ،نہ تو ماں باپ کا پتہ اور نہ خاندان کی پہچان اور نہ ہی حسب نسب کا کس کو علم ہے۔۔۔
کیا سبق حاصل ہو؟ا کمنٹ کریں