امام حسین علیہ السلام کی شہادت

امام حسین علیہ السلام کی شہادت امام حسین علیہ السلام کی شہادت

امام حسین علیہ السلام کی شہادت

: کربلا کا لازوال واقعہ (قرآن و حدیث کی روشنی میں)

کربلا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا المناک اور عظیم الشان باب ہے جو انسانیت کو حق، سچائی، ظلم کے خلاف استقامت اور ایثار کا درس دیتا ہے۔ یہ محض ایک تاریخی حادثہ نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک عظیم قربانی ہے جو دینِ اسلام کی بقا اور اس کی اصل روح کو زندہ رکھنے کے لیے پیش کی گئی۔ یہ واقعہ 61 ہجری بمطابق 680 عیسوی میں عراق کے شہر کربلا میں پیش آیا، جہاں نواسۂ رسول، حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے اہل بیت اور چند جانثار ساتھیوں کے ہمراہ یزید بن معاویہ کے ظالمانہ اور غیر اسلامی اقتدار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

واقعہ کربلا کا پس منظر

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے اس وقت کے سیاسی اور سماجی حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اسلامی خلافت کا نظام قائم ہوا، جس میں خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کے مشورے سے ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم نے اس اصول پر خلافت کی۔ تاہم، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں جب انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین نامزد کیا، تو اسلامی تاریخ میں پہلی بار موروثی بادشاہت کی بنیاد رکھی گئی۔

یزید بن معاویہ ایک ایسا حکمران تھا جس کا کردار اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی تھا۔ وہ کھلے عام شراب نوشی، موسیقی اور دیگر فواحش میں ملوث رہتا تھا۔ اس کے دور میں اسلامی اقدار کو پامال کیا جا رہا تھا اور دین کی اصل روح کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام جو نبی کریم ﷺ کے نواسے تھے، امت کے صالحین اور اتقیاء میں سے تھے اور آپ پر امت کی اصلاح کی ذمہ داری تھی۔ آپ نے محسوس کیا کہ یزید کی بیعت دراصل دینِ اسلام کو مسخ کرنے کے مترادف ہو گی اور اگر آپ نے خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے محروم ہو جائیں گی۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ جدوجہد

امر بالمعروف و نہی عن المنکر: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

“وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ”

(سورہ آل عمران، آیت 104)

“اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔”

امام حسین علیہ السلام کا قیام اسی قرآنی حکم کی عملی تفسیر تھا۔ آپ نے اس وقت کے سب سے بڑے منکر یعنی یزید کی غیر اسلامی حکمرانی کے خلاف آواز اٹھائی۔

حدیث رسول ﷺ: نبی کریم ﷺ نے فرمایا

“جب تم کسی ظالم حکمران کو دیکھو کہ اللہ کی حدود کو توڑ رہا ہے، اللہ کے احکامات کو پامال کر رہا ہے، اللہ کے بندوں پر ظلم کر رہا ہے، تو تم میں سے جو کوئی اس ظالم کے خلاف کھڑا نہ ہو، تو اللہ کو حق ہے کہ اسے بھی اسی ظالم کے ساتھ محشور کرے۔”

(یہ حدیث مختلف کتب میں مختلف الفاظ سے ملتی ہے، مفہوم یہی ہے)

امام حسین علیہ السلام نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے ظلم کے خلاف قیام کیا۔

امام حسین علیہ السلام کا قیام اور کربلا کا سفر

جب یزید نے خلافت سنبھالی تو اس نے سب سے پہلے مدینہ کے والی کو امام حسین علیہ السلام، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عمر سے بیعت لینے کا حکم دیا۔ امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے دو ٹوک انکار کر دیا اور مکہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ مکہ میں چار ماہ قیام کے دوران، آپ تک کوفہ کے لوگوں کے بے شمار خطوط پہنچے، جن میں انہوں نے یزید کی حکومت سے بیزاری کا اظہار کیا تھا اور امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آ کر ان کی قیادت سنبھالنے کی دعوت دی تھی۔ کوفیوں نے یہ عہد بھی کیا تھا کہ وہ آپ کی نصرت کریں گے۔

امام حسین علیہ السلام نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ مسلم بن عقیل نے کوفہ سے خط لکھا کہ ہزاروں لوگ آپ کی بیعت کے لیے تیار ہیں اور کوفہ کا ماحول آپ کے لیے سازگار ہے۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے کوفہ کا سفر شروع کیا۔ تاہم، جب آپ کربلا کے قریب پہنچے تو آپ کو معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا ہے اور کوفیوں نے غداری کی ہے۔ اس کے باوجود، امام حسین علیہ السلام نے اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ سفر اب صرف کوفہ کی طرف نہیں بلکہ دین کی سربلندی کی طرف تھا۔

کربلا کا دلخراش منظر

2 محرم 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کربلا کے میدان میں پہنچا۔ یزیدی فوج، جس کی قیادت عمر بن سعد کر رہا تھا، نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور 7 محرم کو دریائے فرات سے پانی کی رسد مکمل طور پر بند کر دی۔ امام حسین علیہ السلام کے خیموں میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ تھا اور اہل بیت، خاص کر بچے، شدید پیاس کی تکلیف میں مبتلا تھے۔

قرآن و حدیث میں صبر و استقامت

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

“وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ”

(سورہ البقرہ، آیات 155-157)

“اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو، جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے نوازشیں اور رحمتیں ہیں، اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔”

امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے کربلا میں صبر و استقامت کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ بھوک، پیاس اور سامنے موت کے باوجود ان کے پایہ استقامت میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔

نبی کریم ﷺ کی پیش گوئی

کئی احادیث میں نبی کریم ﷺ نے حضرت حسین علیہ السلام کی شہادت کی پیش گوئی کی تھی اور ان پر ہونے والے ظلم پر افسوس کا اظہار فرمایا تھا۔

*ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ میں سرخ مٹی تھی، آپ اسے سونگھ رہے تھے اور رو رہے تھے۔ میں نے پوچھا: “یا رسول اللہ! یہ کیا ہے؟” آپ ﷺ نے فرمایا: “جبرائیل نے مجھے بتایا ہے کہ میرا بیٹا حسین عراق میں اس جگہ شہید کیا جائے گا جسے کربلا کہتے ہیں۔” (مفہوم حدیث، مختلف کتب میں موجود)

یوم عاشورہ کا معرکہ

10 محرم، یوم عاشورہ، تاریخ اسلام کا سب سے غمگین دن ثابت ہوا۔ صبح سویرے یزیدی لشکر نے حملہ کر دیا۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 تھی، جبکہ یزیدی فوج ہزاروں میں تھی۔ ایک ایک کر کے امام کے باوفا اصحاب اور اہل بیت میدان میں اترتے گئے اور بے مثال بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرماتے گئے۔

شہادتِ قاسم بن حسن، علی اکبر، حضرت عباس

امام حسین علیہ السلام نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھتیجوں، بھانجوں، بیٹوں اور بھائیوں کو شہید ہوتے دیکھا۔ کم سن قاسم بن حسن اور جوان علی اکبر نے دین کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کیں۔ علمدار کربلا، حضرت عباس علمدار، جو پانی لانے کی کوشش میں شہید ہوئے، ان کی شہادت صبر و ایثار کی ایک عظیم مثال ہے۔

شہادتِ علی اصغر

چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغر کو جب پیاس کی شدت سے نڈھال دیکھا تو امام حسین علیہ السلام نے انہیں لے کر یزیدی فوج سے پانی طلب کیا۔ ظالموں نے پانی دینے کے بجائے تیر برسایا جس سے علی اصغر نے امام کے ہاتھوں پر جام شہادت نوش فرمایا۔

امام حسین علیہ السلام کی شہادت

جب تمام ساتھی شہید ہو گئے تو امام حسین علیہ السلام نے خود میدان کا رخ کیا۔ آپ زخموں سے چور، پیاس سے نڈھال تھے، لیکن آپ کے چہرے پر عزم و ہمت کی روشنی تھی۔ آپ نے شجاعت اور دلیری سے لڑتے ہوئے ظالموں کو خوب سبق سکھایا۔ بالاخر، شمر ذی الجوشن نے آپ کا سر تن سے جدا کر دیا اور آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ آپ کا سر نیزے پر بلند کیا گیا اور اہل بیت کی خواتین اور بچوں کو قیدی بنا کر کوفہ اور پھر دمشق دربار یزید میں لے جایا گیا۔

شہادت کے اثرات اور پیغام

امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے اسلامی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس واقعے نے مسلمانوں کو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے، حق کا ساتھ دینے اور باطل کے سامنے سر نہ جھکانے کا درس دیا۔ یہ واقعہ صرف ایک تاریخی المیہ نہیں بلکہ ایک مستقل اخلاقی اور روحانی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔

دینِ اسلام کی بقا: امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی قربانی دے کر اسلام کے چہرے کو یزیدی فتنہ سے بچایا۔ آپ نے ثابت کیا کہ اسلام طاقت اور جبر کا نام نہیں بلکہ عدل، صداقت اور انسانیت کی سربلندی کا دین ہے۔

ظلم کے خلاف مزاحمت کا درس: کربلا نے انسانیت کو سکھایا کہ کسی بھی حال میں ظالم کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرنا چاہیے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔

ایثار و قربانی کی عظیم مثال: امام حسین علیہ السلام نے اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ہمراہ جس ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کیا، وہ آج بھی انسانیت کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔

شہادت کی فضیلت: قرآن و حدیث میں شہادت کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے ثابت کیا کہ حق کے راستے میں موت بھی زندگی کا سبب بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

“وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ”

(سورہ البقرہ، آیت 154)

“اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں، لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں ہے۔”

آج کے دور میں کربلا کا پیغام

آج بھی دنیا میں ظلم، ناانصافی اور فساد کا دور دورہ ہے۔ کربلا کا واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر دور میں امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حق کا ساتھ دینا اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا فرض ہے۔ ہمیں اپنے کردار و عمل سے دینِ اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنی چاہیے اور ہر اس عمل سے بچنا چاہیے جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو۔ کربلا کا پیغام صرف ماتم اور نوحہ خوانی تک محدود نہیں بلکہ یہ عمل، جدوجہد اور اصلاحِ امت کا پیغام ہے۔


فحاشی مردوں کے خلاف ایک خاموش جنگ ہے

سورة الفتح

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *