ایک کتے کی غیرت اور چالیس ہزار لوگوں کا قبول اسلام

ایک کتے کی غیرت اور چالیس ہزار لوگوں کا قبول اسلام ایک کتے کی غیرت اور چالیس ہزار لوگوں کا قبول اسلام

ایک کتے کی غیرت اور چالیس ہزار لوگوں کا قبول اسلام

یہ واقعہ اسلامی تاریخ کے اس انتہائی پرآشوب دور سے تعلق رکھتا ہے جب تاتاریوں (منگولوں) نے پوری اسلامی دنیا پر یلغار کر رکھی تھی۔ بغداد، جو کبھی علم و فضل کا مرکز تھا، خون میں لت پت تھا، اور اندلس میں اسلامی تہذیب کا آخری گڑھ، غرناطہ بھی تاراج کیا جا رہا تھا۔ یہ وہ اندوہناک دن تھے جب جامعہ نظامیہ جیسی عظیم درسگاہوں کی لائبریریوں کی ہزاروں قیمتی کتابیں دریا برد کر دی گئیں، اور مسلمانوں نے لاکھوں کی تعداد میں شہداء کا غم اٹھایا۔ یہ امت مسلمہ کے لیے انتہائی کرب و ابتلا کا زمانہ تھا۔

اسی دوران، ایک منگول سردار عیسائی ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی نئی عیسائیت کی تشہیر اور مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے ایک بہت بڑا اجتماع منعقد کیا۔ یہ اجتماع بظاہر مذہبی تھا، لیکن اس کا اصل مقصد اسلامی اقدار اور نبی اکرم ﷺ کی شان کو نیچا دکھانا تھا۔

امام ابن حجر عسقلانیؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب “الدرر الکامنہ” میں اس واقعے کو تفصیل سے نقل کرتے ہیں (جلد 3، صفحہ 203)۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس بدبخت عیسائی سردار نے اس بڑے مجمع کے سامنے دریدہ دہنی (بے باکی اور بدتمیزی) کرتے ہوئے، ہمارے آقا و مولا حضور اکرم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنا شروع کر دی۔ یہ ایک ایسا نازک لمحہ تھا جب مجمع میں کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں تھا جو اس گستاخانہ ہرزہ سرائی کے خلاف آواز اٹھاتا یا اسے روکتا۔ ہر طرف ایک عجیب خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

جب اس سردار نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیے، تو قریب ہی بندھا ہوا ایک کتا اچانک شدید جوش میں آ گیا۔ یہ کتا جو پہلے بالکل خاموش تھا، غیرت و حمیت کے عالم میں زور زور سے بھونکنے لگا۔ مجمع میں موجود کچھ لوگوں نے سردار سے کہا، “یہ دیکھو! تم مسلمانوں کے نبی ﷺ کے خلاف بول رہے ہو، اسی لیے یہ کتا بھی تمہاری گستاخی کو برداشت نہیں کر پا رہا اور بھونک رہا ہے۔”

لیکن اس تکبر سے بھرے سردار نے ان کی بات کو جھٹلا دیا اور کہا، “نہیں نہیں! یہ ویسے ہی بڑا غیرت مند جانور ہے۔ دراصل میں نے ہاتھ سے اشارہ کیا تھا، تو یہ سمجھا کہ میں اسے مارنے لگا ہوں، اس وجہ سے یہ بول رہا ہے۔ اس کا میرے بیان سے کوئی تعلق نہیں۔”

یہ کہہ کر اس نے دوبارہ سے حضور اکرم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنا شروع کر دی۔ مجمع میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے، لیکن ان میں سے ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جو حضور اکرم ﷺ کا سچا غلام بن کر اس گستاخی پر غیرت کھاتا اور اس ظالم کو روکتا۔ ہر طرف وہی سناٹا اور بے بسی تھی۔

لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسی لمحے وہ کتا، جو اب تک رسی سے بندھا ہوا تھا، ایک دم زور لگا کر اپنا رسہ توڑ کر آزاد ہو گیا۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے جھپٹا اور ایک شیر کی طرح اس گستاخ منگول سردار پر حملہ آور ہو گیا۔ کتے نے کوئی اور عضو نہیں بلکہ براہ راست اس کی گردن میں اپنے دانت گاڑھ دیے۔ اس گستاخ کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا اور وہ اسی لمحے تڑپ کر جہنم واصل ہو گیا۔

امام ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں کہ اس حیرت انگیز اور کرشماتی واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر چالیس ہزار لوگوں نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ یہ لوگ اس منظر کے گواہ تھے کہ کس طرح ایک بے زبان جانور نے اپنے محبوب نبی ﷺ کی توہین کا بدلہ لیا۔ اس واقعے نے ان کے دلوں پر گہرا اثر کیا اور انہیں اللہ کی قدرت، اس کے دین کی حقانیت اور نبی اکرم ﷺ کی عظمت کا یقین ہو گیا۔

اس واقعے کی تائید امام ذہبیؒ نے بھی اپنی کتاب “معجم الشیوخ” (جلد 2، صفحہ 387) میں کی ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف حضور اکرم ﷺ کی بلند شان کا ایک واضح ثبوت ہے، بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کو بھی برداشت نہیں کرتا، اور بعض اوقات اپنے دین کی نصرت کے لیے غیر متوقع ذرائع کو بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے غیرت اور ایمان کی پختگی کا ایک بہت بڑا پیغام ہے۔


غسلِ میت: ایک روحانی سفر کی تیاری

سورة النمل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *