احسان فراموشی

احسان فراموشی: انسانیت کا ناسور احسان فراموشی: انسانیت کا ناسور

احسان فراموشی

: انسانیت کا ناسور

احسان فراموشی، جسے عربی میں “کفران نعمت” اور انگریزی میں “ingratitude” کہا جاتا ہے، انسانیت کے بنیادی اوصاف میں سے ایک ہے جس کا تعلق قدر شناسی سے ہے۔ یہ ایک ایسی اخلاقی کمزوری ہے جو انسان کو شکر گزاری اور وفا کے اعلیٰ درجے سے گرا کر پستی میں دھکیل دیتی ہے۔ احسان فراموشی کا مطلب ہے کسی کے کیے گئے بھلے اور نیکی کو فراموش کر دینا یا اس کی قدر نہ کرنا۔ یہ رویہ نہ صرف احسان کرنے والے کے دل کو دکھاتا ہے بلکہ احسان فراموش کرنے والے کی شخصیت کو بھی داغدار کرتا ہے۔

احسان فراموشی کی تعریف اور اس کی نوعیت

احسان فراموشی کا سادہ ترین مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے کے لیے بھلائی، مدد، یا کوئی مثبت کام کرتا ہے، اور اس کے جواب میں جسے مدد ملی ہے وہ اس احسان کو تسلیم نہ کرے، اس کا شکریہ ادا نہ کرے، یا اس کے بدلے میں نقصان پہنچائے تو اسے احسان فراموشی کہتے ہیں۔ یہ صرف مادی مدد تک محدود نہیں بلکہ جذباتی سہارا، تعلیم، وقت، یا کسی بھی قسم کی قربانی شامل ہے۔ احسان فراموشی کی نوعیت بہت وسیع ہے؛ یہ کبھی لاشعوری طور پر بھی ہو سکتی ہے جب انسان صرف اپنے مفادات پر غور کرتا ہے اور دوسروں کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ لیکن زیادہ تر صورتوں میں یہ ایک شعوری عمل ہوتا ہے جہاں فرد جان بوجھ کر کسی کے احسان کو بھلا دیتا ہے تاکہ اسے اپنی ذات کے لیے کوئی ذمہ داری محسوس نہ ہو۔

تاریخی اور سماجی پس منظر

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ احسان فراموشی کا رجحان ہر دور اور ہر معاشرے میں پایا گیا ہے۔ قدیم داستانوں سے لے کر جدید دور کے واقعات تک، ہمیں ایسے کئی قصے ملتے ہیں جہاں کسی نے اپنے محسن کے ساتھ احسان فراموشی کا سلوک کیا۔ مذہبی تعلیمات میں بھی احسان فراموشی کو ایک بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اسلام میں شکر گزاری کی اہمیت پر بار بار زور دیا گیا ہے، اور ناشکری کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کے مترادف سمجھا گیا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسان کو نہ صرف اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے بلکہ ان لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے اس پر کوئی احسان کیا ہو۔ اسی طرح دیگر مذاہب بھی احسان فراموشی کو ایک اخلاقی برائی گردانتے ہیں۔

سماجی سطح پر، احسان فراموشی رشتوں میں دراڑیں پیدا کرتی ہے اور اعتماد کی بنیاد کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ جب کوئی شخص کسی کے ساتھ احسان فراموشی کا رویہ اختیار کرتا ہے، تو وہ نہ صرف اس شخص کا دل توڑتا ہے جس نے احسان کیا تھا بلکہ معاشرے میں بے اعتمادی کا ماحول بھی پیدا کرتا ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

احسان فراموشی کی وجوہات

احسان فراموشی کے پیچھے کئی نفسیاتی اور سماجی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں

  خودغرضی اور مفاد پرستی: یہ احسان فراموشی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جب انسان صرف اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتا ہے تو اسے دوسروں کی نیکیوں اور قربانیوں کی کوئی پرواہ نہیں رہتی۔ جب تک اسے کسی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس کا احسان مند رہتا ہے، لیکن جب اس کا مطلب پورا ہو جاتا ہے تو وہ اسے بھلا دیتا ہے۔

  حسد اور بغض: بعض اوقات انسان اپنے محسن سے حسد کرنے لگتا ہے، خاص طور پر اگر محسن کامیاب ہو جائے۔ یہ حسد احسان فراموشی میں بدل جاتا ہے، کیونکہ احسان فراموش شخص محسن کی ترقی کو برداشت نہیں کر پاتا۔

  تکبر اور غرور: متکبر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، یا جو مدد اسے ملی ہے وہ اس کا حق تھا۔ ایسے لوگ احسان کو تسلیم کرنے میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔

  ذہانت کی کمی اور بصیرت کا فقدان: بعض لوگ حقیقت میں احسان کی گہرائی اور اس کے اثرات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان کی فکری بصیرت اتنی گہری نہیں ہوتی کہ وہ کسی کی قربانی کو صحیح معنوں میں سراہ سکیں۔

  ناشکری کی عادت: کچھ لوگوں کی فطرت میں ہی ناشکری شامل ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی نعمت یا احسان کی قدر نہیں کرتے، خواہ وہ خدا کی طرف سے ہو یا کسی بندے کی طرف سے۔

  خوف اور عدم تحفظ کا احساس: بعض اوقات لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کسی کا احسان مانیں گے تو انہیں اس کے تابع رہنا پڑے گا یا اس کے سامنے جھکنا پڑے گا۔ یہ خوف انہیں احسان فراموشی پر مجبور کرتا ہے۔

احسان فراموشی کے نتائج

احسان فراموشی کے نہ صرف احسان کرنے والے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ احسان فراموش کرنے والے کی زندگی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے:

  احسان کرنے والے پر اثرات

  دلی دکھ اور مایوسی: احسان کرنے والے کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ اس کی نیکی کو بھلا دیا گیا۔ یہ اس کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتا ہے اور وہ آئندہ کسی کی مدد کرنے سے کتراتا ہے۔

  اعتماد کا فقدان: یہ رویہ دوسروں پر سے اس کا اعتماد ختم کر دیتا ہے، جس سے اس کے سماجی تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔

  احسان فراموش کرنے والے پر اثرات

  تنہائی اور بے اعتباری: احسان فراموش شخص کو معاشرے میں تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگ اس پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔

  ذہن کا سکون برباد ہونا: احسان فراموشی ایک اندرونی بوجھ پیدا کرتی ہے۔ شخص ہمیشہ ایک قسم کے احساسِ جرم یا ناامیدی کا شکار رہتا ہے، اگرچہ وہ اسے تسلیم نہ کرے۔

  اخلاقی پستی: یہ رویہ انسان کو اخلاقی طور پر گرا دیتا ہے اور اس کے کردار میں کمزوریاں پیدا کرتا ہے۔

  خدا کی ناراضگی: مذہبی نقطہ نظر سے، احسان فراموشی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور دوسروں کے احسانات کی ناشکری کے مترادف ہے، جس سے اللہ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

حکایتیں اور واقعات

احسان فراموشی کی بدترین مثالیں ہمیں انسانی تاریخ میں کثرت سے ملتی ہیں، خواہ وہ حقیقی زندگی کے واقعات ہوں یا ادبی حکایتیں۔

  شیر اور چوہے کی حکایت

ایک مشہور حکایت ہے کہ ایک شیر جنگل میں سو رہا تھا کہ ایک چھوٹا چوہا اس پر چڑھ کر اچھل کود کرنے لگا۔ شیر کی نیند خراب ہوئی اور اس نے غصے میں چوہے کو دبوچ لیا، مارنے ہی والا تھا کہ چوہے نے التجا کی کہ “جنگل کے بادشاہ، مجھے معاف کر دو۔ ہو سکتا ہے کسی دن میں تمہارے کام آؤں۔” شیر ہنسا کہ اتنا چھوٹا سا چوہا میرے کیا کام آئے گا، لیکن اس کی معافی کی درخواست پر اسے چھوڑ دیا۔ کچھ دن بعد شیر ایک شکاری کے جال میں پھنس گیا اور اپنی پوری طاقت کے باوجود جال توڑ نہ سکا۔ اس کی دھاڑیں سن کر وہی چوہا وہاں آیا اور تیزی سے جال کے دھاگے کترنا شروع کر دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شیر آزاد ہو گیا۔ شیر نے چوہے کا شکریہ ادا کیا اور اس کے احسان کو تسلیم کیا۔ یہ کہانی احسان شناسی کی بہترین مثال ہے، لیکن اگر چوہا احسان فراموش ہوتا اور شیر کی مدد نہ کرتا، تو یہ ایک احسان فراموشی کا بدترین نمونہ ہوتا۔

  استاد اور شاگرد کا واقعہ

ایک قدیم روایت کے مطابق، ایک ذہین مگر غریب شاگرد تھا جسے ایک رحم دل استاد نے اپنی سرپرستی میں لیا۔ استاد نے اسے علم سکھایا، اس کے کھانے پینے کا بندوبست کیا اور اسے تمام اخراجات سے آزاد کر دیا۔ سالوں کی محنت کے بعد وہ شاگرد ایک بڑا عالم بن گیا۔ جب وہ کامیاب ہو گیا تو اس نے اپنے استاد کو بھول بھلا دیا اور ان سے تعلق منقطع کر لیا۔ جب استاد بوڑھے اور ناتواں ہوئے اور انہیں مدد کی ضرورت پڑی تو انہوں نے اپنے شاگرد سے رابطہ کیا، لیکن شاگرد نے انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا اور ان کا کوئی احسان تسلیم نہ کیا۔ یہ ایک کلاسیکی مثال ہے جہاں ایک شاگرد نے اپنے محسن استاد کے احسانات کو فراموش کر دیا۔ ایسے واقعات معاشرے میں دل آزاری اور بے اعتمادی کا باعث بنتے ہیں۔

  مشہور قصہ ‘نمرود اور مچھر’

ایک روایتی قصہ ہے جس میں احسان فراموشی اور تکبر کی انتہا کو بیان کیا گیا ہے۔ نمرود ایک بادشاہ تھا جو خود کو خدا مانتا تھا اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتا تھا۔ اس نے حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ دشمنی کی اور خود کو سب سے بڑا طاقتور سمجھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک حقیر مچھر مسلط کر دیا۔ وہ مچھر اس کی ناک میں داخل ہو گیا اور اسے اتنا تنگ کیا کہ اس کی زندگی اجیرن کر دی۔ نمرود مچھر کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوا۔ اس کہانی میں نمرود کی احسان فراموشی اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کا انجام دکھایا گیا ہے۔ انسان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی طاقت اور وجود کسی اور کے احسان کے مرہون منت ہیں۔

  جدید دور کے واقعات

آج کے دور میں بھی ایسی مثالیں عام ہیں۔ ایک شخص اپنے قریبی دوست کی مالی مدد کرتا ہے، اسے کاروبار شروع کرنے کے لیے قرض دیتا ہے، یا اسے مشکل وقت میں پناہ دیتا ہے۔ جب دوست کا وقت اچھا آتا ہے اور وہ مالی طور پر مستحکم ہو جاتا ہے، تو وہ اپنے محسن کو بھول جاتا ہے، قرض واپس نہیں کرتا اور اس سے کترانے لگتا ہے۔ یہ نہ صرف دوستی کے رشتے کو تباہ کرتا ہے بلکہ مدد کرنے والے کے دل میں بھی تلخی پیدا کرتا ہے کہ اس نے کس کو مدد فراہم کی۔ کارپوریشنز میں بھی یہ رجحان دیکھا جاتا ہے، جہاں ایک ملازم کو اس کے سینئر نے تربیت دی اور اسے ترقی دلائی، لیکن جب وہ ملازم ایک اونچے عہدے پر پہنچ جاتا ہے تو اپنے سابق سینئر کو نظر انداز کر دیتا ہے یا اس کے احسانات کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔

احسان فراموشی سے بچاؤ اور اس کا علاج

احسان فراموشی ایک قابل علاج بیماری ہے۔ اگر کوئی شخص اس بری عادت سے چھٹکارا پانا چاہے تو وہ ان طریقوں پر عمل کر سکتا ہے:

  شکر گزاری کی عادت: شکر گزاری کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ ہر چھوٹی اور بڑی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کریں اور ہر اس شخص کا شکریہ ادا کریں جس نے آپ پر کوئی احسان کیا۔ شکر گزاری کی عادت انسان کے دل کو وسیع کرتی ہے۔

  عاجزی و انکساری: تکبر اور غرور سے بچیں۔ یہ سمجھیں کہ کوئی بھی شخص مکمل طور پر خود کفیل نہیں ہوتا اور ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر دوسروں کی مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

  خود احتسابی: اپنی غلطیوں پر غور کریں اور خود کو پہچانیں۔ جب آپ کو احساس ہو کہ آپ نے کسی کا احسان بھلا دیا ہے، تو فوراً معافی مانگیں اور اس احسان کا بدلہ ادا کرنے کی کوشش کریں۔

  احسان کا بدلہ: احسان کا بدلہ فوراً ادا کرنے کی کوشش کریں، اگر مادی طور پر ممکن نہ ہو تو کم از کم الفاظ میں شکریہ ضرور ادا کریں۔ “شکریہ” کے الفاظ بظاہر چھوٹے لگتے ہیں لیکن ان میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔

 خاندان اور تعلیمی اداروں کا کردار: بچوں کو شروع سے ہی احسان شناسی اور شکر گزاری کی تعلیم دینی چاہیے۔ والدین اور اساتذہ کو انہیں یہ سکھانا چاہیے کہ دوسروں کی نیکیوں کو کیسے سراہا جائے۔

 مثبت سوچ کی ترویج: معاشرے میں مثبت سوچ کو فروغ دیا جائے جہاں ایک دوسرے کی مدد اور احترام کو اہمیت دی جائے۔

نتیجہ

احسان فراموشی ایک ایسا زہر ہے جو رشتوں کو ختم کرتا ہے اور معاشرتی اقدار کو تباہ کرتا ہے۔ یہ انسانیت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس سے بچنے کے لیے ہمیں شکر گزاری، عاجزی، اور مثبت رویوں کو اپنانا ہوگا۔ یاد رکھیں، احسان ماننا نہ صرف اخلاقی فرض ہے بلکہ روحانی بالیدگی کا بھی ذریعہ ہے۔ ایک احسان مند معاشرہ ہی ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور محبت و تعاون کے ساتھ زندگی گزاریں۔ احسان فراموشی سے نجات حاصل کر کے ہی ہم ایک بہتر، پرامن اور محبت بھرا معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔


غربت: ایک تلخ حقیقت اور پوری انسانیت کا المیہ

سورة سبأ مكتوبة كاملة بالتشكيل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *