کیا جہنم سانس لیتی ہے؟
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اشتد الحر فأبردوا بالصلاة وفي رواية للبخاري عن أبي سعيد بالظهر فإن شدة الحر من فيح جهنم واشتكت النار الى ربها فقالت رب أكل بعضي بعضا فأذن لها بنفسين نفس في الشتاء ونفس في الصيف أشد ما تجدون من الحر وأشد ما تجدون من الزمهرير”متفقون عليه وفي رواية للبخاري فأشد ما تجدون من الحر فمن سمومها وأشد ما تجدون من البرد فمن زمھریرھا
ترجمہ
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گرمی کی شدت ہو تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ اور بخاری کی ایک حدیث میں ابو سعید سے منقول ہے کہ ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو (یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں تو بالصلاۃ کا لفظ آیا ہے اور ابو سعید کی روایت میں بالظہر کا لفظ آیا ہے نیز اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ) کیونکہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے اور دوزخ کی آگ نے اپنے رب سے شکایت عرض کیا کہ میرے پروردگار میرے بعض شعلے بعض کو کھا لیتے ہیں چنانچہ اللہ تعالی نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی ہے اب وہ ایک سانس جاڑے میں لیتی ہے اور ایک سانس گرمی میں گرمی میں جس وقت تمہیں زیادہ گرمی معلوم ہوتی ہے اور جاڑے میں جس وقت تمہیں زیادہ سردی معلوم ہوتی ہے تو اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ وہ ایک سانس گرمی اور ایک سانس سردی میں لیتی ہے ۔ بخاری و مسلم
تفصیل
من فيح جهنم:فیح بھاپ اور بھڑاس کو کہتے ہیں سورج میں قوت جاذبہ اور مقناطیس کشش ہے اس لیے وہ حرارت کو اپنی طرف جذب کر کے جمع کرتا ہے پھر یہ حصہ جن علاقوں کے قریب ہوتا ہے ان علاقوں پر زیادہ گرمی پڑتی ہے اور سورج کا جو طبقہ جہنم سے زیادہ دور ہوتا ہے اس میں حرارت کم ہوتی ہے پھر یہ حصہ جن علاقوں کے قریب ہوتا ہے ان علاقوں میں سردی زیادہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ جو ممالک خط استوامیں واقع ہیں وہاں گرمی زیادہ ہوتی ہے سورج کی شعاعوں کا جہاں کسی چیز سے ٹکراؤ نہیں ہوتا وہاں اس کی حرارت کا ظہور نہیں ہوتا ہے جیسے فضاؤں میں گرمی کا احساس نہیں ہوتا اور جہاں تنگ مقامات پر سورج کی شعاعیں پڑھتی ہیں وہاں حرارت کا ظہور زیادہ ہوتا ہے زمین سے سورج کا فاصلہ نو کروڑ تیس لاکھ میل بتایا جاتا ہے ۔
بہرحال بخاری کی روایت میں یہ مضمون آیا ہے کہ جس وقت تم گرمی کی شدت سورج کی دھوپ میں محسوس کرتے ہو تو اس کا سبب دوزخ کی گرم سانس ہوتی ہے اور جس وقت تم سردی کا احساس کرتے ہو تو یہ دوزخ کی ٹھنڈی سانس ہوتا ہے۔
سال بھر میں دوزخ دو سانس لیتی ہے
اشتكت النار“دوزخ نے اللہ تعالی کے سامنے یہ شکایت کی کہ میرے بعد شعلوں نے بعض کو کھا لیا مطلب یہ ہے کہ آگ کی کثرت اور اس کی حرارت اتنی شدید اور تیز ہے کہ یہ شعلے ایک دوسرے میں مختلط
ہو کر ایک دوسرے کو فنا کرنے پر اتر اتے ہیں چنانچہ پروردگار نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی ایک سانس باہر کی طرف نکل کر جاتی ہے تو اندر کی گرمی دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ اور جب سانس اندر کی طرف چلے جاتی ہے تو باہر کی دنیا میں سردی پھیل جاتی ہے۔
آج چند ہفتوں سے پوری دنیا گرمی کی جس شدت سے دوچار ہے اسکی مثال ماضی قریب کی تاریخوں میں نہیں ملتی ، شدید گرمی سے انسان وحیوان سبھی پریشان ہیں، اللہ کی مخلوق متعدد بیماریوں میں مبتلا ہے ، بلکہ متعدد ملکوں سے وفیات کی خبریں بھی آرہی ہیں ۔لیکن گرمی میں شدت کیوں ہوتی ہے اسے دیکھ کر ایک مسلمان کا موقف کیا ہونا چاہئے اور اسمیں ایک مسلمان کیلئے کیا سامان عبرت ہے، یہ وہ حقائق ہیں جو عام لوگوں پر واضح نہیں ہیں ، زیر بحث حدیث میں انہیںبعض امور کا بیان ہے اور ان میں سے بعض کی طرف اشارہ ہے چنانچہ:
اولا اس حدیث میں دنیا میں گرمی و سردی کا ایک ایسا غیبی سبب بیان ہوا ہے جو دنیا والوں کی نظروں سے اوجھل ہے ، یعنی جب اللہ تعالی نے جہنم کو پیدا فرمایا اور اسمیں اس قدر تپش رکھی کہ اس کی شدت خود اس کیلئے نا قابل برداشت ٹھہری تو جہنم نے اس کا گلہ اللہ تعالی سے کیا، چنانچہ اللہ تعالی نے اسے یہ اجازت دی کہ سال میں دوبار سانس لیکر اس شدت میں قدرے تخفیف کرلیا کرے ،تو گویا جب جہنم اپنا سانس باہر کی طرف لیتی ہے تو اہل زمین گرمی اور اس میں شدت محسوس کرتے ہیں اور جب جہنم اپناسانس اندر کی طرف لیتی ہے تو اہل زمین سردی کی شدت محسوس کرتے ہیں ، بہت ممکن ہے کہ جہنم کے یہی سانس سورج کے شمال و جنوب کے طرف مائل ہونے کا سبب ہو ں، اگر چہ اسکے ظاہری اور سائنسی اسباب کچہ اور ہیں
درخت لگانا رحمت الہی اور صدقہ جاریہ کا ذریعہ ہے