زندیق کا حکم

زندیق کا ھکم زندیق کا ھکم

 زندیق کا حکم

وعن عكرمة قال أتي علي بزنادقة فأحرقهم فبلغ ذلك ابن عباس فقال لو كنت أنا لم أحرقهم لنهي رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تعذبوا بعذاب الله و لقتلتهم لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم من بدل دينه فاقتلوه (رواه البخاري)۔

ترجمہ

حضرت  عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ زندیق حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں لائے گئے تو انہوں نے ان کو جلا ڈالا پھر جب اس بات کی خبر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا ،کیوں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ممانعت فرمائی ہے کہ کسی شخص کو ایسے عذاب میں مبتلا نہ کرو جو اللہ تعالی کے عذاب کی طرح ہو (جیسے کسی کو آگ میں جلانا) بلکہ میں ان کو قتل کر دیتا کیوں رسول  الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اس کو قتل کر دو( اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کی ہے)۔

تفصیل

أتي بزنادقة”زنادقه ،زندیق کی جمع ہے اور  زندیق کی تفسیر و تشریح میں علماء کے مختلف اقوال ہیں پہلا قول یہ ہے کہ زندیق ایسا شخص ہے جو اسلام کی حقانیت کا قرار کرتا ہے لیکن دین اسلام کے احکامات اور ضروریات دین کی ایسی تفسیر و تشریح کرتا ہے کہ جو سلف صالحین اور صحابہ و تابعین کی تشریح و توضیح کے خلاف ہو یا شریعت کے کسی ثابت شده قطعی حکم۔ مثلا جنت و دوزخ کو مانتا ہے، لیکن ان دونوں کی اپنی طرف سے من گھڑت خود ساختہ تشریح کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جنت کوئی خاص جگہ ومقام نہیں بلکہ جنت سے مراد قلبی راحت و اطمینان ہے اور دوزخ سے مراد قلبی غم اور پریشانی ہے خارج میں ان دونوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بعض نے کہا کہ زندیق وہ ہوتا ہے جو اسلام کے منافی عقائد رکھتا ہے اور اس کا پر چار و اظہار بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اسلام کا دعوی بھی کرتا ہے۔

بعض علماء کہتے ہیں کہ اصل میں زندیق مجوسیوں کی ایک قوم کا نام ہے جو زرتشت مجوسی کی گھڑی ہوئی کتاب “زند” کے پیروکار ہیں لیکن عام اصطلاح میں ہر ملحد فی الدنیا کو زندیق کہا جاتا ہے۔

بعض علماء نے عبداللہ بن سبا  یہودی منافق کی قوم کے افراد کو زندیق کہا ہے۔ جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خدا کہہ دیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو منع فرماتے رہے ،لیکن ان لوگوں نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ عرش پر اللہ تھے اور نیچے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شکل میں اتر آئے ہیں ۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو سمجھایا مگر یہ لوگ باز نہیں آئے کیونکہ یہ لوگ فتنہ وہ فساد برپا کرنے کے لیے اسلام میں آئے تھے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو جلانے کا حکم دے دیا اور گڑھے  کھدوا کر اس میں آگ بھڑکا دی اور ان سب کو جلا ڈالا، جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو جلا ڈالا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا کہ اگر میں علی کی جگہ ہوتا تو میں ان کو آگ میں جلانے کے بجائے قتل کر دیتا یا کسی اور ذریعہ سے مار ڈالتا کیونکہ آگ کے ذریعہ قتل کرنا اللہ تعالی کا حق ہے۔

 زندیق اور منافقین میں یہ فرق ہوتا ہے کہ منافق اپنی غلط عقائد کو چھپاتا ہے لیکن زندیق اپنے عقائد کو ظاہر کرتا ہے۔

علماء نے لکھا ہے کہ زندیق کی توبہ معتبر نہیں ہے لہذا اس کی توبہ و استغفار کی کوئی ضرورت نہیں اس کو قتل کرنا ہے لیکن بعض دیگر علماء فرماتے ہیں کہ زندیق کی توبہ جائز اور قبول ہے امام نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ راجع اور صحیح یہی ہے کہ زندیق کی توبہ قبول ہے کیونکہ توبہ کی احادیث مطلق ہے اور صحیح ہے اگرچہ زندیق  کی توبہ قبول ہونے یا نہ ہونے میں پانچ اقوال ہے۔ (کذافی المرقات ج۔ص 106)المرقات 97/7۔98

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کو جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے سنا تو زنادقه کو جلانا بند کر دیا اور فرمایا ابن عباس کا قول سچ ہے معلوم ہوا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ اجتہاد کے طور پر ان کو جلاتے تھے تاکہ دوسروں کے لیے عبرت بن جائے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خدا کہنے کا یہ جرم کوئی دوسرا شخص نہ کرے۔


 

 فرعون کی بیوی(حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا)ایمان لانے کا افروز اوقعہ

سورة الحجر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *