ہندوستان میں ہندو مسلم تعلقات
: بقائے باہمی سے نفرت تک کا سفر اور اسلام کا نقطہ نظر
ہندوستان کی تاریخ صرف تہذیبوں کے تصادم کی نہیں، بلکہ صدیوں پر محیط بقائے باہمی، بھائی چارے اور ایک منفرد مشترکہ ثقافت کی تشکیل کی داستان بھی ہے۔ کئی صدیوں تک ہندو اور مسلمان اس سرزمین پر مل جل کر رہے، ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کیا، اور ایک ایسی مشترکہ میراث کو پروان چڑھایا جس کی مثالیں دنیا میں کم ہی ملتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، ایک ایسا وقت بھی آیا جب اس خوبصورت رشتے میں دراڑیں ڈال دی گئیں، اور اس میں سیاست نے انتہائی منفی کردار ادا کیا۔
تاریخی پس منظر: ایک لازوال مشترکہ ورثہ
مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد ساتویں صدی عیسوی میں کیرالہ اور گجرات کے ساحلوں پر تجارتی تعلقات کے ذریعے ہوئی، جبکہ دسویں صدی کے بعد شمالی ہندوستان میں باقاعدہ مسلم حکمرانی کا آغاز ہوا۔ ان طویل صدیوں کے دوران، نہ صرف حکمرانوں اور رعایا کے درمیان بلکہ عام لوگوں کے درمیان بھی گہرے سماجی، ثقافتی اور معاشی تعلقات پروان چڑھے۔
ثقافتی ہم آہنگی: ہندو اور مسلم دونوں نے ایک دوسرے کی ثقافتوں سے بہت کچھ سیکھا اور ایک دوسرے کو متاثر کیا۔ موسیقی، فن تعمیر، زبان، اور ادب میں نمایاں طور پر مشترکہ اثرات نظر آتے ہیں۔ اردو زبان بذات خود ہندو مسلم تال میل کی ایک بہترین مثال ہے۔ تاج محل، فتح پور سیکری اور قطب مینار جیسی عمارتیں اسی مشترکہ فن تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
مشترکہ تہوار اور رسم و رواج: کئی علاقوں میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے تھے، رسومات میں حصہ لیتے تھے، اور خوشی و غم میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے۔ دیہاتوں اور قصبوں میں یہ ہم آہنگی اور بھی نمایاں تھی۔
سماجی تانے بانے: ہندوؤں کے ذات پات کے نظام سے باہر نکلنے کی خواہش رکھنے والے کئی افراد نے اسلام قبول کیا، جس سے سماجی مساوات کا ایک نیا تصور سامنے آیا۔ دونوں مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے پیشوں میں معاونت کرتے، اور معاشی طور پر ایک دوسرے پر انحصار کرتے تھے۔
صوفیائے کرام اور بھگتی تحریک: صوفیاء نے اپنی تعلیمات سے محبت، امن اور رواداری کا پیغام عام کیا، جس نے ہندوؤں کو بھی متاثر کیا۔ خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیاء جیسے صوفی بزرگوں کے آستانے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے عقیدت کے مراکز رہے۔ اسی طرح بھگتی تحریک کے سنتوں نے ذات پات اور مذہبی امتیازات کے خلاف آواز اٹھائی، اور انسانیت کے عالمگیر رشتے پر زور دیا۔ کبیر، نانک اور میرا بائی جیسی شخصیات نے تمام انسانوں کے لیے امن اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ یہ دونوں تحریکیں ہندو مسلم بقائے باہمی کی مضبوط بنیاد بنیں۔
سیاست کا منفی کردار: تقسیم اور نفرت کی کاشت
جہاں صدیوں تک ہندو اور مسلمان باہمی احترام کے ساتھ رہتے رہے، وہیں 19ویں صدی کے اواخر اور خاص طور پر 20ویں صدی میں نوآبادیاتی طاقتوں (برطانوی راج) اور بعض خود غرض سیاستدانوں نے “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی اپنائی۔
فرقہ وارانہ سیاست کا عروج: انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو بڑھاوا دیا، انہیں الگ الگ شناخت کا احساس دلایا، اور سیاسی فوائد کے لیے مذہبی جذبات کو ابھارا۔ اس سے پہلے 1857 کی جنگ آزادی میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی تھی، جس سے انگریزوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کے اتحاد کو توڑنا ضروری ہے۔
غلط فہمیوں کا فروغ: نصابی کتب اور پروپیگنڈے کے ذریعے تاریخ کو مسخ کیا گیا، اور بعض مسلم حکمرانوں کو ظالم اور متعصب دکھایا گیا، جبکہ ان کی مثبت خدمات کو نظر انداز کیا گیا۔ اسی طرح، ہندوؤں کے بارے میں بھی منفی تاثرات پھیلائے گئے۔ میڈیا اور کچھ اخبارات نے بھی اس نفرت کو ہوا دی۔
تقسیم ہند کا کڑوا سچ: بالاخر، یہ فرقہ وارانہ سیاست اس حد تک پہنچ گئی کہ 1947 میں ہندوستان کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر دیا گیا۔ یہ تقسیم اس مشترکہ ورثے پر ایک کاری ضرب تھی جو صدیوں میں پروان چڑھا تھا۔ اس کے بعد بھی، مختلف ادوار میں بعض عناصر نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے اس نفرت کی آگ کو بھڑکائے رکھا، جس کے نتیجے میں کئی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔
اسلام اور بین المذاہب رواداری: ایک آفاقی پیغام
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو امن، رواداری اور تمام انسانوں کے احترام پر زور دیتا ہے۔ اسلام میں دوسرے مذاہب کے بارے میں بہت واضح اور مثبت ہدایات موجود ہیں
قرآن کا پیغام: قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ
(سورۃ البقرہ: 256)
(“دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔ بے شک ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے۔”)
یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام جبراً کسی کو مذہب قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا، بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے عقائد پر قائم رہنے کی آزادی دیتا ہے۔
پیغمبر اسلام (ﷺ) کا اسوہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا۔ آپ نے فرمایا:
خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (غیر مسلم شہری) پر ظلم کیا، یا اس کے حق کو پامال کیا، یا اسے اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دی، یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی، تو میں قیامت کے دن اس کا مدعی (وکیل) ہوں گا۔”
(سنن ابی داؤد، حدیث: 3052)
مدینہ کے معاہدے میں یہودیوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی، اور نجران کے عیسائیوں کو اپنی عبادت گاہوں میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ آپ نے ہمیشہ امن، عدل اور انصاف کا درس دیا۔
اقلیتی حقوق: اسلامی ریاست میں اقلیتیوں کے حقوق کی مکمل ضمانت دی گئی ہے۔ انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے، اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر و مرمت کرنے اور اپنے ذاتی قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ اسلام میں کسی بھی غیر مسلم پر ظلم یا زیادتی کو سخت منع کیا گیا ہے۔
مشترکہ انسانیت: اسلام تمام انسانوں کو ایک ہی آدم و حوا کی اولاد قرار دیتا ہے، اور انسانیت کے رشتے کو سب سے مقدم سمجھتا ہے۔ اختلاف رائے اور عقائد کے باوجود، اسلام ایک دوسرے کے ساتھ باہمی احترام اور افہام و تفہیم کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔
ایک حکایت: شیخ فرید الدین گنج شکر اور ایک ہندو عقیدت مند
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ صوفیائے کرام کے ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں انہوں نے مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر انسانیت کی خدمت کی۔ مشہور صوفی بزرگ بابا فرید الدین گنج شکر (رحمتہ اللہ علیہ) کی ایک حکایت خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
ایک بار بابا فرید ایک قصبے سے گزر رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک ہندو جوگی شدید بیمار ہے اور تکلیف میں ہے۔ لوگ اسے دیکھ کر گزر رہے تھے مگر کوئی اس کی مدد نہیں کر رہا تھا۔ بابا فرید نے فوراً اس کے پاس جا کر اس کی عیادت کی، اسے پانی پلایا اور اسے آرام پہنچانے کی کوشش کی۔ جوگی نے جب دیکھا کہ ایک مسلمان درویش اس کی مدد کر رہا ہے تو وہ بہت حیران ہوا۔ اس نے بابا فرید سے پوچھا: “آپ مسلمان ہو کر میری مدد کیوں کر رہے ہیں؟” بابا فرید نے مسکرا کر جواب دیا: “مصیبت میں ہر انسان کا ساتھ دینا ہمارا فرض ہے۔ انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔”
بابا فرید نے اس کی تیمارداری کی اور اس کے ٹھیک ہونے تک اس کا خیال رکھا۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر اس ہندو جوگی نے بابا فرید کی تعلیمات کو اپنایا اور ان کے حلقہ مریدین میں شامل ہو گیا۔ یہ حکایت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ حقیقی روحانیت اور انسانیت کا درس مذہبی امتیازات سے بالاتر ہے۔
نتیجہ
ہندوستان میں ہندو مسلم تعلقات کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ دونوں برادریاں صدیوں تک پرامن طریقے سے رہ سکتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ عناصر نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اس رشتے کو کمزور کرنے کی کوشش کی، لیکن بنیادی طور پر ہندوستان کی روح مشترکہ تہذیب اور بقائے باہمی پر مبنی ہے۔ اسلام کی تعلیمات بھی اس باہمی رواداری اور انسانیت کے احترام کی بھرپور تائید کرتی ہیں۔
آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی مشترکہ میراث کو یاد رکھیں، غلط فہمیوں کو دور کریں، اور نفرت کی سیاست کو مسترد کر کے امن اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے کام کریں۔ یہ ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ کیا ہم سب اس مقصد کے لیے اپنی ذمہ داری نبھانے کو تیار ہیں؟