یہ ہے حضرت بلال ؓ   کی مختصر زندگی    

یہ ہے حضرت بلال ؓ کی مختصر زندگی یہ ہے حضرت بلال ؓ کی مختصر زندگی

یہ ہے حضرت بلال ؓ کی مختصر زندگی

یہ ہے حضرت بلال ؓ کی مختصر زندگی

 ایک مرتبہ نبی ﷺحرم شریف کے کونے میں بیٹھ کے  رو رہے ہیں۔۔ جناب صدیؓق اکبر نے کہا حضورﷺ کیا ہوا ؟فرمایا ابوبکر سوچ رہا ہوں خدا اگر مجھے پیسے دے تو میں بلال کو خرید لوں اگر رب پیسے دے تو خرید لوں سوچ رہا ہوں۔ جناب ابوبکؓر صدیق گھر گئے گھر جا کے حضرت عباؓس کو بھیجا کہا ۔امیہ میرا مخالف ہے مجھ سے وہ بات نہیں کرے گا ۔آپ جائیے آپ جا کے کہیے بلال کو بیچ ڈالے حضرت عباسؓ نے جا کے کہا بلال کو بیچ دو ۔کہنے لگا میری قیمت بہت زیادہ ہے 50 دینار کا میں نے خریدا ہے اور میں منافع لے کے بیچوں گا ۔حضرت عباسؓ نے آکے جناب صدیق اکبرؓ کو بتایا ۔تو ابوبکر صدیقؓ فرمانے لگے چلو۔ ابوبکؓر صدیق کو آتے دیکھا   تو چڑھ گیا ۔کہنے لگا ،،ابوبکؓر اگر تو بلالؓ کو خریدنا چاہے ۔تو وہ جو تیرے پاس رومی   غلام ہے وہ مجھے دینا پڑے گا دو لونڈیاں اس کے ساتھ دینی پڑے گی اور یہ 50 دینار کا ہے میں تجھ سے دو ہزار دینار لوں گا  ۔۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا مجھے منظور ہے مجھے منظور ہے  ابوبکر صدیؓق نے وہ تینوں غیر مسلم غلام لیے دو ہزار دینار لیے حضرت عباؓس نے ابھی کلمہ نہیں پڑھا تھا کہنے لگے ،ابوبکؓر تو کامیاب تاجر ہے کیا کرنے لگے ہو؟ تو حضرت ابوبکؓر صدیق کہنے لگے ۔آپ نے ابھی کلمہ نہیں پڑھا آپ کو اس   سودے کا پتہ نہیں آپ ابھی اس لذت آشنائی سے واقف نہیں آپ نے ابھی یہ ذائقہ چکھا نہیں آپ ابھی اس راہ سے گزرے نہیں آپ کو پتہ نہیں یہ بھی ایک ذائقہ ہے یہ بھی ایک سودا ہے یہ بھی ایک لذت ہے یہ بھی ایک گہرائی ہے یہ بھی ایک مزہ ہے ۔۔اس کا   آپ کو علم نہیں آپ نے کلمہ نہیں   پڑھا۔۔۔

محبت کو سمجھنا ہے تو ناسخ خود محبت کر کنارے سے کبھی اندازہ طوفان نہیں ہوتا فرمایا ابھی تو راہ گزر میں ہے کہہ دے مقام سے گزر

ابھی ذرا آگے چلیں گے نا ۔جب آپ کلمہ پڑھیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا، حضرت سیدنا بلالؓ حبشی  کو لینے کے لیے صدیق اکبر ؓپہنچے دو ہزار دینار تین غلام پڑھے لکھے سیانے    سمجھدار   جب دیے    تو ۔۔امیہ کھلکھلا کے کہنے لگا ابوبکرؓ بڑے گھاٹے کا سودا کیا   ۔یہ پڑھا لکھا مجھے دیکھ کے جا رہا ہے اور یہ ان پڑھ تو لے کے جا رہا ہے، یہ خوبصورت رومی غلام دے کے جا رہا ہے ۔اور یہ حبشی کالے رنگ کا تو لے کے جا رہا ہے اور 50 دینار کا غلام 2000دینار میں تو لے کے جا رہا ہے  اتنے گھاٹے کا سودا اتنی بڑی نادانی ۔۔جناب سیدنا صدیق اکبر ؓکہنے لگے۔ امیہ تو کافر ہے لیکن تو نے ابھی بھی پیسے تھوڑے مانگے ہیں۔ تو نے بلال کا رنگ دیکھا ہے میں نے مصطفی ﷺکے عشق کا رنگ دیکھا ہے ۔فرمایا تو ابھی اس کے رنگ میں الجھا ہوا ہے۔اور میں جو اس کے باطن کا حسن ہے وہاں تک پہنچ گیا۔ حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ ساتھ کھڑے ہوئے تھے،ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا اگر میں یمن کا حکمران ہوتا یمن کا بادشاہ ہوتا اور تو مجھے کہتا کہ بلالؓ میں تب دوں گا جب تو مجھے یمن کی حکمرانی دے گا۔ فرمایا میں تجھے یمن کی حکمرانی بھی دے دیتا لیکن بلالؓ کو ضرور خرید کے لے جاتا   ۔حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں۔ جب میں بلال کو لینے گیا تو حال پتہ کیا تھا  ؟  فرماتے ہیں کہ ٹانگیں اوپر کر کے   جس طرح آدمی رکوع میں بیٹھتا ہے اس طرح کر کے نا ٹانگیں اور سر پھر زمین کو لگا کے جس طرح سجدے میں  ہم جاتے ہیں لیکن بالکل ٹانگوں کے ساتھ  سر  رکھ کے فرماتے ہیں چار بھاری چکیاں ریت پہ حضرت بلالؓ   ان کے اوپر چکیاں رکھی ہوئی تھی ۔اور فرماتے ہیں ۔حضرت بلال ؓتھوڑی تھوڑی حرکت کرتے تھے تو وہ چکیاں جسم کے ساتھ لگتی تھی خون نکلتا تھا فرماتے ہیں میں نے وہاں سے جا کے حضرت بلال کو نکالا پیسے دیے ۔۔لے کے آیا تو جناب بلال کہنے لگے؟ جلدی جلدی چلو حضور کے پاس ذرا جلدی جلدی چلو۔۔ مصطفیﷺ کے پاس جلدی کرو ۔تو جناب سیدہ بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق کہنے لگے ۔بلالؓ جلدی نہ کر جب میں آیا تھا۔ تو حضور ؤتیرے لیے انسو بہا رہے تھے اگر تجھے اس حالت میں زخمی دیکھیں گے تو میرے مصطفی ﷺ کو اور زیادہ رونا پڑے گا۔ تو میرے ساتھ گھر  چل میں تجھے کپڑے پہناتا ہوں میں تیرے زخم پہ پٹی کرتا ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ مزاج شناسہ نبوت تھے  ۔ فرمایا چل میرے ساتھ منہ دھو ڈال لوں میں ذرا تجھے کنگی  کر لوں تو میرے ساتھ چل۔ جناب بلال ؓفرماتے ہیں ،،جب سے پیدا ہوا تب سے غلام تھا کبھی کسی نے میرے کپڑوں کی فکر  کی ہی  نہیں تھی۔ مجھے تو امیہ چار چار دن روٹی نہیں دیتا تھا ۔فرماتے ہیں جب میں گیا ابوبکرؓ کے ساتھ ۔ابوبکر صدیق ؓنے ایک چٹائی بچھائی صدیق اکبر چٹائی کے اوپر میرے ساتھ بیٹھ گئے ۔فرماتے ہیں ابوبکرؓ نے تیل لگایا وہ تیل میرے زخموں پہ ابوبکر صدیقؓ نے وہ تیل میرے سر پہ میری داڑھی پہ فرماتے ہیں پھر کنگا کیا پھر ابوبکر صدیقؓ نے ایک جوڑا منگایا وہ کپڑے مجھے پہنائے ابوبکر صدیقؓ نے پکڑی منگوائی وہ  پکڑی  کھول کے میرے سر پہ بندوائی فرماتے ہیں ابوبکر نے مجھے تیار کیا۔ فرمایا تو آج جا رہا ہے در رسالت ماب پہ  آج تو پہنچ رہا ہے حضور کے دروازے پہ ۔۔۔

بن کے جوگن مدینے نوجواں گی میں جو جو بیتی نبی نو سناواں گی میں ۔۔

 کسی شاعر نے تو بڑی شاندار بات کی اس نے کہا بڑی امید ہے سرکار قدموں میں بلائیں گے کرم کی جب نظر ہوگی مدینے ہم بھی جائیں گے اگر جانا مدینے میں ہوا ہم غم کے ماروں کا مکین گنبد خضرا کو حال دل سنائیں گے ۔۔

ان کے دل میں بڑی   امنگ تھی  آج جاؤں گا در رسالت ماب ۔مولانا رومیؒ  لکھتے ہیں ۔کہ جناب سیدنا صدیق اکبر ؓنے سجایا سوار ۔جناب بلالؓ کے آنسو رکتے ہی نہیں ۔۔کہا  باپ ہوتا ہے جو خدمتیں کرتا ہے میں نے انکھ کھولی تو میں نے  باپ کاسایہ    دیکھا    ہی نہیں۔ اور فرمایا ماں تھی  ،، ماں جب بھی میں کام کر کے آتا تھا ۔تو مجھے دیکھ کے میری اماں بس رو دیا کرتی تھی، دو تین بہنیں تھیں ۔اور حضرت بلالؓ فرمانے لگے میں دیکھتا تھا تو میرا حال دیکھ کے روتی تھی اور جب وہ مجھے دیکھتی تھی تو میں رو دیا کرتا تھا۔ فرمایا ابوبکر ؓمیں نے تو یہ رنگ ڈھنگ دیکھے نہیں ۔جو آج تو مجھے دکھا رہا ہے ۔جناب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ بنا سوار کے نا ۔حضرت بلالؓ کا ہاتھ پکڑ کے سینے پہ رکھا توہچکی لے کے روئے ۔حضرت ابوبکر صدیق ؓنے فرمایا ۔  جب نبی کی آنکھوں میں آنسو دیکھتا ہوں تو دیکھے نہیں جاتے ۔فرمایا یہاں رو لے حضورﷺ کے دروازے پہ جا کے تیری انکھ میں آنسو نہیں آنا چاہیے بہا جتنے آنسو بہا سکتا ہے۔ حضرت بلالؓ حبشی بھی روئے ۔جناب صدیق ؓبھی روئے جب پہنچے نا دروازہ رسولﷺ پہ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ لے کے پہنچے پابند کر دیا تھا حضرت بلال کو بلال تو نے رونا نہیں ۔حضور ﷺحضرت بلالؓ  پر  ایک نظر ڈالی جناب بلال ؓنے  سر جھکا لیا ۔وعدہ کیا تھا نا رونا نہیں ۔ اب   دوسری نظر نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جب اٹھائی نا حضرت ابوبکر صدیق کی طرف ۔تو حضور ﷺنے فرمایا ،صدیقؓ تیرا شکر ابوبکر اللہ تجھے جزا دے ۔جب رسول پاک کی زبان سے یہ  لفظ  نکلے تو جناب صدیق اکبر ؓنے ہاتھ اٹھائے   ۔جب رسول پاک کے سامنے تو سب سے زیادہ آنسو ابوبکر صدیق ؓکے اپنے ہی نکل گئے ۔

کہا یا رسول اللہ میں  غریب بے نوا تو امیر حرم تو کجا من کجا ۔

کہا حضور یہ شکریہ کے لفظ یا رسول اللہ میں کہاں اور اپ کا شکریہ۔  کہاں  نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکرؓ کاش تو تھوڑے سے پیسے میرے بھی ملا لیتا بلال کو خریدنے میں میرا بھی حصہ ڈال لیتا ۔۔ابوبکر پھر روئے !کہا یا رسول اللہ میرے پیسے کس کے ہیں آقا میں بھی آپ کا یہ بھی آپ کے۔ جناب سیدنا بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف حضور ﷺنے دیکھا ۔تو فرمایا بلالؓ آیار ۔۔ذرا سینے سےلگ جا۔ تو اب حضرت بلالؓ دوڑے  جب   رسول پاک کے سینے سے لگے۔ تو ایک جملہ میرے محبوب کی زبان سے نکلا۔فرمایا بلال تو نے بڑی سختیاں برداشت کی ہیں تجھے میرا اللہ ہی جزا عطا فرمائے گا ۔اب  تونے بڑے دکھ دیکھیں ہیں بلالؓ تڑپے ۔رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بھی روئے حضور نے اپنے ساتھ بٹھا لیا سیدنا بلالؓ کو۔ حضور نے گھر پیغام بھیجا فرمایا ۔خدیجؓہ گھر میں کچھ ہے تو بھیجو۔ بلالؓ آیا ہے۔ اب حضرت خدیجہؓ اندر سے کیا آواز دیتی ہیں۔ کہتے ہیں حضور مبارک ہو اللہ نے بلال ؓکو آزادی عطا فرما دی ہے۔ اب حضرت سیدنا زینب رضی اللہ تعالی عنہا ۔میرے محبوب کی شہزادی چھوٹی سی   عمر ہے ۔ایک برتن  میں کھجوریں لے کے آئے ۔اب لا کے جب کھجوریں رکھی   تو۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے ہاتھ بڑھایا کھجوریں اٹھانے کے لیے تاکہ  میں دوں۔۔ حضور نے فرمایا نہ ابو بکؓر بلالؓ پہلے دن آیا ہے۔ پہلے تو نے جتنی خدمت کرنی تھی کر لی  ۔اب میری باری حضرت بلال حبشی فرماتے ہیں کائنات میں میں نے اتنا پیار کا بھی دیکھا ہی نہیں تھا 30 سال سے زیادہ میری عمر تھی۔ مجھے تو کبھی کسی نے پاس بھی بٹھا کے کھانا کھلایا ہی نہیں ۔فرماتے رسول پاک سخت سخت کھجوریں سائیڈ پہ کرتے اندر سے نرم کھجور نکالتے اس کھجور سے تھوڑا سا چھلکا جدا کرتے فرماتے ہیں پھر اس کو توڑتے اس کے اندر سے وہ گٹھلیاں اتار کے حضور ایک سائیڈ پہ کرتے وہ نرم کھجور رسول جب میری طرف بڑھاتے ۔حضرت بلال فرماتے ہیں بھوک تو بڑی تھی لیکن آج بھوک ساری بھول گئی تھی ۔آج مجھے یوں لگتا تھا جیسے میں زمین پہ نہیں عرش کی بلندیوں پہ بیٹھا ہوا ہوں ۔آج لگتا تھا کےساری نعمتیں ساری رحمتیں سارا کرم ساری عطا سارا فضل ساری عنایتیں میری جھولی میں گر گئی ہیں، فرماتے ہیں رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے مجھے بڑے محبت سے بٹھایا حضور علیہ السلام نے محبت سے کھلایا دودھ پلایا فرماتے ہیں بڑا پیار کر کے  نا ۔جناب سیدنا صدیق اکبر نے کہا حضورﷺ بلال کی  نوکری  کیا ہوگی ۔حضرت بلال کہتے تھے کہ حضور میں فارغ رہنے کا تو عادی نہیں میں تو جہاں کا شادمی ہوں ۔محنت کرنے والی  نوکری  کیا ہوگی رسول پاکﷺ نے فرمایا بلال۔ یہ میرا گھر ہے آج کے بعد میرا  گھر یہ تیرا گھر ہے ۔فرمایا میں مصروف ہوتا ہوں تبلیغ کے کاموں میں ۔گھر کیا لانا ہے وہ تیری ذمہ داری ہے کہاں سے لانا ہے وہ بھی تیری ذمہ داری ہے پیسے کہاں سے آئیں گے میں تجھے بتلاؤں گا کہاں لگانے ہیں تجھے ایک دفعہ بتاؤں گا ۔پھر تو لایا کرے گا تو ہی لگایا کرے گا ۔فرمایا میر امحبوب خادم بن کے رہے گا ۔خاص مقام تجھے دیا جائے گا۔ حضرت سیدنا بلال ؓحبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اللہ نے اس کام پر مقرر فرما دیا ۔      ایک مرتبہ بلال دار ارقم میں تھے باہرشورہوا فرمایا حضورﷺ آپ مجھے   ایک نیز منگوا دیتے ساری دنیا حضرت بلال کو  مؤذن  رسول سمجھتے ہیں اور ہے بھی لیکن حضرت بلال سب سے پہلے نیزہ بردار بھی ہے سب سے پہلے نبی پاک کی حفاظت کے لیے نیزہ جس شخص نے اٹھایا وہ حضرت بلال   ہے۔ اب حضرت بلال کے ہاتھ میں نیزہ ہوتا ۔رسول پاک کے آگے آگے چلتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم دار ارقم میں جا کے تبلیغ کا کام شروع کرتے دروازے پہ نیزہ لے کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضور نےﷺ فرمایا بلال تو ادھر کھڑا ہو ۔یا رسول اللہ جب تک میں کھڑا ہوں اندر کوئی کافر ا نہیں سکتا اندر کوئی نہیں آئے گا ۔نیزہ ہمیشہ پاس رکھا بدر میں  خندق میں جب نبی پاک نماز پڑھاتے تھے حضرت بلال نیزہ نبی پاک کے آکے گاٹ دیتے یہ ستھرا بن  جاتا

یہ ہے حضرت بلال ؓ   کی مختصر زندگی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *