عورت نوری ہے یا ناری؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔
قابلِ احترام سامعین کرام، معزز مہمانانِ گرامی اور میرے بلاگ سے وابستہ قارئینِ عزیز!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آج ہم ایک ایسے سوال پر غور کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں، جو بظاہر سادہ مگر اپنے اندر انسانی تخلیق، فطرت اور مرتبے کے بارے میں گہرے راز سموئے ہوئے ہے۔ یہ سوال ہے: “عورت نوری ہے یا ناری؟” یعنی کیا عورت کو نور (روشنی) سے پیدا کیا گیا ہے یا نار (آگ) سے؟ یہ موضوع ہمارے معاشرے میں مختلف انداز میں زیرِ بحث آتا رہتا ہے، اور بعض اوقات غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔ آج ہم اس سوال کا جواب براہِ راست اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، اور دیکھیں گے کہ اسلام اس بارے میں کیا حقائق بیان کرتا ہے۔
مقدمہ: سوال کا پس منظر اور اس کی اہمیت
عام طور پر جب مخلوقات کی تخلیق کا ذکر ہوتا ہے، تو یہ بتایا جاتا ہے کہ فرشتے نور سے بنائے گئے، جنات کو آگ سے پیدا کیا گیا، اور انسان کو مٹی سے۔ یہ مختلف مادے تخلیق شدہ مخلوقات کی فطرت اور صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سوال کہ “عورت نوری ہے یا ناری؟” دراصل اسی تقسیم کو انسان کی ایک صنف، یعنی عورت پر لاگو کرنے کی کوشش ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ عورت ناری ہے (آگ سے بنی ہے)، تو اس کے ساتھ نار سے منسوب منفی صفات، جیسے غصہ، شر، فتنہ پروری کو جوڑا جا سکتا ہے۔ اگر اسے نوری (نور سے بنی ہے) کہا جائے، تو اسے ماورائی، غیر انسانی یا صرف پاکیزگی کا مجسمہ سمجھ کر اس کی انسانی فطرت کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
اسلام ایک حقیقت پسند دین ہے جو ہر چیز کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھتا ہے۔ انسان، خواہ مرد ہو یا عورت، ایک مکلف مخلوق ہے جسے اللہ نے عقل، ارادہ اور اختیار دیا ہے۔ اس کی فطرت، اس کے اعمال اور اس کے مقام کا تعین اس کی تخلیق کے مادے کے ساتھ ساتھ اس کے روحانی پہلو اور اس کے اختیار کردہ راستے سے بھی ہوتا ہے۔ اس لیے، اس سوال کا جواب جاننا ضروری ہے تاکہ ہم عورت کو اس کے حقیقی اسلامی مقام پر دیکھ سکیں، جو کسی بھی غلط فہمی یا گمراہ کن تصور سے پاک ہو۔
پہلا حصہ: قرآن و حدیث کی روشنی میں تخلیقِ انسانیت کا بیان
آئیے سب سے پہلے قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں، جو علم کا سرچشمہ اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔ قرآن نے انسان کی تخلیق کے بارے میں نہایت واضح الفاظ استعمال کیے ہیں۔
سورۃ السجدہ کی آیت 7 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں
“الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ”
ترجمہ: “جس نے ہر چیز کو خوب بنایا جو اس نے پیدا کی، اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔”
یہ آیت بتاتی ہے کہ انسان کی تخلیق کی ابتدا مٹی (طین) سے ہوئی۔ مٹی ایک ایسا مادہ ہے جو نہ نور ہے اور نہ نار۔ یہ زمین کا حصہ ہے، نرم ہوتا ہے جب گیلا ہو، اور سخت ہو جاتا ہے جب خشک ہو۔ یہ مادہ انسان کی فطرت میں عاجزی، انکساری اور زمین سے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ تخلیق کس انسان کی ہوئی؟ یہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا بیان ہے۔ آدم علیہ السلام پہلے انسان اور تمام انسانیت کے باپ ہیں۔
قرآن کریم نے یہ بھی بتایا کہ حضرت حوا علیہا السلام، جو پہلی عورت اور تمام عورتوں کی ماں ہیں، کو حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا کیا گیا۔ سورۃ النساء کی آیت 1 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا”
ترجمہ: “اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور اُن دونوں سے بہت سے مرد و عورت (دنیا میں) پھیلا دیے۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام سے تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو، اور رشتوں کا (خیال رکھو)۔ بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔”
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسانیت کی ابتدا ایک “نفس واحدہ” یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی، اور ان ہی سے ان کا جوڑا (حوا علیہا السلام) پیدا کیا گیا۔ “خلق منها زوجها” کا مطلب ہے کہ ان کا جوڑا اسی نفس واحدہ سے وجود میں آیا، یعنی آدم علیہ السلام کا ہی حصہ ہے۔
اس کی مزید تفصیل ہمیں احادیث نبویہ میں ملتی ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ.”
ترجمہ: “عورتوں کے بارے میں میری وصیت مانو، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور پسلی میں سب سے زیادہ کجی اس کے بالائی حصے میں ہوتی ہے۔ اگر تم اسے بالکل سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ بیٹھو گے، اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔”
یہ حدیث مبارکہ بتاتی ہے کہ حوا علیہا السلام کو آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ پسلی انسانی جسم کا حصہ ہے جو مٹی سے بنے جسم کا ہی ایک جزو ہے۔ اس طرح، عورت کی تخلیق کا بنیادی مادہ، اگرچہ بالواسطہ طور پر، مٹی ہی ٹھہرا۔ وہ آدم علیہ السلام سے وجود میں آئیں، اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔
اس سے یہ قطعی طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ تخلیقی مادے کے اعتبار سے عورت نہ تو نور سے بنی ہے اور نہ نار سے۔ وہ انسان ہے، اور انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے۔ مرد اور عورت دونوں اس بنیادی تخلیقی مادے میں یکساں ہیں۔
دوسرا حصہ: نور اور نار – دیگر مخلوقات کی تخلیق کا فرق
اس بات کو مزید سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دیگر مخلوقات کی تخلیق کے بارے میں اسلامی تعلیمات کو دیکھیں۔
فرشتوں کی تخلیق کے بارے میں صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“خُلِقَتِ الْمَلاَئِكَةُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ.”
ترجمہ: “فرشتے نور سے پیدا کیے گئے، جنات آگ کے شعلے سے پیدا کیے گئے، اور آدم اس چیز سے پیدا کیے گئے جو تمہیں بیان کی گئی۔” (یعنی مٹی سے)
یہ حدیث دو دیگر اہم مخلوقات کی تخلیق کا مادہ بتاتی ہے: فرشتے نور سے اور جنات آگ کے شعلے (نار) سے۔ پھر یہ واضح کرتی ہے کہ آدم علیہ السلام (اور بالتبع تمام انسان) ان دونوں سے مختلف مادے سے پیدا کیے گئے۔
قرآن کریم نے جنات کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے ابلیس (جو جنات میں سے تھا) کا قول نقل کیا:
“قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ” (سورۃ الاعراف: 12)
ترجمہ: (اللہ نے) فرمایا: “تجھے کس چیز نے روکا کہ سجدہ نہ کرے جب میں نے تجھے حکم دیا تھا؟” (ابلیس نے) کہا: “میں اس (آدم) سے بہتر ہوں، تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔”
یہ آیت بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جنات نار سے بنے ہیں اور انسان مٹی سے۔
لہٰذا، تخلیقی مادے کے اعتبار سے، انسان (مرد و عورت دونوں) فرشتوں اور جنات سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ کہنا کہ عورت نوری ہے یا ناری، اگر تخلیقی مادے کے معنی میں ہے، تو یہ اسلامی نصوص کے خلاف ہے۔ انسان مٹی سے بنا ہے۔
تیسرا حصہ: “نوری” اور “ناری” کا مجازی یا روحانی مفہوم
اگر “نوری” یا “ناری” کی اصطلاحات تخلیقی مادے کے بجائے کسی اور معنی میں استعمال ہوتی ہیں، تو ہمیں اس مجازی یا روحانی مفہوم کو سمجھنا ہوگا۔
نور کا مجازی معنی:
اسلام میں نور کا لفظ اکثر ہدایت، ایمان، علم، تقویٰ، پاکیزگی، اور اللہ کے قرب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود “نور السموات والارض” ہیں۔ ایمان دل میں نور پیدا کرتا ہے۔ قرآن نور ہے، سنت نور ہے۔ نیک اعمال نور ہیں۔
سورۃ النور کی مشہور آیت 35 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کی مثال بیان فرمائی ہے:
“اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ”
ترجمہ: “اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں چراغ ہو، چراغ ایک شیشے میں ہے، شیشہ گویا ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے، جو زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی، قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ نور پر نور ہے، اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔”
یہاں نور ایمان، ہدایت اور اللہ کے فضل سے حاصل ہونے والی روحانی روشنی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر “نوری” کا مطلب یہ روحانی نور ہے، تو پھر بلاشبہ ہر وہ شخص، خواہ مرد ہو یا عورت، جو اللہ پر سچے دل سے ایمان لائے، قرآن و سنت پر عمل کرے، تقویٰ اختیار کرے، اور نیک اعمال کرے، وہ روحانی طور پر “نوری” ہے۔ اس کا دل، اس کا چہرہ، اس کے اعمال، سب نور سے منور ہو سکتے ہیں۔ اسلام کی تاریخ ایسی عظیم خواتین کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے ایمان، علم اور کردار سے دنیا کو منور کیا۔
نار کا مجازی معنی:
اسی طرح، نار (آگ) کا لفظ منفی معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ غصہ، حسد، حرص، شہوت پرستی، اور جہنم کے عذاب کی علامت ہے۔ اگر “ناری” کا مطلب یہ منفی صفات ہوں یا جہنم کا مستحق ہونا ہو، تو یہ ایک انسان کے برے اعمال کا نتیجہ ہے۔ یہ کسی خاص جنس کی فطرت نہیں، بلکہ انسانی نفس کے کمزور پہلو اور شیطان کے بہکاوے کا اثر ہے۔ ایسے لوگ، خواہ مرد ہوں یا عورت، جو برے اعمال کریں، اللہ کے نافرمان ہوں، اور توبہ نہ کریں، وہ “ناری” کہلانے کے مستحق ہو سکتے ہیں، یعنی وہ آگ (جہنم) کی طرف جانے والا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن یہ ان کی تخلیق نہیں، ان کے اعمال کا پھل ہے۔
چوتھا حصہ: حکایت
اب میں آپ کے سامنے وہ حکایت پیش کرتا ہوں جو اس موضوع کو ایک مختلف زاویے سے واضح کرتی ہے۔
ایک دن ایک چھوٹا بچہ اپنی نیک اور سمجھدار ماں کے پاس آیا۔ وہ ابھی دنیا کو سمجھنے کی ابتدائی منزل میں تھا اور اس کے ذہن میں مختلف سوالات اٹھتے رہتے تھے۔ اس نے اپنی ماں کی گود میں سر رکھا اور معصومیت سے پوچھا:
“امّی! مجھے ایک بات بتائیں۔ کیا عورت ‘نوری’ ہوتی ہے یا ‘ناری’؟ میرے دوست کہہ رہے تھے کہ عورتیں ‘ناری’ ہوتی ہیں، جیسے آگ!”
ماں نے اپنے بچے کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ سوال اس نے کہیں سنا ہوگا اور اس میں ایک گہری غلط فہمی چھپی ہوئی ہے۔ وہ مسکرائی اور پیار سے بولی:
“بیٹا! یہ بات اتنی سیدھی نہیں جتنی تم نے سنی ہے۔ چلو، میں تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہے۔”
ماں نے بچے کو بٹھایا اور نرم لہجے میں سمجھانا شروع کیا:
“دیکھو میرے چاند! اللہ تعالیٰ نے جب اس دنیا کو بنایا تو بہت سی مخلوقات پیدا کیں۔ اس نے فرشتوں کو بنایا جو دن رات اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور کبھی نافرمانی نہیں کرتے۔ ان فرشتوں کو اللہ نے ‘نور’ یعنی روشنی سے پیدا کیا۔ روشنی کتنی پاک اور صاف ہوتی ہے نا؟”
بچے نے سر ہلایا۔
“پھر اللہ نے ‘جنات’ کو بنایا۔ جنات کو اللہ نے ‘نار’ یعنی آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔ آگ کبھی کبھی بہت فائدے مند ہوتی ہے، لیکن جب قابو سے باہر ہو جائے تو سب کچھ جلا دیتی ہے۔ جنات میں سے بعض اچھے بھی ہوتے ہیں اور بعض شیطان کی طرح برے بھی۔”
“اور پھر اللہ نے ہمیں بنایا، یعنی انسان کو۔ انسانوں کے پہلے دادا، حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے ‘مٹی’ سے بنایا۔ وہی مٹی جس میں سے پودے اگتے ہیں، جس سے ہم گھر بناتے ہیں۔ مٹی بہت نرم ہوتی ہے جب گیلی ہو، اور بہت مضبوط بن جاتی ہے جب پک جائے۔”
“اچھا امّی، تو پھر ہم مٹی سے بنے؟” بچے نے پوچھا۔
“ہاں بیٹا، ہم سب انسان، مرد بھی اور عورت بھی، مٹی سے بنے ہیں۔ اللہ نے ہمارے دادا آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا، اور پھر ان ہی سے ان کی بیوی، ہماری دادی حوا علیہا السلام کو پیدا کیا۔ تو ہم سب مٹی سے بنے ہوئے انسان ہیں۔”
ماں نے بات جاری رکھی:
“اب سنو، اللہ نے انسان کو ایک اور خاص چیز دی ہے، وہ ہے ‘روح’۔ جب اللہ نے آدم علیہ السلام کا جسم مٹی سے بنا لیا تو اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دی۔ یہ روح بہت پاک ہوتی ہے اور ہمیں اللہ سے جوڑتی ہے۔ اسی روح کی وجہ سے ہم سوچ سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں اور اللہ کی بات مان سکتے ہیں۔”
“اور امّی! یہ نور اور نار کیا ہے پھر؟” بچے نے دوبارہ سوال کیا۔
ماں نے سمجھایا: “بیٹا، نور اور نار صرف بنانے والی چیزیں ہی نہیں ہیں۔ یہ اچھی اور بری باتوں کی مثال بھی ہیں۔ جب ہم اللہ کی بات مانتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، سچ بولتے ہیں، دوسروں کے ساتھ مہربانی کرتے ہیں، تو ہمارے اندر ایک روشنی آتی ہے۔ ہمارا دل نور سے بھر جاتا ہے، ہمارے کاموں میں روشنی آ جاتی ہے۔ یہ ‘نوری’ ہونا ہے۔ یہ نور ایمان کا نور ہے، اچھے اخلاق کا نور ہے۔ کوئی بھی انسان، چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی، مرد ہو یا عورت، اگر اچھے کام کرے، تو وہ ‘نوری’ بن جاتا ہے۔”
“اور ‘ناری’؟” بچے نے تھوڑی گھبراہٹ سے پوچھا۔
“بیٹا، ‘ناری’ ہونے کا مطلب ہے آگ جیسا ہونا۔ جب کوئی غصہ کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، چوری کرتا ہے، کسی کو دکھ دیتا ہے، تو یہ کام آگ کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ اچھائی کو جلا دیتے ہیں، دل کو سخت کر دیتے ہیں، اور اللہ کو ناراض کرتے ہیں۔ ایسے لوگ، خواہ مرد ہوں یا عورت، اگر اپنے برے کاموں پر قائم رہیں تو وہ ‘ناری’ بن جاتے ہیں، یعنی ان کا راستہ آگ (جہنم) کی طرف چلا جاتا ہے۔”
ماں نے پیار سے بچے کا چہرہ تھاما اور کہا: “تو دیکھو بیٹا! ہم نہ تو صرف نور سے بنے ہیں اور نہ صرف آگ سے۔ ہم مٹی سے بنے ہیں، لیکن اللہ نے ہمیں یہ طاقت دی ہے کہ ہم یا تو نور والے کام کریں اور ‘نوری’ بن جائیں، یا آگ والے کام کریں اور ‘ناری’ بن جائیں۔ یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔”
“تمہاری امّی، میں کوشش کرتی ہوں کہ اچھے کام کرکے ‘نوری’ بنوں۔ اور تم بھی، جب بڑے ہو جاؤ گے تو ہمیشہ اچھے کام کرنا تاکہ تمہارا دل اور تمہارے کام نورانی ہوں۔ اصلی چیز یہ نہیں کہ ہم کس چیز سے بنے، اصلی چیز یہ ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور ہمارا دل کیسا ہے۔”
بچے نے ماں کی بات غور سے سنی اور اس کی آنکھوں میں سمجھ آ گئی۔ اس نے ماں کو گلے لگایا اور کہا: “اچھا امّی! اب میں سمجھ گیا!”
یہ حکایت ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ اسلام انسان کو اس کی ظاہری تخلیق سے زیادہ اس کے باطن، اس کے اعمال اور اس کے اختیار پر پرکھتا ہے۔ عورت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ وہ مٹی سے بنی ہے، مگر اپنی نیک کمائی سے روحانی طور پر نوری بن سکتی ہے اور برے کاموں سے ناری بننے کا خطرہ مول لے سکتی ہے۔
پانچواں حصہ: اسلام میں عورت کا حقیقی بلند مقام
جب ہم اس تخلیقی اور روحانی حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں، تو پھر عورت کے بارے میں اسلام کا حقیقی نقطہ نظر واضح ہوتا ہے۔ اسلام نے عورت کو اس کے تخلیقی مادے کی بنیاد پر پرکھا ہے، بلکہ اس کی انسانی حیثیت، اس کے فرائض، اس کے حقوق اور اس کے تقویٰ کی بنیاد پر اسے بلند مقام عطا کیا ہے۔
قرآن کریم میں مرد اور عورت کو ایک ہی نوع کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور نیکی و بدی کے اعتبار سے دونوں کو برابر ٹھہرایا گیا ہے۔
سورۃ الاحزاب کی آیت 35 میں ارشاد ہے:
“إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا”
ترجمہ: “بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔”
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ اللہ کے ہاں اجر و ثواب اور مغفرت کا حصول مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں طور پر ممکن ہے، بشرطیکہ وہ ایمان، اسلام اور نیک اعمال میں برابر ہوں۔ کوئی فضیلت تخلیق کے مادے کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اعمال کی بنیاد پر ہے۔
اسلام نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے جو حقوق اور عزت عطا کی ہے، وہ کسی اور نظام میں نہیں ملتی۔ جنت کو ماں کے قدموں تلے قرار دیا گیا ہے۔ بیٹیوں کی پرورش پر جہنم سے نجات کی بشارت دی گئی ہے۔ بیوی کو سکون اور محبت کا ذریعہ بتایا گیا ہے اور اس کے حقوق شوہر کے برابر قرار دیے گئے ہیں۔
یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں عورت کی قدر اس کے تقویٰ، اس کے اخلاق، اس کے علم، اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور معاشرے میں اس کے مثبت کردار سے ہے۔ یہ قدر اس بے بنیاد بحث سے بالاتر ہے کہ وہ نور سے بنی ہے یا نار سے۔
خاتمہ
آج کی اس تفصیلی گفتگو اور حکایت سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن و حدیث کی رو سے انسان، خواہ مرد ہو یا عورت، کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ فرشتوں کو نور سے اور جنات کو نار سے پیدا کیا گیا۔ لہٰذا، تخلیقی مادے کے اعتبار سے عورت نہ “نوری” ہے اور نہ “ناری”۔
تاہم، روحانی اور مجازی معنوں میں، ہر وہ شخص، مرد ہو یا عورت، جو ایمان، تقویٰ اور نیک اعمال اختیار کرے، وہ نورانی بن جاتا ہے اور اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ اور جو شخص برے اعمال میں ملوث ہو، وہ خود کو آگ (جہنم) کے قریب کر لیتا ہے۔ یہ انسان کا اپنا اختیار اور اس کے اعمال ہیں۔
عورت اسلام کی نظر میں ایک باعزت اور مکرم ہستی ہے۔ اس کا مقام و مرتبہ اس کے ایمان، اس کے تقویٰ، اس کے کردار اور اس کی معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عورت کو ان بے بنیاد اور گمراہ کن لیبلز سے ہٹ کر دیکھیں اور اسے اس کے حقیقی اسلامی مقام پر فائز کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کی سچی تعلیمات کو سمجھنے، ان پر عمل کرنے اور ان کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم۔