حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ
ایمان، صبر اور قربانی کی لازوال داستان
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بے شمار ایسی روشن مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دین حق کو مضبوط کیا۔ انہی درخشاں ستاروں میں حضرت یاسر رضی اللہ عنہ اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا نام سرفہرست ہے، جنہیں اسلام کے پہلے شہید ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کا واقعہ محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایمان کی پختگی، صبر کی انتہا اور اللہ کی راہ میں ہر قربانی دینے کا ایک عملی نمونہ ہے۔ یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حق پر قائم رہنے والوں کو اللہ کبھی تنہا نہیں چھوڑتا اور ان کا اجر عظیم ہوتا ہے۔
یمن سے مکہ تک: حق کی جستجو اور قبول اسلام
حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کا تعلق یمن کے علاقے مذحج سے تھا اور وہ اپنے گمشدہ بھائی کی تلاش میں مکہ مکرمہ تشریف لائے تھے۔ مکہ پہنچ کر ان کا واسطہ قریش کے ایک سردار ابو حذیفہ بن مغیرہ سے پڑا، جنہوں نے انہیں پناہ دی اور اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دی۔ اسی دوران، حضرت یاسر رضی اللہ عنہ نے ابو حذیفہ کی ایک باندی حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، جن سے ان کے صاحبزادے حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ یہ خاندان مکہ میں ایک پرسکون زندگی گزار رہا تھا کہ نبوت کا آفتاب طلوع ہوا اور رسول اللہ ﷺ نے توحید کی دعوت کا آغاز فرمایا۔
جب رحمت دو عالم ﷺ نے اپنی رسالت کا اعلان کیا اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا پیغام عام کرنا شروع کیا، تو مکہ کے بہت سے لوگ، بالخصوص کمزور، غریب اور غلام طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس حق کی پکار پر لبیک کہا۔ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا اور ان کے نوجوان بیٹے حضرت عمار رضی اللہ عنہ بھی ان سعادت مندوں میں شامل تھے جنہوں نے بلا جھجک اسلام قبول کیا۔ اس وقت اسلام قبول کرنا کسی آگ کے دریا سے گزرنے کے مترادف تھا، کیونکہ قریش مکہ اپنی آبائی بت پرستی پر شدت سے قائم تھے اور نئے دین کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو اپنی طاقت، وقار اور معاشی مفادات کے لیے خطرہ سمجھنے لگے تھے۔
چونکہ یہ خاندان، یعنی حضرت یاسر، حضرت سمیہ اور حضرت عمار رضی اللہ عنہم، ابو حذیفہ بن مغیرہ کے حلیف اور غلام تھے، اس لیے قریش کو ان پر ظلم و ستم ڈھانے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔ قریش کے ظالم و جابر سرداروں نے ان پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے جنہیں سن کر آج بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔
صبر و استقامت کا پہاڑ: آزمائش کی انتہا
قریش کے ظالموں نے اس معزز خاندان کو اسلام سے پھیرنے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ انہیں تپتی دھوپ میں مکہ کی گرم ریت پر لٹایا جاتا، لوہے کی گرم سلاخوں سے داغا جاتا، بھوکا پیاسا رکھا جاتا اور طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی تھیں۔ خاص طور پر دوپہر کے وقت، جب سورج اپنے عروج پر ہوتا تھا، انہیں مکہ کی جھلستی ہوئی ریت پر گھسیٹا جاتا، جہاں سورج کی تمازت ان کے جسموں کو جھلسا دیتی تھی۔ ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر گرم پتھروں پر لٹا دیا جاتا تھا تاکہ وہ اسلام سے منحرف ہو جائیں۔
مشرکین مکہ، خاص طور پر اسلام کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل، ان پر ظلم ڈھانے میں سب سے پیش پیش تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ یہ خاندان کسی بھی صورت میں اسلام کو چھوڑ کر دوبارہ اپنے آبائی بت پرستی کی طرف لوٹ آئے، لیکن ان تینوں کے ایمان میں ذرہ برابر بھی لغزش نہیں آئی۔ جب انہیں اذیتیں دی جاتیں تو ان کی زبانوں سے “احد احد” کی صدائیں بلند ہوتیں، جس کا مطلب تھا “اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے”۔ یہ ان کے توحید پر پختہ یقین اور اللہ پر کامل بھروسے کی علامت تھی۔
اس حالت میں، ایک دن رسول اللہ ﷺ کا گزر اس مقام سے ہوا جہاں اس خاندان کو بدترین اذیتیں دی جا رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان کے صبر و استقامت کو دیکھ کر اپنی بابرکت زبان سے فرمایا:
“صبر کرو اے آلِ یاسر! تمہارے لیے جنت ہے۔” (حوالہ: السيرة النبوية لابن هشام، مسند احمد)
یہ الفاظ ان کے لیے ایک عظیم بشارت اور حوصلہ افزائی کا باعث بنے۔ نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان ان کے لیے امید کی کرن تھا، جس نے انہیں مزید ثابت قدم رہنے اور ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیا۔ اس فرمان نے انہیں یقین دلا دیا کہ ان کی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ ان کا اجر عظیم ہے۔
شہادت کا عظیم رتبہ: اسلام کے پہلے شہید
قریش کے ظالموں نے جب دیکھا کہ ان کی تمام اذیتیں بے سود ہیں اور یہ خاندان اپنے ایمان سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، تو ان کے ظلم میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بالآخر، ان کی سفاکیت تمام حدیں پار کر گئی۔
ایک دن جب حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کو شدید ترین اذیتیں دی جا رہی تھیں، تو وہ ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو نیزوں سے چھیدا گیا اور بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ اس طرح، حضرت یاسر رضی اللہ عنہ اسلام کے پہلے مرد شہید بنے۔ ان کی شہادت نے مسلمانوں کے لیے ثابت قدمی کی ایک مثال قائم کی۔
حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بھی حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو ایذائیں دینا جاری رکھا گیا۔ ابو جہل نے اپنی تمام حدیں پار کر دیں اور انتہائی سفاکانہ طریقے سے انہیں شہید کیا۔ ایک روز، جب وہ انہیں اسلام سے پھیرنے میں ناکام رہا، تو اس نے غضبناک ہو کر اپنا نیزہ اٹھایا اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا پر اس زور سے وار کیا کہ نیزہ ان کے جسم کے آر پار ہو گیا۔ یوں، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنی جان اللہ کی راہ میں نثار کر دی اور اسلام کی پہلی خاتون شہید بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے جس جرأت، صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔ ایک ضعیف العمر خاتون کا اس طرح کلمہ حق کی خاطر اپنی جان قربان کر دینا درحقیقت ایمان کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
ان کے بیٹے حضرت عمار رضی اللہ عنہ پر بھی شدید ظلم ڈھائے گئے، یہاں تک کہ انہیں کفر کے الفاظ کہنے پر مجبور کیا گیا۔ جب انہیں چھوڑ دیا گیا اور وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: “تمہیں کیسا پایا؟” حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: “بہت برا یا رسول اللہ! مجھے اتنی اذیتیں دی گئیں کہ میں مجبور ہو کر کفر کے الفاظ بول اٹھا، حالانکہ میرا دل ایمان پر مطمئن تھا۔” آپ ﷺ نے فرمایا:
“اگر وہ دوبارہ تم پر جبر کریں تو تم وہی کرنا جو تم نے پہلے کیا تھا۔” (حوالہ: مسند احمد)
یہ واقعہ اس قرآنی آیت کی تفسیر ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ
(سورہ النحل، آیت 106)
ترجمہ: “جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کرے، مگر جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (وہ گنہگار نہیں)۔”
اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تقیہ کی صورت میں، یعنی جان بچانے کی مجبوری میں، ایسے الفاظ کہنا جائز ہے جب دل ایمان پر قائم ہو۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں شہداء کا مقام
اسلام میں شہداء کا مقام بہت بلند ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ شہداء کے بارے میں فرماتا ہے:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
(سورہ آل عمران، آیت 169)
ترجمہ: “اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں۔”
یہ آیت حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہما جیسے شہداء کی عظیم فضیلت کو بیان کرتی ہے۔ وہ دنیا سے چلے گئے لیکن اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور رزق دیے جا رہے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی شہداء کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث بیان فرمائی ہیں
عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “ما أحد يدخل الجنة يحب أن يرجع إلى الدنيا وله ما على الأرض من شيء إلا الشهيد، يتمنى أن يرجع فيقتل عشر مرات لما يرى من فضل الشهادة” (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “کوئی بھی جنتی ایسا نہیں جو دنیا میں واپس آنا چاہے، اگرچہ اسے دنیا کی ہر چیز مل جائے، سوائے شہید کے۔ وہ تمنا کرے گا کہ دنیا میں واپس آئے اور دس مرتبہ شہید کیا جائے، اس لیے کہ وہ شہادت کی فضیلت دیکھتا ہے۔”
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “للشهيد عند الله ست خصال: يغفر له في أول دفعة من دمه، ويرى مقعده من الجنة، ويجار من عذاب القبر، ويأمن الفزع الأكبر، ويوضع على رأسه تاج الوقار الياقوتة الواحدة منه خير من الدنيا وما فيها، ويزوج اثنتين وسبعين زوجة من الحور العين، ويشفع في سبعين من أقاربه” (سنن ترمذی، ابن ماجہ)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “شہید کو اللہ کے ہاں چھ فضیلتیں حاصل ہوتی ہیں: خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے، وہ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے، عذاب قبر سے بچایا جاتا ہے، سب سے بڑی گھبراہٹ (روز قیامت کی) سے محفوظ رہتا ہے، اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ایک یاقوت دنیا و مافیہا سے بہتر ہے، اسے حور عین میں سے بہتر (72) بیویاں دی جاتی ہیں اور اسے اپنے ستر رشتہ داروں کے حق میں شفاعت کا حق دیا جاتا ہے۔”
یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہما نے اللہ کی راہ میں جو قربانی دی، اس کا اجر دنیا اور آخرت دونوں میں بے مثال ہے۔
سبق اور عبرتیں: آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ
حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہما کا واقعہ نہ صرف اسلام کی ابتدائی تاریخ کا ایک روشن باب ہے بلکہ یہ ہمارے لیے بے شمار گہرے سبق اور عبرتیں بھی سمیٹے ہوئے ہے۔
استقامت علیٰ الحق: اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حق پر قائم رہنا کتنا ضروری ہے۔ چاہے کتنی ہی مشکلات آئیں، ایمان کو ہر حال میں مضبوط رکھنا چاہیے۔ یہ ثابت قدمی ہی تھی جس نے ان کے نام کو تاریخ اسلام میں امر کر دیا۔
ایمان کی طاقت: ایک ضعیف العمر جوڑے کا اس قدر شدید اذیتوں کے باوجود ایمان پر ثابت قدم رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جب ایمان دل میں راسخ ہو جائے تو بڑی سے بڑی طاقت بھی اسے ہلا نہیں سکتی۔ ان کا ایمان پہاڑ کی طرح مضبوط تھا۔
قربانی کی اہمیت: اسلام آج ہم تک ان شہداء کی قربانیوں کی بدولت پہنچا ہے۔ ان کی جانوں کا نذرانہ اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا باعث بنا۔ آج اگر ہم اسلام کی نعمت سے مالا مال ہیں تو یہ انہی عظیم قربانیوں کا ثمر ہے۔
ظلم کا انجام: ابو جہل جیسے ظالموں کا انجام بھی تاریخ کا حصہ ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ظلم زیادہ دیر تک نہیں رہتا اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ان کے کیے کی سزا ضرور دیتا ہے۔ ظالموں کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔
اللہ کی رضا: ان شہداء نے دنیاوی آسائشوں اور آرام کو ٹھکرا کر اللہ کی رضا کو مقدم رکھا، جس کے بدلے میں انہیں جنت کی بشارت دی گئی اور آخرت میں ابدی کامیابی کا وعدہ دیا گیا۔
حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہما کی شہادت درحقیقت اسلام کی بقا اور ترقی کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ ان کی داستان ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ایک مشعل راہ ہے کہ جب بھی دین پر مشکل وقت آئے، انہیں ان شہداء کی یاد تازہ کرنی چاہیے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حق کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ان کی قربانی نے ثابت کیا کہ دنیا کی کوئی طاقت ایمان والے کے دل سے توحید کی لو کو بجھا نہیں سکتی۔ آج بھی جب ہم ان کی کہانی پڑھتے ہیں تو ہمارے ایمان کو تازگی ملتی ہے اور یہ اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ اللہ کی راہ میں دی گئی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی بلکہ اس کا بدلہ دنیا و آخرت میں ملتا ہے۔
سامان سو برس کا ہے پل بھر کی خبر نہیں