ہم غریب بچوں کے بارے میں بھی خدارا سوچیے

ہم غریب بچوں کے بارے میں بھی خدارا سوچیے ہم غریب بچوں کے بارے میں بھی خدارا سوچیے

ہم غریب بچوں کے بارے میں بھی خدارا سوچیے

تمہید

کہتے ہیں کہ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ لیکن یہ جملہ اُس وقت ایک تلخ مذاق بن کر رہ جاتا ہے جب ایک غریب بچہ اسکول جانے کے خواب میں جوتوں کی قیمت دیکھ کر شرمندہ ہو جائے، جب ایک ماں بیٹے کے بستے کی جگہ پلاسٹک کی تھیلی تھما دے، جب کتابوں کے اوراق بینا آنکھوں سے محروم رہ جائیں، اور جب ایک باپ اپنی سفید پوشی کے بوجھ تلے بیٹے کا تعلیمی خواب دفن کر دے۔

یہ وہ زخم ہیں جنہیں معاشرہ اکثر دیکھنے سے انکار کر دیتا ہے۔

عاطف کی کہانی – ہر غریب گھر کا بچہ

عاطف ساتویں جماعت کا طالب علم ہے۔ ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں رہتا ہے۔ والد ایک مزدور ہیں، روزانہ صبح چھ بجے گھر سے نکلتے ہیں اور رات گئے تھکے ہارے واپس آتے ہیں۔ ماں گھریلو کاموں کے ساتھ ساتھ ایک محلے دار کے گھر صفائی بھی کرتی ہیں تاکہ تھوڑا بہت خرچ پورا ہو سکے۔

عید کی چھٹیوں کے بعد اسکول کھلنے کو تھے۔ پورا محلہ خریداری میں مصروف تھا۔ بازاروں میں رنگ برنگے یونیفارم، جوتے، بیگز، اور کتابیں بچوں کی مسکراہٹوں کے ساتھ بک رہی تھیں۔ ایسے میں عاطف اپنے پرانے جوتے چپ چاپ رگڑ رہا تھا۔

“امی! ابو نے کہا تھا اسکول کھلنے سے پہلے جوتے لے دیں گے، نا؟”

ماں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ کچھ دیر خاموش رہیں، پھر بولیں:

“بیٹا! ابو نے بہت کوشش کی، لیکن تنخواہ سے کرایہ اور راشن نکال کر کچھ نہیں بچا۔ ان شاء اللہ اگلے مہینے لے دیں گے۔”

عاطف کی آنکھوں میں خواب ٹوٹتے دکھائی دیے۔ اس نے کچھ نہ کہا، بس چپ چاپ چلا گیا۔

طبقاتی تضاد – ایک کڑوا سچ

دوسری طرف ایک اور منظر تھا — وہی اسکول، وہی جماعت، لیکن منظر بدل چکا تھا۔ ارحم، جو ایک کاروباری باپ کا بیٹا ہے، مہنگے ترین جوتے پہن کر اسکول آ رہا تھا، اس کے پاس جدید ترین بیگ، iPad، اور اپنی پرائیویٹ گاڑی تھی۔

اس نے عاطف کو دیکھا اور کہنے لگا

“یار! تم نے ابھی تک وہی پرانے جوتے پہنے ہوئے ہیں؟ میرے ابو نے Adidas کے جوتے دلائے ہیں، بہت مزے کے ہیں!”

عاطف کچھ نہ بولا، بس ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجا لی، لیکن دل میں ایک سوال جنم لے چکا تھا:

“کیا تعلیم واقعی سب کے لیے ہے؟”

تعلیم – حق یا سہولت؟

ہم کہتے ہیں کہ تعلیم ہر بچے کا حق ہے، لیکن کیا واقعی ہم نے اس حق کو سب کے لیے قابلِ حصول بنایا؟ آج کے دور میں تعلیم کا مطلب رہ گیا ہے:

اسکول فیس

برانڈڈ یونیفارم

رجسٹریشن چارجز

ٹرانسپورٹ فیس

سالانہ فیس

اسٹیشنری، بیگ، جوتے، کتابیں

یہ سب اخراجات ایک متوسط طبقے کے لیے بھی بوجھ بن چکے ہیں، غریب طبقہ تو صرف سانس لے رہا ہے۔

سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، جبکہ نجی اسکولوں نے تعلیم کو ایک کاروبار بنا دیا ہے۔ اب داخلہ قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ جیب کی گہرائی پر ہوتا ہے۔

ہم غریب بچوں کے بارے میں بھی خدارا سوچیے
ہم غریب بچوں کے بارے میں بھی خدارا سوچیے

اسلامی تعلیمات – ایک روشنی کا چراغ

اسلام نے تعلیم کو انسان کی بنیادی ضرورت قرار دیا ہے۔ قرآن میں سب سے پہلا حکم ہی “اقْرَأْ” (پڑھ) سے شروع ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔”

(ابن ماجہ)

لیکن صرف تعلیم ہی نہیں، اسلام ہمیں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے، ضرورت مندوں کی مدد کرنے اور مساوات کو قائم رکھنے کا حکم دیتا ہے۔

ایک اور حدیث ہے

“مومن وہی ہے جو اپنے لیے جو پسند کرتا ہے، وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔”

(صحیح بخاری)

اس سے بڑھ کر انسانیت کا کوئی اصول نہیں ہو سکتا۔

زمینی حقائق – تبدیلی کی ضرورت

آج تعلیم کا شعبہ غیر متوازن ہو چکا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی، فرنیچر کی خستہ حالی، بنیادی سہولیات کا فقدان اور تعلیم کی غیر معیاری صورتحال نے عوام کو نجی اداروں کی طرف دھکیل دیا ہے۔

نجی اسکولوں نے اس خلا کو نہ صرف پُر کیا، بلکہ اسے ایک تجارتی موقع میں بدل دیا۔ آج والدین کو ایک بچے کی تعلیم کے لیے سالانہ ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، اور یہی چیز غریب کو اس حق سے محروم کر دیتی ہے۔

کیا ہم کچھ کر سکتے ہیں؟ – ہاں، یقیناً!

ہم میں سے ہر فرد کچھ نہ کچھ کر سکتا ہے۔ اگر آپ صاحبِ حیثیت ہیں، تو سال میں ایک مرتبہ اپنے اردگرد کے کسی بچے کے لیے:

اسکول بیگ خرید دیں

کاپیاں، پینسلیں یا کتابیں لے دیں

یونیفارم یا جوتے خرید دیں

یس کا کچھ حصہ ادا کر دیں

یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ اس شخص کی مدد میں ہوتا ہے جو کسی دوسرے کی مدد کرتا ہے۔

(ترمذی)

چھوٹا قدم، بڑی تبدیلی

تصور کریں اگر ہر گلی، ہر محلہ، ہر مسجد، ہر ادارہ صرف اپنے علاقے کے تین سے پانچ بچوں کو گود لے، تو کتنے لاکھ بچوں کا تعلیمی مستقبل روشن ہو جائے گا؟

مدارس، مساجد، رفاہی ادارے، اور نجی این جی اوز کو چاہیے کہ وہ تعلیمی وظائف (Scholarships) کا دائرہ غریب طلبہ کے لیے بڑھائیں۔ محلے میں ایک تعلیمی کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے جو قابل اور مستحق بچوں کا ڈیٹا جمع کرے اور مقامی عطیہ دہندگان کے تعاون سے ان کی کفالت کرے۔

خاتمہ – دل سے دل کی بات

عاطف جیسے لاکھوں بچے صرف ہمارے رحم و کرم کے منتظر نہیں، بلکہ وہ ہمارے شعور، ہمارے دل، اور ہمارے عملی قدم کے محتاج ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کے لیے اچھا سوچتے ہیں، تو دوسروں کے بچوں کے لیے بھی سوچنا ہمارا اخلاقی، معاشرتی اور دینی فریضہ ہے۔

تعلیم کو صرف اپنی اولاد کے لیے نہ سوچیں، بلکہ ہر بچے کے لیے سوچیں — کیونکہ تعلیم کا مطلب صرف پڑھانا نہیں، بلکہ کسی کا ہاتھ تھام کر اسے جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہے۔

خدارا! ہم غریب بچوں کے بارے میں بھی سوچیے۔ یہی انسانیت ہے، یہی عبادت ہے، اور یہی اسلام ہے۔


تین آدمیوں،انسان اور ہرن کی کہانی

سورة النحل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *