دانا بزرگ اور پریشان تاجر
ایک شہر میں ایک بہت کامیاب تاجر رہتا تھا۔ اس کے پاس دولت، شہرت اور ہر وہ چیز تھی جس کی لوگ خواہش کرتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود، وہ ہمیشہ پریشان اور بے چین رہتا تھا۔ اس کے ذہن میں ہر وقت کاروبار کی فکریں، مستقبل کے اندیشے اور ماضی کے پچھتاوے گردش کرتے رہتے تھے۔ اسے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی اور دن کا سکون بھی غارت ہو چکا تھا۔
اس نے اپنی پریشانی کا حل ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی، مہنگے معالجوں سے ملا، لیکن کہیں سے بھی اسے دلی سکون نہ مل سکا۔ ایک دن اس نے ایک دور دراز گاؤں میں رہنے والے ایک دانا بزرگ کے بارے میں سنا، جو اپنی سادگی، دانائی اور پرسکون طبیعت کی وجہ سے مشہور تھے۔ لوگ دور دور سے ان سے مشورہ لینے آتے تھے۔
تاجر نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بزرگ سے ملے گا اور ان سے پوچھے گا کہ وہ کیسے اتنا پرسکون رہتے ہیں۔ وہ ایک لمبا اور تھکا دینے والا سفر طے کر کے اس گاؤں پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ بزرگ ایک چھوٹی سی جھونپڑی کے باہر درخت کے سائے میں بیٹھے تھے، ان کے چہرے پر ایک گہرا سکون تھا۔
تاجر نے ادب سے سلام کیا اور بزرگ کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی ساری کہانی سنائی – اپنی دولت، کامیابی، اور اس کے باوجود اپنی دائمی پریشانی اور بے چینی کا ذکر کیا۔ آخر میں اس نے پوچھا، “جناب، آپ کے پاس ایسا کیا راز ہے کہ آپ اتنے پرسکون اور مطمئن رہتے ہیں، جبکہ میرے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی میں ایک پل چین سے نہیں بیٹھ سکتا؟
بزرگ مسکرائے اور کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر انہوں نے قریب بہتی ہوئی ایک چھوٹی سی ندی کی طرف اشارہ کیا اور کہا، “بیٹا، تم بس وہاں بیٹھ جاؤ اور اس ندی کو بہتے ہوئے دیکھو۔ جب تک میں نہ کہوں، کچھ اور مت سوچنا، بس پانی کے بہاؤ پر دھیان دینا۔”
تاجر کو یہ بات عجیب لگی، لیکن وہ بزرگ کے کہنے پر ندی کے کنارے بیٹھ گیا اور پانی کو بہتے ہوئے دیکھنے لگا۔ شروع میں اس کا ذہن بھٹکتا رہا، کبھی کاروبار کے خیالات آتے، کبھی گھر کی پریشانیاں۔ لیکن وہ بزرگ کی ہدایت کے مطابق بار بار اپنی توجہ ندی کے بہاؤ پر مرکوز کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
پانی کی لہریں، اس کی مدھر آواز، کناروں سے ٹکرانا، اس میں تیرتے پتے… آہستہ آہستہ، تاجر کا ذہن پرسکون ہونے لگا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ کتنے عرصے بعد صرف ‘حال’ میں موجود تھا، نہ ماضی کی فکروں میں گم تھا نہ مستقبل کے اندیشوں میں۔ وہ بس ندی کو بہتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور اس کے ذہن میں ایک عجیب سی ٹھنڈک اتر رہی تھی۔
کافی دیر بعد، بزرگ اس کے پاس آئے اور پوچھا، “کچھ محسوس ہوا ؟
تاجر نے ایک گہری سانس لی اور کہا، “جی جناب۔ میں نے محسوس کیا کہ میرا ذہن کتنا پرسکون ہو گیا ہے۔ ایسا لگا جیسے سارا بوجھ اتر گیا ہو۔”
بزرگ نے نرمی سے کہا، “بیٹا، سکون کہیں باہر سے نہیں آتا، یہ تمہارے اندر ہی موجود ہے۔ تمہاری پریشانی کی وجہ تمہارے حالات نہیں، بلکہ تمہارے خیالات ہیں۔ تم ہر وقت یا تو گزرے ہوئے کل میں رہتے ہو یا آنے والے کل کی فکر کرتے ہو۔ جب تم حال میں جینا سیکھ لیتے ہو، اپنی توجہ اس لمحے پر مرکوز کرتے ہو جو تم گزار رہے ہو، تو سکون خود بخود تمہارے اندر آ جاتا ہے۔ یہ ندی ہمیشہ بہتی رہتی ہے، یہ نہ ماضی پر رکتی ہے نہ مستقبل کی فکر کرتی ہے، بس بہتی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح تم بھی اپنے خیالات کے بہاؤ کو روکو مت، انہیں گزر جانے دو اور حال میں جینا سیکھو۔
تاجر کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق مل گیا تھا۔ اس نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور ایک نئے عزم اور ہلکے دل کے ساتھ واپس شہر لوٹ گیا۔ اس دن کے بعد اس نے اپنی سوچ بدل لی اور حال میں جینے کی کوشش شروع کر دی، جس سے اس کی زندگی میں حقیقی سکون آنے لگا۔
نتیجہ: حقیقی سکون دولت یا کامیابی میں نہیں، بلکہ ذہنی کیفیت اور حال میں جینے میں ہے۔ جب ہم اپنے خیالات کو قابو کرنا اور موجودہ لمحے پر توجہ دینا سیکھ لیتے ہیں، تو اندرونی سکون حاصل کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔