مؤذن کی فضیلت
شیطان اذان کی آواز سے بھاگتا ہے
وعَنْ أَبي هُريْرَةَ قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِذا نُودِي للصَّلاةِ، أَدْبرَ الشيْطَانُ ولهُ ضُرَاطٌ حتَّى لاَ يسْمع التَّأْذِينَ، فَإِذا قُضِيَ النِّداءُ أَقْبَل، حتَّى إِذا ثُوِّبَ للصَّلاةِ أَدْبَر، حَتَّى إِذا قُضِيَ التَّثْويِبُ أَقْبلَ، حَتَّى يخْطِر بَيْنَ المرْءِ ونَفْسِهِ يقُولُ: اذْكُرْ كَذا، واذكُرْ كذا لمَا لَمْ يكن يذْكُرْ منْ قَبْلُ حَتَّى يظَلَّ الرَّجُلُ مَا يدرَي كَمْ صلَّى (متفقٌ عَلَيْهِ).
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگ کھڑا ہوتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے، جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو یہ پھر آتا ہے اور جس وقت تکبیر ہوتی ہے تو پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے، تو پھر واپس اآجاتا ہے تاکہ انسان اور اس کے دل کے درمیان خطرات پیدا کرے چنانچہ (نمازی سے) کہتا ہے کہ فلاں چیز یاد کرو فلاں بات یاد کرو (اس طرح نماز شروع کرنے سے پہلے مال و اولاد حساب و کتاب خرید و فروخت کے سلسلہ میں) جو باتیں نمازی کو یاد نہیں ہوتی ویاد دلاتا ہے یہاں تک کہ آدمی (یعنی نمازی) کو یہ
بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔(بخاری،مسلم )
تفصیل
ولهُ ضُرَاطٌ :اصیلی کے ایک نسخے میں “ولهُ ضُرَاطٌ “واؤ کے ساتھ آیا ہے یہ جملہ حالیہ ہے ضراط ،وضریظ”گوز مارنے کو کہتے ہیں ۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ یہ کلام حقیقت پر محمول ہے کیونکہ شیطان بھی جسم رکھتا ہے اور کھاتا پیتا ہے اور گوز مارتا ہے ۔یعنی اذان کی آواز شیطان پر اس طرح بھاری ہوتی ہے جس طرح گدھے پر زیادہ وزن کا سامان رکھ دیا جاتا ہے تو گدھا گوز مارتا ہے اس طرح شیطان بھی حقیقتا گوز مارتا ہے اور دم دبا کر بھاگ جاتا ہے۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب اذان شروع ہو جاتی ہے تو شیطان اذان کی آواز سے اپنے آپ کو دور رکھنے اور اس سے غافل بننے کی کوشش کرتا ہے۔اشعۃ اللمعات:335
شیطان کی اس غفلت کی تشبیہ ایک ایسی آواز سے دی گئی ہے جس سے کان بھر جاتے ہیں اور اس آواز کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا پھر مزید تقبیح کے لیے کسی آواز کو یاد کیا گیا گویا یہ ایک تشبیہی کلام ہے بهرحال احادیث میں صریح الفاظ گوزمارنے کے آئے ہیں تو اس کلام کو تشبیہ اور مجاز پر حمل کرنا بعید ہوگا، کیوں کہ حقیقی معنی مراد لینا متعذر نہیں ہے اور شیطان اتنا معزز نہیں کہ ہم اس کی طرف گوز مارنے کی نسبت نہ کریں ۔
سوال
یہاں یہ اشکال ذہن میں ابھرتا ہے کہ شیطان تلاوت سے نہیں بھاگتا نماز سے نہیں بھاگتا نماز کے اندر شہادتیں سے نہیں بھاگتا آخر کیا وجہ ہے کہ وہ صرف اذان سے بھاگتا ہے؟
جواب
اذان شعائر اللہ میں سے ہے اور جہاں اذان کھل کر میناروں پر دی جاتی ہے وہاں اسلام کو غلبہ حاصل ہوتا ہے شیطان اسلام کی اس عظمت و شوکت اور اس کی رفعت و عزت کو برداشت نہیں کر سکتا ہے اس لیے گوزمارتا ہوا بھاگ جاتا ہے معلوم ہوا جہاد اور آزادی کی سرزمین پر اذان دینے اور غلبہ و قدرت اور شوکت و سطوت کہ سائے میں اذان دینے کی شان اور ہوتی ہے اور مغلوبیت اور مظلومیت اور مقہوریت و مسکنت کی حالت میں اذان کی حیثیت اور ہوتی ہے علامہ اقبال رحمہ اللہ کیا خوب فرماتے ہیں۔
الفاظ ومعانی میں تفاوت نہیں لیکن ،،ملا کی اذان اور ہے مجاہد کی اذان اور ہے۔
بعض علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ اس حدیث میں اذان کی نماز پر فضیلت جزئی کا ذکر ہے جس سے نماز کی کلی فضیلت متاثر نہیں ہوتی ہے بعض علماء نے یہ فرمایا ہے کہ مؤذن دعی الی الخیر ہے اور شیطان دعی الی الشر ہے اس لیے شیطان دعی الی الشر ہونے کی وجہ سے اذان سن کر جل کر بھاگ جاتا ہے۔
(الله سے دعا ہے کہ ہم سب اذان کا جواب دینے والا بنا آمیں)