ہم ایک ہوں تو کچھ بھی ممکن ہے

ایک دفعہ کی بات ہے، ایک بستی میں لوگ بڑی نفرتوں، بغض، حسد اور اختلافات میں گرفتار تھے۔ کوئی کسی کی بات نہ سنتا تھا، اور نہ کسی کی مدد کرتا تھا۔ ہر شخص اپنی دنیا میں مگن، دوسروں سے الگ رہا کرتا، اور خود کو حق پر سمجھنے والا تھا، نہ بازاروں میں برکت تھی، نہ گھروں میں سکون، نہ دلوں میں اطمینان۔
اسی بستی کے کنارے ایک بزرگ درویش رہا کرتے تھے، جنہیں سب لوگ “بابا حکمت” کے نام سے جانتے تھے۔ وہ دنیا سے الگ عبادت گزار تھے مگر بستی کی حالات سے غافل نہ تھے۔
ایک دن انہوں نے اعلان کرایا کہ بستی کے سب لوگ اگلے جمعہ کو درختوں والے میدان میں جمع ہوں، ایک ضروری پیغام دینا ہے۔
جب جمعہ کا دن آیا، سب لوگ میدان میں جمع ہو گئے۔ بابا حکمت خاموشی سے آئے، ہاتھ میں ایک تھیلی تھی۔ انہوں نے تھیلی کو کھولا اور زمین پر بہت سارے قیمتی، چمکتے موتی بکھیر دیے۔
لوگ حیران ہو گئے۔
بابا حکمت نے کہا:
“یہ سب موتی بہت زیادہ قیمتی ہیں۔ مگر جب یہ بکھرے پڑے ہیں، تو نہ کسی کے گلے کی زینت بن سکتے ہیں، نہ کسی کی دولت کا حصہ، نہ کسی کام آ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم انہیں ایک دھاگے میں پرو دیں تو یہ ایک قیمتی ہار بن جائیں گا۔”
سب لوگ متوجہ ہو گئے۔
بابا حکمت نے اپنی بات جاری مکمل کی۔
“اے لوگو! یہ موتی تم ہو۔ تم میں علم ہے، دولت ہے، طاقت ہے، عقل ہے، ہنر ہے — مگر تم بکھرے ہوئے ہو۔ تمہاری حالت ان موتیوں جیسی ہے جو زمین پر بکھرے پڑے ہوں، ایک دوسرے سے الگ، غیر مربوط، بے کار۔”
قرآن کی روشنی میں اتحاد کی اہمیت
بابا حکمت نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی:
“وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”
(سورہ آل عمران: 103)
“اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو۔”
بابا حکمت نے کہا:
“یہ اللہ کا حکم ہے کہ ہم سب ایک ساتھ، ایک امت بن کر زندگی گزارے، تفرقے نہ کریں۔ کیا ہم قرآن کے اس حکم کو پسِ پشت ڈال سکتے ہیں؟”
حدیث کی روشنی میں بھائی چارہ
بابا حکمت نے رسول اکرم ﷺ کی حدیث بھی سنائی:
“المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً”
(صحیح بخاری)
“مومن، مومن کے لیے ایک عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔”
“اگر ہم ایک دیوار کے اینٹوں کی طرح ایک دوسرے کو سہارا دیں، تبھی ہم مضبوط ہوں گے۔ اگر ایک اینٹ نکال دی جائے، تو دیوار کمزور ہو جاتی ہے۔”
بستی کی آزمائش
بابا حکمت نے پھر سب سے کہا: “میں تمہیں ایک آزمائش دیتا ہوں۔ تم سب کو ایک ہفتے میں مل کر ایک کام کرنا ہے: بستی کے درمیان جو پرانا کنواں خشک ہو چکا ہے، اس کی مرمت کر کے دوبارہ پانی نکالنا ہے۔”
کچھ لوگ بولے، “ہم ایک دوسرے سے ناراض ہیں، یہ کام کیسے ہو گا؟”
بابا حکمت مسکرا کر بولے: “ناراضیوں کو دفن کر دو۔ ورنہ یہ بستی مر جائے گی۔”
عمل کا آغاز
اگلے دن کچھ نوجوانوں نے کام کا آغاز کیا۔ پھر کچھ بزرگ بھی شامل ہو گئے۔ پھر دکانداروں نے مزدوروں کو بلایا۔ کسانوں نے بیلچے دیے، لوہاروں نے اوزار دیے، عورتوں نے پانی اور کھانے کا انتظام کیا۔
ایک ہفتے میں کنواں نہ صرف صاف ہو گیا بلکہ اُس میں پانی بھی آ گیا۔ برسوں بعد، بستی میں خوشی کی لہر دوڑی۔
بابا حکمت آئے، اور ایک گھڑا بھر کر سب کے سامنے رکھا۔
“یہ صرف پانی نہیں ہے، یہ تمہارے اتحاد کا پھل ہے۔”
دین کی تعلیمات اجتماعیت پر
بابا حکمت نے کہا
“اسلام ایک انفرادی مذہب نہیں، ایک اجتماعی نظام ہے۔ نماز تو تم اکیلے بھی پڑھ سکتے ہو، مگر جمعہ، عید، جماعت — یہ سب اجتماعی عبادات ہیں۔ روزہ تم اکیلے رکھتے ہو، مگر افطار، سحر، زکوٰۃ، حج — یہ سب اجتماعیت کی علامتیں ہیں۔”
انہوں نے حج کی مثال دی:
“لاکھوں لوگ ایک ہی لباس، ایک ہی زبان، ایک ہی وقت، ایک ہی نعرہ — لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ — یہ کیا ہے؟ اتحاد! اجتماعیت!”
فرقت کا انجام
بابا حکمت نے قرآن کی ایک اور آیت پڑھی:
“وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ”
(سورہ انفال: 46)
“اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا نکل جائے گی۔”
“آج ہماری قوم کی حالت ایسی ہی ہے۔ ہم فرقوں میں بٹے ہیں، قوموں میں بٹے ہیں، جماعتوں میں بٹے ہیں — اور اس تفرقے کی وجہ سے ہماری طاقت چلی گئی ہے، ہماری آواز بے اثر ہو گئی ہے۔”
حسد، بغض اور فرقہ واریت کا علاج
بابا حکمت نے فرمایا:
“جب تک دلوں میں حسد، بغض، تکبر اور انا ہے، ہم ایک نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”
“إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ”
(سورہ الحجرات: 10)
“مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔”
“کیا تم اپنے بھائی کو نظرانداز کرتے ہو؟ کیا تم بھائی سے حسد کرتے ہو؟ نہیں! اگر واقعی ایمان ہے تو دل سے یہ بیماریاں نکالو۔”
انجام: بکھرے موتی جُڑ گئے
کچھ ہی مہینوں میں بستی کی حالت بدل گئی۔ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھنے لگے، کام مل کر کرنے لگے۔ تجارت میں برکت آ گئی، کھیتیاں ہری بھر ہو گئیں، چہروں پر خوشی واپس آ گئی۔
بابا حکمت نے ایک دن سب کو پھر میدان میں جمع کیا، اور وہی پرانے موتی سب کو دکھائے۔
“تم نے خود کو جوڑ لیا، اب یہ موتی میں ایک ہار میں پرو رہا ہوں۔ یہ ہار بستی کا مرکز میں لٹکایا جائے گا تاکہ ہر آنے والا یاد رکھے کہ جب ہم مل کر کام کرتے ہیں، تبھی اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔“
نتیجہ و نصیحت
“کیا ہم مل کر کام نہیں کر سکتے؟” یہ سوال نہیں، ایک دعوت ہے۔ یہ ایک پکار ہے کہ ہم اپنی نفرتیں، فرقے، حسد، ضد، انا کو چھوڑ کر ایک قوم بن جائیں۔
قرآن و حدیث نے ہمیں بار بار اتحاد کا درس دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“ید اللہ مع الجماعة”
(ترمذی)
“اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے”۔
اگر ہم اللہ کی مدد چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے آپ کو ایک “جماعت” بنانا ہو گا، ورنہ ہم بکھرے موتیوں کی طرح زمین پر پڑے رہیں گے — خوبصورت، مگر بے فائدہ۔
=================
================