امیر مدینہ کا عدل و انصاف

امیر مدینہ کا عدل و انصاف امیر مدینہ کا عدل و انصاف

امیر مدینہ کا عدل و انصاف

امراء اسلام عدل و انصاف، بذل و عطا (سخاوت اور عطا کرنا)، جود و سخا (سخاوت اور فیاضی) اور سیاست و امارت (سیاست اور حکمرانی) میں اپنی مثال آپ تھے۔ لیکن سنتالیس (۴۷) ہجری سے، ہجریوں اور مذہبی عصبیت (مذہبی تنگ نظری) کا، اس نے ان کی معمولی لغزشوں (چھوٹی غلطیوں) اور سیاسی غلطیوں کو اس قدر اچھالا کہ جن ہستیوں (شخصیات) کی سیاسی بصیرت (سیاسی سمجھ بوجھ)، انتظامی اہلیت (انتظامی صلاحیت)، عوامی ہمدری (عوام سے ہمدردی) اور عدل و انصاف (انصاف اور برابری) پر دیگر اقوام (دوسری قومیں) داد دیے بغیر نہ رہ سکیں، وہ مسلمانوں کی نگاہوں میں ظالم (ظلم کرنے والا)، غاصب (قبضہ کرنے والا) اور عفونتوں (بدبو، گندگی) کے پیاسے ٹھہرائے گئے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابوبکر الصدیق، حضرت عمر بن خطاب، حضرت عثمان ذوالنورین، حضرت علی، حضرت معاویہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسا علم و فہم (علم اور سمجھ) اور تدبر (گہری سوچ) انسانی اقوام (انسانی قوموں) میں ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکے گا۔ لیکن تاریخ (تاریخ) کے بد عمل (برے کام) اور کذاب (جھوٹے) راویوں نے قبائلی عصبیت (قبائلی تعصب)، مذہبی تعصب (مذہبی تنگ نظری) اور وقت کے حکمرانوں (بادشاہوں) سے مطابع دنیا (دنیاوی فائدے) کے حصول (حاصل کرنے) کی خاطر ان کا کردار اس انداز میں پیش کیا کہ ایسے لوگ بھی ان پاک باز (پاکباز، نیک) ہستیوں پر تنقید (اعتراض) کرنے لگے جن کی اپنی حیثیت (رتبہ) اللہ کے نزدیک (اللہ کی نظر میں) چیتھڑوں (پھٹے پرانے کپڑوں) کے برابر بھی نہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ اموی حکمران (بنی امیہ کے حکمران) بزرگی کے اعتبار سے ہاشمی حکمرانوں (بنی ہاشم کے حکمران) کے ہم پلہ (برابر) نہ تھے اور نہ ہی انہوں نے بزرگی کے معاملے میں ہاشمیوں سے منافقت (دغا بازی) کی بلکہ اپنے عم زاد (چچازاد) ہاشمیوں کا اکرام (عزت) کیا اور ان کے ساتھ رشتہ داریاں (رشتہ داریاں) قائم کیں۔ حضرت رسول مقبول ﷺ پر ایمان (ایمان) لانے والوں کی صف (قطار) میں جہاں حضرت علی المرتضیٰ موجود تھے

وہاں خالد بن سعید بن العاص اموی بھی تھے، ہجرت حبشہ (حبشہ کی طرف ہجرت) میں بھی ہاشمی تھے اور ان کے عم زاد اموی بھی۔ بلکہ حضرت رسول مقبول ﷺ نے اپنی کئی بہنیں یہاں اپنے عم زاد امویوں میں بیاہیں۔ ان کی خاندانی اور سیاسی صلاحیتوں (صلاحیتوں) سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے انہیں مختلف صوبوں (علاقوں) کا گورنر (حاکم) بنایا اور وہ آپ کی توقعات (امیدوں) پر پورے اترے۔

حضرت رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

” خَيْرُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خَيْرُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقَهُوا”

” تم میں جو شخص جاہلیت (اسلام سے پہلے کا دور) میں برگزیدہ (منتخب) تھا وہ دین اسلام (اسلامی دین) کی روح اور حقیقت (اصل) سمجھ لینے (سمجھ جانے) کے بعد اسلام میں بھی معزز (عزت والا) اور برگزیدہ (منتخب) ہے۔”

تو جس طرح رسول اللہ ﷺ کا خاندان (گھرانہ) دور جاہلیت میں بھی بذل و عطا (سخاوت اور عطا)، شجاعت (بہادری) و شرافت (نفاست) میں بے نظیر (جس کی کوئی مثال نہ ہو) تھا اسی طرح آپ کا مچھیرا اموی خاندان (بنی امیہ کا خاندان) بھی سیادت (سرداری)، فہم و فراست (سمجھ بوجھ)، ہمدردی (ہمدردی) اور ہر دلیری (بہادری) و جود و سخا (سخاوت اور فیاضی) میں ان سے پیچھے نہ تھا۔ حدود اللہ (اللہ کی مقرر کردہ حدیں) کے نفاذ (نافذ کرنے) میں وہ اپنے اور پرائے کا کبھی لحاظ (خیال) نہ کرتے تھے۔ ہاں! یہ ہے کہ ان کے دور میں اسلامی حکومت (اسلامی حکومت) مشرق میں سمندر اور مغرب میں ہسپانیہ تک پہنچ گئی۔ انہوں نے اس قدر بے مثال فتوحات (بے مثال کامیابیاں) حاصل کیں کہ ان کے بعد میں آنے والے انہیں سنبھال (سنبھالنا) بھی نہ سکے۔ جب مشرق میں امویوں کا ستارہ (شہرت) غروب ہوا تو وہ مغرب میں پہلے گئے اور وہاں خداداد (اللہ کی دی ہوئی) صلاحیت (قابلیت) اور خاندانی سیاست (خاندانی سیاست) و وجاہت (عزت) سے ایسی شاندار (عظیم الشان) حکومت قائم (قائم) کی کہ تین صدیوں (سیکڑوں سال) تک مغرب (مغربی دنیا) کی کوئی طاقت (طاقت) ان کے سامنے نہ ٹھہرا سکی۔

ذیل (نیچے) میں ہم ان کے عدل و انصاف (انصاف اور برابری) کا ایک واقعہ (قصہ) درج (لکھا) کرتے ہیں جو اس امر (بات) کا بین ثبوت (واضح ثبوت) دیتا ہے کہ جب ان کے بدنام (بدنام) حاکم (حکمران) کے عدل و انصاف (انصاف اور برابری) کا یہ حال تھا

تو ان کے نیک ناموں (نیک نام افراد) کا حال کیا ہوگا؟

کتاب الاغانی کے مؤلف (مصنف) ابو الفرج اصفہانی اپنی کتاب کے صفحہ ۱۲ جلد نمبر ۱۳ میں اپنی سند (سلسلہ روایت) کے ساتھ بیان (بیان) کرتے ہیں کہ:

“عبد الرحمن بن الحکم نے مدینہ منورہ کے ایک غلام ختاط کے منہ پر تھپڑ مارا۔ تو وہ اپنی فریاد (شکایت) لے کر مروان بن الحکم کے دربار (عدالت) میں گیا۔ ان دنوں مروان بن الحکم مدینہ منورہ کا گورنر (حاکم) تھا۔ چھ ماہ گزرنے والا ان کا سگا بھائی اور قریشی قاضی (جج) مروان تھا۔ لیکن مروان نے اس رشتے (رشتہ) کی ذرہ (تھوڑی سی بھی) پرواہ نہ کی اور اسے اپنی عدالت (عدالت) کے کٹہرے (عدالت کا گھیرا) میں ختاط کے ساتھ کھڑا کیا۔ جانبین (دونوں فریق) کے بیانات (اقوال) سننے کے بعد ختاط کو مظلوم (جس پر ظلم ہوا ہو) سمجھ کر حکم دیا کہ میاں میرے سامنے ہی عبدالرحمن کے منہ پر اسی طرح تھپڑ مار جس !طرح اس نے تجھے مارا

ختاط کہنے لگا:

“اللہ کی قسم، میرا ارادہ (ارادہ) یہ نہیں کہ میں اس سے قصاص (بدلہ) لوں بلکہ میں تو اس لیے پیش (حاضر) ہوا ہوں کہ اسے پتہ چل جائے: اس کے اوپر بھی ایسی طاقت (طاقت) ہے جو مجھے اس سے بدلہ (بدلہ) دلوا سکتی ہے۔ اس لیے میں اپنا حق (حق) قصاص (بدلہ) آپ کو ہبہ (تحفہ) کرتا ہوں۔

مروان: میں یہ ہبہ قبول (منظور) نہیں کرتا۔ آگے بڑھ اور اپنا حق لے لے!

ختاط: اللہ کی قسم! میں اسے تھپڑ نہیں ماروں گا۔ البتہ (لیکن) میں اپنا قصاص (بدلہ) تمہیں ہبہ (تحفہ) کرتا ہوں۔

مروان: اگر تو سمجھتا ہے کہ تھپڑ مارنے سے میں ناراض (ناخوش) ہو جاؤں گا تو اللہ کی قسم میں کبھی ناراض نہیں ہوں گا، لہذا (اس لیے) تو اپنا حق (حق) قصاص (بدلہ) وصول (حاصل) کر لے۔

ختاط: نہیں میں اپنا حق (حق) قصاص (بدلہ) آپ کو اور اللہ کی قسم میں اسے تھپڑ نہ ماروں گا۔

مروان: اللہ کی قسم! میں تیرا یہ ہبہ (تحفہ) قبول (منظور) نہیں کروں گا اگر تو نے ہبہ (تحفہ) کرنا ہے تو اسے کر جس نے تجھے تھپڑ مارا۔ یا پھر اسے اللہ کی خاطر معاف کر دے

ختاط: میں نے اسے اللہ کی خاطر معاف کر دیا۔

ختاط کے انہی الفاظ (الفاظ) پر عدالت (عدالت) برخاست (برخاست) ہوگئی اور وہ امیر مدینہ کا شکریہ (شکر) ادا کرتا ہوا کمرے (کمرے) سے باہر نکل گیا۔ جبکہ عبدالرحمن بن الحکم، ختاط کی طرف سے معافی کا پروانہ (فرمان) لے کر اپنے سگے بھائی مروان سے بگڑ (ناراض) گیا اور درج ذیل (نیچے لکھے گئے) اشعار (شعر) کہہ کر اپنے دل (دل) کی بھڑاس (بھڑاس) نکالنے لگا:

” کُلُّ ابْنِ أُمٍّ زَائِدٍ غَيْرِ نَاقِصٍ وَأَنْتَ ابْنُ أُمٍّ نَاقِصٌ غَيْرُ زَائِدٍ

وَهَبْتُ نَصِيبِي مِنْكَ يَا (مُرُوِّيَ) لِعَمْرٍو وَ عُثْمَانَ الطَّوِيلِ وَ خَالِدٍ

ترجمہ: ” ہر ماں کا بیٹا (بیٹا) (خوبیوں اور غیرت (عزت) کی وجہ سے) مکمل (مکمل) ہوتا ہے ناقص (نامکمل) نہیں، جب کہ تو ماں کا ناقص (نامکمل) بیٹا ہے مکمل نہیں ہے۔ اے مروان! میں نے تیری پاسداری (حمایت) کے تمام حقوق (حقوق) عمرو، عثمان الطویل اور خالد کو ہبہ (تحفہ) کر دیے ہیں (اور آئندہ (آئندہ) مجھ سے احترام (عزت) کی توقع (امید) نہ رکھنا)۔”

یاد رہے خلفائے راشدہ (ہدایت یافتہ خلفاء) حضرت عمر بن عبدالعزیز اموی ہی مروان بن الحکم کے پوتے (بیٹے کا بیٹا) اور امیر المومنین عبدالملک بن مروان کے داماد (بیٹی کا شوہر) تھے۔


قرأن پر اجرت لینا

سورة الشعراء

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *