استاد کی حکمت
کسی قدیم دور کی بات ہے، ایک بستی میں ایک ایسے بزرگ استاد کا قیام تھا جن کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کی محفلِ علم میں ہر خاص و عام شریک ہوتا اور ان کے چشمۂ فیض سے سیراب ہوتا۔ ان کے شاگردوں میں سے ایک نوجوان، جس کا نام راشد تھا، اپنی ذہانت اور فطانت میں تو بے مثال تھا، مگر اس کی طبیعت میں تمرد اور سرکشی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
استاد کی حکمت
راشد استاد کی باتوں کو سنتا، علم حاصل کرتا، مگر ان کے آداب و احترام سے عاری تھا۔ وہ استاد کے دیے ہوئے کاموں کو اکثر نظر انداز کر دیتا، ان کی نصائح کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا، اور بسا اوقات دوسرے شاگردوں کے سامنے استاد کے طریقوں پر چٹکلے کستا۔ جب استاد کسی موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے، تو وہ اپنی ہشیاری دکھانے کے لیے بے موقع سوال کر دیتا یا بحث برپا کرنے کی کوشش کرتا۔ دوسرے شاگرد اس کی ان حرکات سے سخت کبیدہ خاطر تھے اور اکثر استاد سے اس کی شکایت کرتے، یہاں تک کہ بعض اوقات تو وہ راشد سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتے تھے۔
مگر استاد کمالِ صبر و تحمل کا پیکر تھے۔ وہ راشد کی تمام تر نافرمانیوں اور گستاخیوں کے باوجود کبھی کبیدہ خاطر نہ ہوتے۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک پ پُرسکون مسکراہٹ رہتی۔ وہ راشد کو کبھی ڈانٹتے نہیں، کبھی محفل سے نکالتے نہیں، بس کبھی کبھار ایک معنی خیز نظر ڈالتے اور اپنی تدریس جاری رکھتے۔ دوسرے شاگردوں کی شکایت پر وہ صرف اتنا کہتے، “ہر شجر کو بار آور ہونے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ راشد کی جڑیں مضبوط ہیں، اسے پھلنے پھولنے کا موقع دو۔” استاد کا یہ طرزِ عمل بہت سے شاگردوں کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
راشد اپنی فطری صلاحیت اور استاد کی خاموش شفقت کے سائے تلے علم حاصل کرتا رہا۔ اس نے علومِ ظاہری میں بہت جلد کمال حاصل کر لیا۔ اسے اپنی ذہانت پر بڑا غرور تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جو کچھ اس نے سیکھا ہے، وہ اس کی اپنی محنت کا نتیجہ ہے اور استاد کا اس میں کوئی خاص کمال نہیں۔ وہ بدستور اپنی روش پر قائم رہا اور استاد کے سامنے عاجزی اختیار نہ کی۔
جب استاد اپنی حیات کے آخری لمحات گن رہے تھے، تو انہوں نے اپنے تمام شاگردوں کو اپنی آخری وصیت کے لیے بلایا۔ وہ سب ادب سے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ استاد نے ایک گہری سانس لی اور اپنی کمزور مگر پ پُروقار آواز میں اعلان کیا: “میرے بعد، میری مسندِ علم اور میرے ورثے کا حقدار میرا یہ شاگرد، راشد، ہوگا۔”
استاد کی حکمت
یہ سن کر جیسے مجمع پر سکتہ طاری ہو گیا۔ شاگردوں کی آنکھوں میں حیرت، صدمہ اور سوالات تھے۔ وہ راشد جس نے کبھی استاد کے ادب کا پاس نہیں رکھا، جس کی نافرمانیوں کے وہ چشم دید گواہ تھے، آج وہی استاد کا جانشین نامزد ہو رہا تھا! یہ بات ان کے لیے ناقابلِ یقین تھی۔ بعض کے دل میں تو بغاوت کے جذبات بھی ابھرنے لگے۔ مگر استاد کی بات حتمی تھی۔
استاد کے پردہ فرما جانے کے بعد، راشد نے وہ عظیم مسند سنبھالی۔ شروع شروع میں اسے اپنی کامیابی اور استاد کے غیر متوقع فیصلے پر فخر محسوس ہوا۔ وہ اپنی ذہانت اور علمیت کے زعم میں مبتلا رہا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، جب علم کی پ پُور بھاری ذمہ داریاں اس کے کاندھوں پر آئیں، جب لوگ دور دراز سے اپنے پیچیدہ مسائل لے کر اس کے پاس آنے لگے، جب اسے فیصلے کرنے پڑے اور رہنمائی فراہم کرنی پڑی، تو اسے رفتہ رفتہ اپنے استاد کی عظمت کا اندازہ ہونا شروع ہوا۔
استاد کی حکمت
جب کوئی مشکل معاملہ درپیش ہوتا، تو اسے یاد آتا کہ کیسے اس کے استاد نے نہ صرف اسے مشکل ترین علوم سکھائے، بلکہ اس کی تمام تر نافرمانیوں اور گستاخیوں کو بھی اسی صبر اور حکمت سے برداشت کیا جیسے وہ علم کی باریکیوں کو سلجھاتے تھے۔ اسے شدت سے یہ احساس ہوا کہ استاد نے اسے اس مسند کے لیے محض اس کے علم کی بنیاد پر نہیں چنا تھا، بلکہ وہ اس کے اندر چھپی اس صلاحیت کو جانتے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ پک کر کندن بننے والی تھی۔ استاد نے اس کی خام صلاحیت اور مستقبل کی اہلیت پر بھروسہ کیا تھا، نہ کہ اس وقت کے اس کے ظاہر پر۔
اسے سمجھ آیا کہ استاد کا صبر دراصل ایک گہری حکمتِ عملی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ راشد کی ذہانت کو صرف علم کی نہیں بلکہ ظرف اور تحمل کی بھی ضرورت ہے۔ اور یہ چیزیں صرف وقت، تجربے اور ذمہ داری سے آتی ہیں۔ استاد نے اسے اس اعلیٰ مرتبے پر فائز کر کے دراصل اسے سچائی کا آئینہ دکھایا تھا۔ اس مرتبہ پر پہنچ کر، جب اس کی اپنی ذات کا خول ٹوٹا، تو اسے اپنی سابقہ غلطیاں اور نافرمانیاں کسی پہاڑ کی طرح سنگین محسوس ہوئیں۔
اسے احساس ہوا کہ اس کے استاد کتنے عظیم تھے جنہوں نے ایک ایسے شاگرد پر اپنی امیدوں کی سرمایہ کاری کی جو بظاہر اس کا حقدار نہیں تھا۔ استاد کی اس بے لوث شفقت اور دور بینی نے راشد کے دل میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ وہ اپنی نافرمانیوں پر شرمندہ ہوا اور دل ہی دل میں اپنے استاد کا احسان مند ہوا جن کی بدولت وہ آج اس مقام پر تھا جہاں پہنچ کر اسے حقیقی بصیرت حاصل ہوئی۔ وہ اب صرف عالم ہی نہیں، بلکہ ایک باظرف اور شکر گزار انسان بھی بن گیا تھا۔
استاد کی حکمت
اس حکایت سے حاصل ہونے والے اسباق
استاد کی بصیرت اور حکمت: یہ حکایت ہمیں سکھاتی ہے کہ ایک حقیقی استاد کی نظر صرف شاگرد کے موجودہ رویے پر نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس کے اندر کی صلاحیت اور مستقبل کو بھی دیکھتا ہے۔ استاد کا ہر عمل، خواہ وہ بظاہر کتنا ہی غیر معمولی کیوں نہ لگے، گہری حکمت اور شاگرد کی بہتری پر مبنی ہو سکتا ہے۔
صبر اور تحمل کی اہمیت: استاد کا راشد کی نافرمانیوں پر صبر کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تربیت ایک مسلسل عمل ہے اور اس میں صبر کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ بعض اوقات فوری ردعمل کے بجائے وقت اور حالات کو اپنا کام کرنے دینا بہتر ہوتا ہے۔
ذمہ داری کا احساس دلانا: استاد نے راشد کو ایک اعلیٰ مرتبے پر فائز کر کے اسے اس کی اپنی ذات سے اوپر اٹھایا۔ یہ ایک بہت بڑا سبق ہے کہ بعض اوقات ذمہ داری انسان کو اس کی خامیوں کا احساس دلاتی ہے اور اسے بہتر بننے پر مجبور کرتی ہے۔
عاجزی کا حصول: جب راشد اس بلند مقام پر پہنچا اور اسے استاد کی حکمت اور اپنے ماضی کی غلطیوں کا ادراک ہوا، تو اس کے اندر عاجزی پیدا ہوئی۔ یہ حکایت بتاتی ہے کہ حقیقی مرتبہ غرور نہیں بلکہ عاجزی سکھاتا ہے۔
احسان شناسی: حکایت کا اختتام راشد کے دل میں استاد کے لیے شکر گزاری کے احساس پر ہوتا ہے۔ یہ سبق دیتا ہے کہ ہمیں اپنے محسنوں، خاص طور پر اپنے اساتذہ کے احسان کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ان کی بظاہر سختیاں یا بظاہر غیر روایتی فیصلے دراصل ہماری بہتری کے لیے ہوتے ہیں۔
اصلاح کا امکان: یہ کہانی اس بات کی امید دلاتی ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی نافرمان کیوں نہ ہو، اگر اسے صحیح رہنمائی اور موقع ملے، تو اس کی اصلاح ممکن ہے۔ استاد کا راشد کو معاف کرنا اور اسے آگے بڑھنے کا موقع دینا اس امکان کو اجاگر کرتا ہے۔
استاد کی حکمت
یہ حکایت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ استاد کا مقام بہت بلند ہے اور ان کی شفقت اور حکمت ہماری سمجھ سے کہیں زیادہ گہری ہو سکتی ہے۔ ان کے فیصلوں پر سوال اٹھانے کے بجائے ان پر بھروسہ کرنا اور ان کے عمل سے سبق سیکھنا ہی شاگردی کا اصل جوہر ہے۔