نکاح کا پرانا انداز

نکاح کا پرانا انداز نکاح کا پرانا انداز

نکاح کا پرانا انداز

: جب “استخارے” کا بہانہ نیا نہیں تھا

تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسانی فطرت اور سماجی رویے بعض اوقات ہزاروں سال پرانے ہونے کے باوجود آج بھی ویسے ہی رہتے ہیں۔ خاص طور پر جب بات رشتے ناتوں کی آئے، تو انکار کرنے کے طریقے بھی عجیب و غریب اور دلچسپ رہے ہیں۔ آج ہم جس واقعے کا ذکر کرنے والے ہیں، وہ محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک ایسی مثال ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ “استخارے کا بہانہ” یا “سوچ بچار کا وقت چاہیے” جیسے جملے آج سے نہیں بلکہ تابعین کے دور سے رائج ہیں۔

یہ روایت ہے معبد بن خالد الجدلی کی، جو ایک جلیل القدر تابعی اور محدث تھے۔ ان کا تعلق عرب کے قدیم اور مشہور قبیلے سے تھا۔ ان کے زمانے میں آج کی طرح رشتے دیکھنے کے لیے باقاعدہ انتظامات ہوتے تھے، لیکن کچھ رسوم و رواج قدرے مختلف تھے۔ لڑکی اور لڑکے کے درمیان پردہ ہوتا تھا، جس سے انہیں ایک دوسرے کو دیکھنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملتا تھا۔ یہ ایک طرح کا پہلا تعارف تھا جہاں دونوں فریق ایک دوسرے کو جانچتے تھے۔

بنو اسد کی شیرنی

معبد بن خالد نے ایک مرتبہ بنو اسد قبیلے کی ایک خاتون کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ بنو اسد ایک طاقتور اور مشہور قبیلہ تھا، اور “اسد” کا مطلب شیر ہوتا ہے، تو ان کے نام میں ہی ایک رعب اور دبدبہ تھا۔ یہ بات بذات خود ایک دلچسپ اشارہ تھا جو آنے والے واقعے کی بنیاد بننے والا تھا۔

معبد جب اس خاتون کو دیکھنے گئے تو ان کے درمیان ایک پردہ حائل تھا۔ کھانے کا وقت ہوا تو ایک خادمہ ایک بڑا برتن لے کر آئی جو لذیذ کھانوں سے بھرا ہوا تھا۔ ابھی معبد کچھ سمجھ پاتے، کہ وہ خاتون خود تشریف لائی اور دسترخوان پر براجمان ہو گئی۔ پھر جو کچھ ہوا وہ معبد کے لیے بالکل غیر متوقع اور حیران کن تھا۔

اس خاتون نے بلا جھجک، بغیر کسی شرم و حیا کے، وہ سارا کھانا کھا لیا! جی ہاں، سارا کھانا، جیسے وہ کئی دنوں کی بھوکی ہو۔ اور یہیں پر بات ختم نہیں ہوئی۔ کھانے کے بعد اس نے ایک مشکیزہ منگوایا جو خالص دودھ سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ اور پھر، اس نے وہ سارا مشکیزہ بھی پی ڈالا، یہاں تک کہ دودھ اس کے چہرے پر بہنے لگا۔ اس منظر نے یقیناً معبد کو شش و پنج میں ڈال دیا ہوگا کہ یہ کیسی خاتون ہے

خود اعتمادی کا مظاہرہ: “میں بنو اسد کی شیرنی ہوں

جب یہ حیرت انگیز دسترخوان اور دودھ نوشی کا عمل مکمل ہوا، تو خاتون نے اپنی خادمہ کو حکم دیا: “پردے ہٹا دو!” معبد کو یقیناً اس لمحے تجسس نے گھیر لیا ہوگا کہ پردے کے پیچھے یہ کیسی شخصیت چھپی ہوئی ہے۔ جب پردے ہٹے تو معبد نے دیکھا کہ وہ ایک انتہائی حسین و جمیل عورت تھی، جس کی خوبصورتی اس کے غیر معمولی انداز سے بھی کہیں زیادہ تھی۔

لیکن اس کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو ابھی سامنے آنا باقی تھا۔ وہ خوبصورت خاتون ایک شیر کی کھال پر بیٹھی تھی! یہ منظر اپنے آپ میں بہت سے معنی سموئے ہوئے تھا۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور معبد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

“اے اللہ کے بندے! میں بنو اسد کی شیرنی ہوں اور شیر کی کھال پر بیٹھی ہوں۔ یہ میرا کھانا پینا ہے، جو تم نے ابھی دیکھا۔ اگر تم مجھے پسند کرتے ہو تو آگے بڑھو اور نکاح کی بات کرو، اور اگر پسند نہیں کرتے تو پیچھے ہٹ جاؤ

“استخارے” کا بہانہ اور فرار

یہ الفاظ، یہ انداز، اور یہ غیر معمولی خود اعتمادی! معبد بن خالد، جو یقیناً ایک شریف اور سنجیدہ شخص رہے ہوں گے، اس صورتحال سے مکمل طور پر چکرا گئے ہوں گے۔ ایک ایسی عورت جس نے بلا جھجک اتنا کھایا اور پیا، اور پھر خود کو شیرنی قرار دے کر ایک شیر کی کھال پر بیٹھی، اور یہ سب کچھ اتنے کھلے اور بے باک انداز میں کہہ دیا – یہ سب ان کے لیے ہضم کرنا مشکل تھا۔

ظاہر ہے کہ معبد کے پاس اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی فوری راستہ نہیں تھا، اور وہ اس “شیرنی” کی بھوک اور اس کے دبدبے سے قدرے خائف ہو گئے تھے۔ انہوں نے فوراً ایک پرانا اور آزمایا ہوا بہانہ اختیار کیا، جو آج بھی بہت مقبول ہے

“میں استخارہ کروں گا اور سوچ و بچار کروں گا، پھر آؤں گا۔”

اور اس کے بعد معبد بن خالد الجدلی وہاں سے ایسے نکلے کہ پھر کبھی اس دروازے پر دوبارہ نہیں گئے۔ انہوں نے گویا اس شیرنی سے چھٹکارا پایا اور شاید زندگی بھر اس عجیب و غریب تجربے کو یاد رکھا ہوگا۔

قدیم روایت اور عصری تعلق

یہ دلچسپ واقعہ، جو امام ابن عبد ربہ کی مشہور کتاب “العقد الفرید” میں مذکور ہے، ہمیں کئی اہم سبق دیتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ انسانی فطرت اور سماجی رویے وقت کے ساتھ کم ہی بدلتے ہیں۔ کسی رشتے سے انکار کرنے کے لیے “استخارے کا بہانہ” یا “سوچ بچار” کا جملہ آج بھی اتنا ہی عام ہے جتنا تابعین کے دور میں تھا۔ یہ ایک غیر متصادم اور شریفانہ طریقہ ہے جس سے کوئی بھی فریق دوسرے کو ناراض کیے بغیر انکار کر سکتا ہے۔

دوسرا سبق یہ کہ پرانے زمانے میں بھی لوگ مزاح اور ظرافت کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے تھے۔ یہ واقعہ ایک خاص قسم کا مزاح پیش کرتا ہے، جہاں ایک خاتون نے اپنی شخصیت کو اس طرح پیش کیا کہ دوسرا فریق خود ہی میدان چھوڑنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ کہانی آج بھی ہمیں مسکرانے پر مجبور کرتی ہے اور اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ انسان شروع سے ہی اپنی بات کو دلچسپ اور بعض اوقات مزاحیہ انداز میں پیش کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔

لہٰذا، جب اگلی بار آپ کسی کو “استخارے کا بہانہ” بناتے دیکھیں، تو یاد رکھیے گا کہ یہ آج کی ایجاد نہیں بلکہ کئی صدیوں سے چلی آ رہی ایک مؤثر حکمت عملی ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ کچھ چیزیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں


!ہاروت و ماروت کون تھے

سورة الواقعة

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *