حکایتِ شیریں بیانی اور کڑوا سچ

حکایتِ شیریں بیانی اور کڑوا سچ حکایتِ شیریں بیانی اور کڑوا سچ

حکایتِ شیریں بیانی اور کڑوا سچ

ایک وقت کی بات ہے، ایک دور دراز گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے، جن کے نام عامر اور زبیر تھے۔ عامر اپنی سُریلی آواز اور نرم گفتاری کے لیے مشہور تھا، جبکہ زبیر سچا اور کھرا انسان تھا، لیکن اس کی بات کا انداز اکثر تلخ ہو جاتا تھا۔

عامر کی زبان میں مٹھاس تھی، اس کے الفاظ شہد میں ڈوبے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ وہ جب بھی کسی سے بات کرتا، لوگ اس کے لب و لہجے کی تعریف کرتے۔ اس کی باتوں سے دل جیت لیے جاتے اور لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جاتیں۔ گاؤں میں جب بھی کوئی جھگڑا ہوتا، لوگ عامر کو بلاتے تاکہ وہ اپنی میٹھی باتوں سے صلح کروا دے۔ وہ ہمیشہ نرم دلی اور سمجھداری سے بات کرتا، چاہے معاملہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو۔ اس کے برعکس، زبیر کی زبان سے نکلے الفاظ پتھر کی طرح سخت محسوس ہوتے تھے۔ وہ جو کچھ بھی کہتا، سچ ہوتا، لیکن اس کا انداز ایسا ہوتا کہ سننے والا چونک اٹھتا یا برا مان جاتا۔ لوگ اس سے کتراتے، اگرچہ وہ جانتے تھے کہ زبیر کبھی جھوٹ نہیں بولتا، پھر بھی اس کی کڑوی باتوں کی وجہ سے کوئی اس کے پاس نہیں پھٹکتا تھا۔

ایک دن گاؤں کے سردار کو اپنے باغ کے لیے ایک ایسے مالی کی ضرورت پڑی جو ایماندار بھی ہو اور کام کا بھی۔ اس نے دونوں بھائیوں کو بلایا۔ جب عامر سردار کے سامنے پیش ہوا تو اس نے بڑے ادب سے اور خوش اسلوبی سے بات کی، اپنے تجربے کو اس طرح بیان کیا کہ سردار اس کی باتوں سے متاثر ہو گیا۔ اس نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ کیسے پودوں کی دیکھ بھال کرے گا، پھولوں کو کیسے خوبصورت بنائے گا اور پھلوں کی حفاظت کیسے کرے گا۔ اس کے الفاظ میں عاجزی اور مہارت دونوں نمایاں تھیں۔ سردار نے اسے دیکھتے ہی پسند کر لیا۔

پھر زبیر کی باری آئی۔ زبیر نے بھی سچ بولا، “سردار صاحب، میں محنت کروں گا، لیکن جو پودا سوکھ رہا ہوگا میں آپ کو سیدھا بتاؤں گا کہ یہ سوکھ رہا ہے۔ جو پھل خراب ہوگا میں کہوں گا یہ خراب ہے۔ میرے کام میں کوئی کمی نہیں ہوگی، لیکن میں آپ کو خوش کرنے کے لیے جھوٹی تعریفیں نہیں کروں گا۔” زبیر کے انداز میں سختی تھی اور اس کے الفاظ سردار کو چبھ گئے۔ سردار نے زبیر کی سچائی کو تو سمجھا لیکن اس کی تلخ گفتاری کی وجہ سے اسے نوکری دینے سے ہچکچایا۔

عامر کو مالی کی نوکری مل گئی اور زبیر کو نہیں ملی۔ عامر نے سردار کے باغ کی خوب دیکھ بھال کی، لیکن جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا، وہ اس کو اس طرح بیان کرتا کہ سردار کو برا نہ لگے۔ وہ کہتا، “سردار صاحب، یہ پودا تھوڑا بیمار لگ رہا ہے، مجھے لگتا ہے اسے خاص دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔” جبکہ حقیقت میں پودا سوکھ رہا ہوتا تھا، لیکن عامر کے لہجے نے اسے نرم بنا دیا تھا۔ اس کی خوش بیانی کی وجہ سے سردار اس سے بہت خوش رہتا تھا۔

کچھ عرصے بعد، سردار کے باغ میں کچھ مسائل پیدا ہونے لگے، پھل گل رہے تھے، پودے سوکھ رہے تھے، لیکن عامر کی باتوں کی وجہ سے سردار کو اس کی شدت کا اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ عامر ہمیشہ مسائل کو اس طرح پیش کرتا تھا کہ وہ چھوٹے لگتے تھے۔ مثلاً، اگر باغ میں کیڑے لگ جاتے تو وہ کہتا، “سردار صاحب، کچھ کیڑے ہیں جو پودوں کو تھوڑا پریشان کر رہے ہیں، لیکن میں جلد ہی ان کا علاج کر دوں گا۔” اس کے اس انداز کی وجہ سے سردار نے کبھی ان مسائل کی سنگینی کو محسوس ہی نہیں کیا اور نہ ہی ان پر فوری توجہ دی۔

ایک دن سردار کی طبیعت خراب ہوئی اور اس نے زبیر کو بلایا تاکہ وہ اس کی فصلوں کا حال بتائے۔ زبیر جب باغ میں پہنچا تو اس نے فوراً تمام مسائل کو سردار کے سامنے واضح طور پر پیش کیا۔ اس نے کہا، “سردار صاحب! آپ کا باغ شدید مشکلات کا شکار ہے۔ یہ پودا مکمل طور پر سوکھ چکا ہے، اس پھل میں کیڑے لگ چکے ہیں، اور یہ فصل کمزور ہو رہی ہے۔” زبیر کے الفاظ اگرچہ کڑوے تھے، لیکن وہ حقیقت پر مبنی تھے۔ اس نے کوئی پردہ نہیں ڈالا اور سردار کو باغ کی اصل حالت سے آگاہ کیا۔

زبیر کی باتوں کو سن کر سردار کو شدید جھٹکا لگا۔ اسے احساس ہوا کہ عامر کی میٹھی باتوں نے اسے دھوکے میں رکھا ہے اور حقیقت کو اس سے چھ0پایا ہے۔ اگرچہ عامر کی نیت بری نہیں تھی، وہ صرف سردار کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کی خوش بیانی نے سردار کو نقصان پہنچایا تھا۔ زبیر کی تلخ حقیقت نے سردار کو ہوش میں لا دیا۔ سردار نے فوراً اقدامات کیے، تجربہ کار مالیوں کو بلایا اور باغ کو بچانے کی کوشش کی۔

اس واقعے کے بعد سردار کو اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ الفاظ ہمیشہ بے ذائقہ ہوتے ہیں، ادا کرنے والے کا لب و لہجہ اِنہیں میٹھا یا کڑوا بنا دیتا ہے۔ عامر نے اپنے لب و لہجے سے الفاظ کو شیریں بنا کر حقیقت کو چھپایا، جبکہ زبیر نے کڑوے لب و لہجے سے سچائی کو بے نقاب کیا۔

اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ صرف میٹھے الفاظ یا کڑوے الفاظ اہم نہیں ہوتے، بلکہ ان الفاظ کا استعمال کس نیت اور کس انداز سے کیا جا رہا ہے، یہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کبھی کبھی کڑوی سچائی جو تلخ لہجے میں کہی جائے، وہ میٹھے جھوٹ سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے۔


اچھے لوگ کسی پر لعنت نہیں بھیجا کرتے ہیں

سورة الإنسان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *