جرم اور انسانی فطرت: ایک گہرا تجزیہ
انسانی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو جرم کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ہمارے ابتدائی آباؤ اجداد کے گروہوں میں بھی چوری، جھوٹ اور تشدد جیسے رویے ملتے ہیں، مگر تب ان کا بنیادی مقصد بقا تھا۔ جب زندگی داؤ پر ہوتی تھی، تو انسان کے پاس تین جبلّی راستے تھے: “لڑو، بھاگو یا دھوکہ دو۔”
اگر طاقتور ہوا تو مقابلے میں مار دیا۔
اگر کمزور ہوا تو جان بچانے کے لیے بھاگ گیا۔
اور اگر کچھ بھی نہ کر سکا، تو اپنی بقا کی خاطر دھوکہ دے دیا۔
یوں، جرم کا بیج بقا کے اس فطری محرک سے پھوٹا، لیکن جیسے جیسے معاشرتی ڈھانچے پیچیدہ ہوتے گئے، قوانین بنے اور اخلاقی اقدار نے جنم لیا، جرم صرف بقا کا ذریعہ نہیں رہا۔ یہ طاقت، انتقام، لالچ، اور شناخت کے حصول کا ایک نیا روپ دھار گیا۔
حیاتیاتی محرکات: جینز کا کردار
جدید سائنس بتاتی ہے کہ کچھ افراد جینیاتی طور پر دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں، خاص طور پر ان کے دماغ کے وہ حصے جو درج ذیل کو کنٹرول کرتے ہیں:
اِمپَلس کنٹرول (Impulse control)
اگریشَن (Aggression)
رسک ٹیکنگ (Risk taking)
ایموشنل ریگولیشن (Emotional regulation)
مثال کے طور پر، MAOA جین (جسے “واریر جین” بھی کہا جاتا ہے) میں اگر کوئی خامی یا تبدیلی (mutation) ہو، تو کچھ مطالعات کے مطابق جارحانہ (aggressive) اور سماج دشمن (antisocial) رویوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تاہم، یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ “جینیٹکس تقدیر نہیں ہوتی۔” یہ صرف ایک میلان ہے، حتمی انجام نہیں۔ ماحول اور تربیت ان جینز کو فعال یا غیر فعال کر سکتی ہے۔
سماجی اور نفسیاتی پہلو: غربت، ناانصافی اور بغاوت
اکثر جرائم کے پیچھے گہرے سماجی مسائل چھپے ہوتے ہیں جیسے:
سماجی ناہمواری
غربت
تعلیم کی کمی
والدین کی غفلت یا تشدد
بے روزگاری
جب انسان خود کو ناانصافی، بے بسی یا کمتر محسوس کرتا ہے، تو وہ جرم کو نہ صرف قانون توڑنا سمجھتا ہے بلکہ اسے بدلہ، اخلاقی بغاوت یا اپنی آواز بلند کرنے کا ایک ذریعہ بنا لیتا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں انصاف کا نظام سست ہے یا مالی اثر و رسوخ کے تحت کام کرتا ہے (جہاں امیر مجرم بچ جاتا ہے) اور غربت جرم کو مجبوری بنا دیتی ہے، وہاں جرم اکثر محض قانون شکنی کے بجائے ایک سماجی بغاوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
کچھ افراد antisocial personality disorder یا psychopathy جیسی ذہنی کیفیات کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کو اپنے افعال پر پچھتاوا نہیں ہوتا، وہ دوسروں کے احساسات کو نہیں سمجھتے، اور سچ و جھوٹ میں ان کے اپنے فائدے کے مطابق فرق ہوتا ہے۔ ان کی سوچ اخلاقیات کے بجائے صرف طاقت اور کنٹرول پر مبنی ہوتی ہے۔
قانون، انصاف اور “ہیرو” کا تصور
جب قانون خود ظالم بن جائے، اور انصاف صرف کسی خاص طبقے کی ملکیت ہو، تو جرم اکثر نظام کے خلاف ایک ردعمل بن جاتا ہے۔ پاکستانی تاریخ میں ایسے کئی کردار ملتے ہیں جنہیں ابتدا میں “مجرم” کہا گیا، مگر وقت کے ساتھ انہیں “ہیرو” کا درجہ ملا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ ان کے “جرائم” دراصل ایک ظالم اور غیر منصفانہ نظام کے خلاف مزاحمت کی علامت تھے۔
آخر میں، جرم صرف ایک سادہ فعل نہیں ہے۔ یہ ایک پیچیدہ نفسیاتی، جینیاتی، سماجی اور سیاسی امتزاج ہے جو انسانی فطرت، معاشرتی ڈھانچے اور انصاف کے نظام کی خامیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لینا ہو گا۔