غسلِ میت: ایک روحانی سفر کی تیاری
بلاشبہ، غسلِ میت محض ایک جسمانی عمل نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی اور انتہائی مقدس عبادت کا لمحہ ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب زمین پر ایک خاموش جسم ہوتا ہے، لیکن آسمان پر فرشتے اس منظر کو نہایت سنجیدگی اور احترام سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مومن کی روح اس کے جسم سے نکلتی ہے تو اس کے لیے اس دنیا میں سب سے بڑا اعزاز یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف بلا لیتا ہے” (صحیح بخاری، کتاب الجنائز)۔
میت سے مخاطبت کا اسلامی آداب
جو لوگ میت کو غسل دیتے ہیں، ان کے لیے یہ بات نہایت اہم ہے کہ وہ میت کے قریب جا کر، نرمی اور آہستہ آواز میں اس کے کان کے پاس بولیں۔ اسے اپنا نام بتائیں، یہ واضح کریں کہ آپ اسے غسل دینے آئے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے تسلی دیں، اسے مضبوط کریں، اسے بشارت دیں کہ ان شاء اللہ وہ ایک خوبصورت ملاقات کی طرف جا رہا ہے… اپنے رب سے۔
کیونکہ یہ لمحات میت کے لیے انتہائی نازک ہوتے ہیں۔ چاہے وہ کتنا ہی نیک اور پختہ ایمان والا ہو، موت کے بعد کا پہلا مرحلہ ہر ایک کے لیے پُر خوف اور بھاری ہوتا ہے۔ اسی لیے، وہ شخص جو ان لمحات کی نزاکت کو سمجھتا ہے، اور نرمی، محبت اور مکمل فہم سے کام لیتا ہے، وہ دراصل اللہ کے خاص توفیق یافتہ بندوں میں سے ہوتا ہے۔
میت سے محبت اور شفقت کا اظہار
اگر ممکن ہو، تو میت کو سینے سے لگا لو، اس کے ہاتھ پر ہاتھ پھیر دو۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کا بوسہ لو، بالکل ایسے جیسے وہ زندہ ہو۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہاری ہر بات سن رہا ہوتا ہے، محسوس کر رہا ہوتا ہے، بس بولنے سے عاجز ہوتا ہے۔
ایک صحابیؓ کا واقعہ ہے کہ جب وہ کسی میت کو غسل دیتے تو انتہائی شفقت اور نرمی سے پیش آتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جسم اگرچہ بے جان ہے لیکن اس کی روح قریب ہی ہوتی ہے اور سب کچھ محسوس کرتی ہے۔ غسل دینے سے پہلے اس سے پوچھ لو کہ وہ پانی کیسے درجہ حرارت کا پسند کرتا تھا۔ وہی درجہ حرارت رکھو تاکہ وہ راحت محسوس کرے۔
ستر پوشی اور خشیتِ الٰہی کی اہمیت
اور سب سے اہم بات، اس کے ستر کا مکمل خیال رکھو۔ اتنی احتیاط سے کہ تمہاری نظریں بھی اس پر بلا وجہ نہ پڑیں۔ حرکتیں نرمی سے کرو، لمس میں سکون ہو، اور دل میں اللہ کی خشیت (خوف) ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس نے کسی میت کو غسل دیا اور اس کے عیوب پر پردہ ڈالا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا” (صحیح مسلم، کتاب الجنائز)۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غسل دینے والے کے لیے کتنی بڑی فضیلت ہے۔
عظیم سفر کی تیاری
کیونکہ یہ وہ لمحہ ہے جس میں ایک بندۂ مؤمن کو اس کے سب سے عظیم سفر کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ وہ سفر جس کا وہ پوری زندگی انتظار کرتا رہا، اپنے رب سے ملاقات کا لمحہ۔
نیک لوگوں کی نشانیاں
اکثر غسل کے وقت نیک لوگوں کے جسم سے ایسی خوشبو آتی ہے، چہرے پر ایسی روشنی ہوتی ہے کہ جو غسل دے رہا ہوتا ہے، اس کا دل بے اختیار کہتا ہے: “کاش میں جان پاؤں وہ کیا دیکھ رہا ہے… کس کی طرف جا رہا ہے!”
ایک مشہور حکایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ (جنہیں پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے) کی وفات کے بعد جب انہیں غسل دیا جا رہا تھا تو ان کے جسم سے ایسی خوشبو آ رہی تھی جو مشک و عنبر کو بھی مات دے رہی تھی، اور ان کے چہرے پر نور کی ایک چمک تھی۔ یہ نیک اعمال اور تقویٰ کی برکت تھی۔
انجام کی فکر اور عمل کا صلہ
واقعی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ نے شرعی طریقے سے غسل دینا سکھایا۔ اور خوش نصیب ہیں وہ جو ان لمحوں میں اللہ سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ یہ وقت چھپے ہوئے ہوتے ہیں، کوئی انسان نہیں دیکھتا مگر اللہ کی نگاہ وہاں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
اور یاد رکھو، جیسا کرو گے، ویسا ہی تمہارے ساتھ ہو گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل اصول ہے کہ جو کسی کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ اس کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ جو کسی پر رحم کرتا ہے، اللہ اس پر رحم کرتا ہے۔
اللّٰہم ارزقنا حسن الخاتمہ… آمین
اللّٰہم اجعلنا ممن يخشاك بالغيب ويحسن العمل في السر والعلن
(اے اللہ، ہمیں حسنِ خاتمہ عطا فرما۔ آمین)
(اے اللہ، ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو تیرے غیب میں ہونے کے باوجود تجھ سے ڈرتے ہیں، اور چھپ کر بھی اور ظاہر میں بھی نیک عمل کرتے ہیں۔)