قصہ بےوقوف بستی کا

قصہ بےوقوف بستی کا   قصہ بےوقوف بستی کا  

قصہ بےوقوف بستی کا  

قصہ بےوقوف بستی کا  

پرانے زمانے کی بات ہے کسی ملک میں ایک بہت نیک اور سیدھی سادی بڑھیا رہتی تھی

.. اس کے دو بیٹے تھے بڑے بیٹے کا نام کریم تھا جو کاروبار کے سلسلے میں کہیں پردیس چلا گیا تھا 

 چھوٹے بیٹے کا نام اکبر تھا جو اس کے پاس رہتا تھا وہی اس کی دیکھ بھال کرتا تھا خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن اکبر بیمارپڑگیا بہت علاج کرایا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا اورآخر کار وہ اللہ کو پیارا ہو گیا ۔۔

 بڑھیا بیچاری پرغم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اب اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا اس نے اپنے پردیسی بیٹے کریم کو ایک خط لکها اوراپنی حالت اوراکبر کی موت کی خبر بھیجوائی اور کریم کی طرف سے کوئی  جواب نہ آتا ایک دن ایک مسافراس بڑھیا کے پاس آیا،، اوربولا دادی اماں میں بہت دورسے آیا ہوں تھک کرچورچورہوچکا ہوں اوپرسے رات بھی ہونے کو ہے اگراجازت دو تو یہ رات میں آپ ہی کے گھر میں ٹھہرجاؤ؟ بڑھیا بولی اجاؤ بیٹا کیا حرج ہے رات ہی تو رہنا ہے کون سا گھر اٹھا کر لے جاؤ گے ویسے کہاں سے ائے ہو تم ؟

 اس مسافر نے جواب دیا 

میں کسی دوسری دنیا سے آرہا ہوں دادی ماں نے اس کی بات کو نہ سمجھ سکی لیکن بڑھیا بیچاری جو بہت ہی سادہ تھی اوراس کے دل ودماغ پربیٹے کی موت کا اثر تھا اس لیے وہ غور سے اس مسافر کو دیکھنے لگی کیونکہ اپنے دل کو سمجھانے کے لیے وہ بھی اکثر یہی کہا کرتی تھی کہ اس کا بیٹا اب دوسری دنیا میں چلا گیا ہے مسافر کی زبان سے دوسری دنیا کا نام سن کر فورا اسے اپنے مرحوم بیٹے کی یاد اگئی اورایک دم ابھرکربولی بیٹا کیا تم سچی دوسری دنیا سے آرہے ہو میرا بیٹا اکبر بھی پچھلے ہی مہینے دوسری دنیا میں چلا گیا ،، کیا وہ بھی تم سے کبھی ملا ہے مسافرجونہایت ہی چالاک تھا وہ بڑھیا کی سادگی کو بھانپ گیا اور بولا او وہ وہ اکبر آپ کا بیٹا ہے دادی ماں میں تواسے اچھی طرح جانتا ہوں میں اوروہ ایک ہی کوٹھڑی میں رہتے تھے بہت اچھا لڑکا ہے اکبرمیا۔۔۔

 بڑھیا مسافر کے اوربھی قریب اکر بیٹھ گئے اورحسرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی کیسا ہے میرا اکبر کیا کرتا ہے وہاں،، مسافر بولا کچھ خاص اچھا نہیں ہے ابھی تو اسے کوئی ڈھنگ کا کام بھی نہیں ملا بیچارہ بکریاں چرایا کرتا ہے۔۔

 بڑھیا نے بہت دکھی ہو کر کہا ہائے ہائے غضب ہو گیا میرا بیٹا بکریاں چراتا ہے بیچارہ مارا مارا چراگاہوں میں پھرتا ہوگا وہاں بھی آرام نصیب نہیں ہوا بیچارے کو، بڑھیا کے دکھ میں اور بھی اضافہ کرنے کے لیے مسافر نے کہا بالکل اماں،، بےچارا سرجھاڑ منہ پھاڑ مارا مارا پھرتا ہے کپڑے بھی تارتارہو گئے ہیں  یہ سن کربڑھیا کا دل بھرآیا اس نے اس مسافر سے پوچھا تم کب واپس جاؤ گے بیٹا ؟ مسافر نے جواب دیا ماں جی پرسوں مجھے وہاں پہنچنا ہے بڑھیا کہنے لگی تو پھر میرا ایک کام کر دو بیٹا میرے پاس 40 گز کپڑے کا ایک تھان رکھا ہے تم وہ تھان اور کچھ روپے میرے اکبر کو دے دینا اوراس کے ساتھ 50 روپے نقد بھی دیتی ہوں مسافرنے رات بڑے آرام سے گزاری اور صبح ہوتے ہی صفایہ کر کے چلتا بنا۔۔ اس کا بڑا بیٹا بھی پردیس سے لوٹ آیا، آتے ہی پہلے تو ماں بیٹا دونوں ایک دوسرے سے گلے مل کرخوب روئے پھراکبر کی اچانک موت پر افسوس کا اظہار کیا ایک دن باتوں باتوں میں ماں نے اپنے بیٹے کو بتایا جب تم نہیں آئے تھے تو دوسری دنیا سے ایک آدمی آیا تھا۔۔ اس نے تمہارے بھائی اکبر کے بارے میں مجھے سب کچھ بتایا دوسری دنیا میں وہ آدمی اور اکبر ایک ہی کوٹھڑی میں رہتے ہیں ۔۔ 

 بتا رہا تھا کہ اکبرابھی تک تو بکریاں ہی چرآتا ہے بیچارے کے کپڑے بھی پھٹ گئے ہیں میں نے ایک تھان کپڑا اور 50 روپے نقد فضلو کے لیے اس کے ہاتھ بھیج دیے ہیں بڑھیا کی یہ باتیں سن کر بدلو چونک پڑا گھاٹ گھاٹ پانی پی لیا وہ اب اتنا سیدھا نہیں رہا تھا اب وہ  بھی ایسی چالبازیوں کو خوب سمجھنے لگا تھا ، چنانچہ وہ بولا اماں تم واقعی بہت سیدھی ہو، بھلا دوسری دنیا سے بھی کوئی واپس آتا ہے تم زمانے کے ہیر پھیر نہیں سمجھتی۔۔

 کریم کو اپنی ماں کی سادگی اورمسافر کی چالاکی پرغصہ آرہا تھا وہ اپنی ماں کو سادہ اور بیوقوف سمجھ رہا تھا پھر کچھ سوچ کربولا،، اچھا اماں تم آرام سے گھر میں رہو اورمیں کسی کام سے جا رہا ہوں کریم نے دل میں سوچا کہ نہ کی سیرمیں چلتا جاؤں گا اوراس وقت تک چلتا رہوں گا جب تک مجھے کوئی اپنی ماں سے زیادہ سیدھا اوربے وقوف نہیں مل جاتا اور پھر جب تک اس نقصان کو پورا نہ کر لوں گھرواپس نہیں لوٹوں گا۔۔

 یہ سوچ کروہ ناک کی سید میں چل دیا دل ہی دل میں وہ کچھ منصوبے بناتا چلا جارہا تھا دورسے ہی اسے ایک گاؤں دکھائی دیا وہ سیدھا اسی گاؤں کی طرف چلتا گیا بستی سے باہرجب وہ ایک زمیندار کی حویلی کے پاس پہنچا تو رک گیا دیکھا کہ خوب موٹی تازی بکری بندھی ہوئی ہے ، وہاں سے اس کے تین خوبصورت میمنے بیٹھے ہیں،، کریم بھی وہیں گھٹنے ٹیک کر زمین پر بیٹھ گیا اور بکری کو جھک جھک کر سلام کرنے لگا کمرے کی کھڑکی سے زمیندار کی بیوی یہ سارا تماشہ دیکھ رہی تھی اس نے نوکرانی کو بلا کر کہا ذرا باہر جا کر دیکھو کہ وہ ادمی ہماری بکری کو اس طرح چپ چپ کر سلام کیوں کر رہا ہے نوکرانی نے جا کر پوچھا ،، اے بھلے آدمی یہ ہماری بکری تمہاری کیا لگتی ہے جو تم اسے اس طرح سلام کرتے جا رہے ہو۔ 

کریم  نے جواب دیا ،، اے بی بی اسی کی تلاش میں تو میں مارا مارا پھر رہا تھا جسے تم بکری سمجھتی ہو وہی تو میری بیوی کی رشتہ دار ہے کل میرے لڑکے کی شادی ہے سبھی رشتہ داروں کو دعوت دی جاچکی ہے صرف اسی کا ایک پتہ نہیں چلتا تھا میں اسے ابھی شادی میں آنے کے لیے دعوت دینے آیا ہوں اگر مالکن صاحبہ اجازت دے دیں تو میری اور میری بیوی کی طرف سے گزارش ہے کہ یہ بھی اپنے بال بچوں سمیت شادی کی رونق بڑھانے کے لیے تشریف لائے،،  نوکرانی نے جا کر مالکن کو بتایا تو وہ دونوں خوب ہنسی کہ یہ شخص بھی کتنا بے وقوف ہے ۔۔

جو ایک بکری جیسے جانور کو اپنی بیوی کی رشتہ دارسمجھتا ہے اور ساتھ اپنے بڑے لڑکے کی شادی پرمدعو کررہا ہے اچھا ہوگا کہ اسے اوربھی بے وقوف بنایا جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی اس کی بے وقوفی پر ہنسیں ،، مالکن نے فورا نوکرانی کے ذریعےبول بھیجا کہ اگر یہ اس کی رشتہ دار ہے تو اس کے رشتہ داروں کو شادی میں شرکت کرنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر اس بیچاری کو تمہارا گھر ڈھونڈنے میں دقت ہوگی اس لیے بہتر ہوگا کہ تم اسے بھی اپنے ساتھ لیتے جاؤ مالکن نے نوکرانی کو حکم دیا کہ ہماری بکری سائبہ اپنے رشتہ داروں کی شادی میں تشریف لے جا رہی ہیں،، انہیں خوب سجا دو سردی بہت زیادہ ہے میرا وہ روئی دار کوٹ بھی انہیں پہنا دو اسی طرح اس کے بچوں کو بھی اچھی طرح سے سجا دو اور سنو باہر جو گاڑی کھڑی ہے اس میں دو گھوڑے اور جتوا  دو اخر اس کے رشتہ دار کی شادی کوئی روز روز تھوڑی ہوتی ہے ذرا ٹھاٹ سے سوار ہو کر جائے گی چنانچہ مالکن اور اس کی نوکرانی نے بکری اور اس کے میمنوں کو خوب سجایا اور گاڑی میں دو گھوڑے جتوا کر بکری اور اس کے بچوں کو بڑی شان سے گاڑی میں بٹھایا اور لگام کریم کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا بھائی نوکر تو گھر پر نہیں ہے ہمت کر کے اپ خود ہی چلا لو لیکن گاڑی ذرا دھیرے سے چلانا ایسا نہ ہو کہ ہماری بکری صاحبہ یا اس کے بچوں میں سے کسی کو چوٹ لگ جائے اچھا الودا بکری صاحبہ۔۔

 کریم نے جواب دیا اپ کا شکریہ،  دو گھوڑوں کی گاڑی میں سجی ہوئی بکری یوں ودا ہو رہی تھی جیسے کوئی دلہن اپنے میکے سے ودا ہوتی ہے اور کریم اس ٹھاٹ سے گاڑی ہانک رہا تھا کہ جیسے کوئی دلہن کو لیے جا رہا ہو،،  یہ تماشہ دیکھ کر مالکن اور اس کی نوکرانی کے ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ گئے جب تک گاڑی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگی ان کی ہنسی  رکنے کا نام نہ لیا تھوڑی دیر بعد زمیندار بھی گھر پہنچا تو بیوی کو بہت خوش پایا ، دراصل وہ سوچ رہی تھی کہ جب وہ میاں کو اس شخص کی بے وقوفی کا قصہ سنائے گی تو وہ بے حد خوش ہوگا۔۔ قصہ شروع کرنے سے پہلے مالکن نے جب نوکرانی کی طرف دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر بھی وہی شرارت بھری مسکراہٹ کھیل رہی تھی پھر کیا تھا مالکن قہقہ لگا لگا کر ہنسنے لگی ‘ مارے ہنسی کے اس کا برا حال تھا اس کی ہنسی جب ذرا دھیمی پڑی تو زمیندار نے پوچھا کہ اخر بات کیا ہے میں بھی تو سنوں بیوی نے کہا اجی پوچھو مت ۔۔

اج تو کمال ہی ہو گیا کتنا مزہ ارہا تھا تم نے تو دیکھا ہی نہیں کہ کیسے ایک عجیب و غریب بے وقوف یہاں ایا تھا اور گھٹنے ٹیک ٹیک کر ہماری بکری کے سامنے بہت دیر تک ایسے جھکا رہا جیسے کوئی عقیدت مند اپنے روٹھے ہوئے پیر کو مناتا ہے وہ بار بار اسے جھک جھک کر سلام کر رہا تھا پوچھنے پر بولا کہ یہ بکری صاحبہ اس کی بیوی کی رشتہ دار ہے اور وہ اسے اپنے لڑکے کی شادی میں شرکت کی دعوت دینے ایا ہے یہ کہتے کہتے بیوی تو ہنسی چلی جا رہی تھی مگر زمیندار کو غصہ ارہا تھا زمیندار نے کہا ہاں ہاں میں سمجھ گیا تم نے کیا کیا ہوگا ‘ تم نے بکری اور اس کے میمنوں کو اس عجیب ادمی کے حوالے کر دیا ہوگا یہی کیا ہے نا تم نے؟

 مالکن بولی بالکل یہی تو کیا ہے ہم نے بلکہ اسے اور زیادہ بے وقوف بنانے کے لیے بکری کو خوب سجایا اور اسے اپنا روئی دار لال کوٹ بھی پہنا دیا اسی طرح اس کے بچوں کو بھی سجا کر دو گھوڑے والی بگی میں بھیجا ہے تم بھی ذرا دیکھتے تو مزہ اجاتا کسے ڈھاٹ کے ساتھ اپنے رشتہ دار کے ساتھ جا رہی تھی بکری صاحبہ۔۔

 زمیندار بولا بس بس رہنے دو کیا اس کے رشتہ دار کا بھی کچھ عطا پتہ پوچھا تم نے ؟ بیوی نے جواب دیا نہیں یہ تو ہم نے پوچھا ہی نہیں زمیندار بولا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوف وہ نہیں تھا بلکہ وہ تم سب کو بے وقوف بنا گیا ہے زمیندار کو اپنی بیوی پر بہت غصہ ارہا تھا کدھر گیا ہے وہ’’  زمیندار نے جلدی سے پوچھا بیوی نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا ادھر کو زمیندار نے فورا اپنا گھوڑا تیار کیا اور اس کا پیچھا کرنے لگا ۔

کریم کو پہلے ہی شبہ تھا کہ اگر زمیندار کو پتہ چل گیا تو وہ ضرور اس کا پیچھا کرے گا رفتہ رفتہ اسے محسوس ہونے لگا جیسے کوئی شخص اس کا پیچھا کر رہا ہو اس نے اپنے گھوڑوں کا رخ ایک گھنے جنگل کی طرف موڑ دیا گھوڑوں اور گاڑی کو جھاڑیوں کی اوٹ میں کھڑا کر کے خود جنگل سے باہر ایا اور اپنی ٹوپی اتار کر زمین پر بیٹھ گیا اتنے میں زمیندار بھی ادھر سے  نکلا اس نے کریم سے پوچھا،  او بھائی ٹوپی والے ، ادھر تم نے کسی کو دو کوڑوں کی گاڑی میں جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے؟ 

کریم نے جواب دیا جی ہاں دیکھا تو تھا حضور اس گھوڑے گاڑی میں ایک بکری اور اس کے تین بچے بھی سوار تھے مگر اسے نکلے ہوئےتو کافی دیر ہو چکی ہے۔۔

 زمیندار بولا کس طرف کو گیا ہے  ، مجھے اس کو پکڑنا ہے کریم نے پوچھا کیا اپ اس راستے کو اچھی طرح جانتے ہیں ؟ اگر نہیں جانتے تو اسے پکڑنا بہت مشکل ہے اس راستے میں کئی موڑ اتے ہیں راستے سے راستہ نکلتا چلا جاتا ہے ایسا نہ ہو کہ اپ خود بھی بھٹک جائیں زمیندار نے اس کی خوشامد کرتے ہوئے کہا  ، ارے بھائی اگر یہ بات ہے تو تم میری مدد کرو اسے پکڑنا بہت ضروری ہے  ۔۔

اجاؤ میرے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ جاؤ۔۔

 کریم نے کہا نہیں حضور میں نہیں جا سکوں گا میری اس ٹوپی کے نیچے ایک شکرا بیٹھا ہے میں اسی کی نگرانی کر رہا ہوں (شکرا ایک باز جیسے پرندے کو کہتے ہیں) زمیندار نے کہا انکار نہ کرو میرے اچھے بھائی ، یہ گھوڑا لو اور تم ہی چلے جاؤ تمہارے اس شکرے کی نگرانی میں کروں گا کریم نے زور دیتے ہوئے کہا تو خیال رکھنا کہیں ایک اڑ نہ جائے بہت ہی قیمتی شکرا ہے یہ کہیں کھو گیا تو میرا مالک مجھے کو نہیں چھوڑے گا ۔۔

اسی لیے تو میں نہ جانے کی ضد کر رہا ہوں زمیندار نے پوچھا ویسے کیا دام ہوں گے اس شکرے کے ،،  کریم نے جواب دیا یہی کوئی 500 روپے کا ہوگا زمیندار نے تسلی دیتے ہوئے کہا تو پھر پرواہ مت کرو اگر یہ کھو گیا تو اتنی رقم میں تمہیں ادا کروں گا بدلو نے بات بنتے ہوئے دیکھ کر کہا نہیں سرکار زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا مجھے اپنے مالک سے بہت ڈر لگتا ہے زمیندار نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور رقم کریم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ،، اگر میری زبان پر اعتماد نہیں تو یہ 500 روپے ضمانت رکھ لو کریم نے روپے لے کر جیب میں ڈالے اور اسی کے گھوڑے پر سوار ہو کر چلتا بنا اور زمیندار صاحب خالی ٹوپی کی پہریداری کرتے رہے انتظار کرتے کرتے گھنٹوں بیت گئے لیکن کریم واپس نہ لوٹا انتظار کی گھڑیاں لمبی ہوتے دیکھ کر زمیندار اکتا گیا سوچا کہ ٹوپی کے نیچے تو دیکھیں کہ کچھ ہے بھی یا نہیں اگر نہیں ہے تو بیکار کا انتظار کرنے سے کیا فائدہ اس نے ٹوپی کو دھیرے دھیرے اٹھانا شروع کیا دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا زمیندار سمجھ گیا کہ یہ وہی شخص تھا جس نے میری بیوی کو بھی بے وقوف بنایا تھا زمیندار نے نفرت سے زمین پر تھوکا اور گھر کی طرف چل دیا دوسری طرف کریم بھی تین خوبصورت گھوڑے ایک بگی اور تین ننھے ننھے بچوں والی صحت مند بکری لے کر گھر پہنچ چکا تھا جاتے ہی اپنی ماں سے بولا اماں اب میں ہمیشہ تمہارے پاس رہوں گا میں تو سمجھتا تھا کہ ایک تم ہی سیدھی سادی ہوگی  لیکن دیکھا تو دنیا میں تم سے بھی زیادہ سیدھے سادے لوگ موجود ہیں 

  

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *