داؤد علیہ السلام کی فتح
قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ قصہ بنی اسرائیل کی ایک قوم کے بارے میں ہے جو اپنے دور کے ایک جابر بادشاہ جالوت کے ظلم و ستم سے تنگ آ چکی تھی۔
یہ واقعہ قرآنِ کریم کی سورۃ البقرہ کی آیات 246 سے 251 میں تفصیل سے بیان ہوا ہے اور اس میں کئی سبق پوشیدہ ہیں۔
پس منظر: مظلومیت سے نجات کی پکار
بنی اسرائیل اپنے نبی (اکثر مفسرین کے مطابق یہ نبی حضرت سموئیل علیہ السلام تھے) کے پاس آئے اور جالوت کے ظلم سے نجات دلانے اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت و آزادی واپس حاصل کرنے کے لیے ایک بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی۔ جیسا کہ قرآن میں ہے
آیت 246
“أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
ترجمہ: “کیا تم نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں کو نہیں دیکھا، جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں؟ نبی نے کہا: ‘کیا ایسا تو نہیں ہوگا کہ اگر تم پر جہاد فرض کیا جائے تو تم جہاد نہ کرو؟’
وہ بولے: ‘ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں جبکہ ہمیں ہمارے گھروں سے نکالا گیا اور ہمارے بچوں سے جدا کیا گیا؟’ پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے تھوڑے ہی لوگوں کے سوا سب پھر گئے، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔”
اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے جہاد کا عزم ظاہر کیا لیکن نبی نے ان کے ارادوں میں کمزوری کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا۔
طالوت کا انتخاب اور اعتراضات
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی درخواست پر ان کے نبی کے ذریعے طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا۔ طالوت بنیامین کے قبیلے سے تھے، جو شاہی خاندان نہ تھا اور نہ ہی وہ دولت مند تھے۔ اس پر بنی اسرائیل نے اعتراضات اٹھائے۔
آیت 247
“وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ: “اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ اسے ہم پر بادشاہت کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ حالانکہ ہم اس سے زیادہ بادشاہت کے حقدار ہیں اور اسے مال و دولت میں بھی کشادگی نہیں دی گئی۔
نبی نے کہا: ‘اللہ نے اسے تم پر چنا ہے اور اسے علم و جسم میں زیادہ وسعت دی ہے، اور اللہ اپنی بادشاہت جسے چاہے دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا جاننے والا ہے۔'”
یہاں اللہ تعالیٰ نے واضح کیا کہ قیادت کے لیے دولت یا خاندانی نسب نہیں بلکہ علم اور جسمانی قوت (یعنی حکمت اور قیادت کی صلاحیت) زیادہ اہم ہے۔
تابوتِ سکینہ کی واپسی: ایک نشانی
طالوت کی بادشاہت کی ایک نشانی کے طور پر تابوتِ سکینہ (وہ صندوق جس میں حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کے کچھ تبرکات اور الواحِ تورات تھیں) کی واپسی ہوئی۔ یہ تابوت ایک جنگ میں دشمن (عامل قوم) کے ہاتھ لگ گیا تھا، اور اس کی واپسی بنی اسرائیل کے لیے بڑی خوشخبری اور طالوت کی سچائی کی دلیل تھی۔
آیت 248
“وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ”
ترجمہ: “اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اس کی بادشاہت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ تابوت آ جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینہ (تسلی) ہے اور موسیٰ و ہارون کے خاندان کے چھوڑے ہوئے کچھ بقیہ آثار ہیں، جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ بے شک اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔”
یہ تابوت کی واپسی بنی اسرائیل کے لیے ایک روحانی تقویت کا باعث بنی۔
آزمائش: دریا کا امتحان
جنگ کے لیے روانگی کے دوران، طالوت نے اپنی فوج کی وفاداری اور صبر کا امتحان لیا۔ یہ امتحان پانی کے ذریعے لیا گیا تاکہ کمزور ایمان والوں کو چھانٹا جا سکے۔
آیت 249
“فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
ترجمہ: “پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر نکلا تو اس نے کہا: ‘یقیناً اللہ تمہیں ایک نہر کے ذریعے آزمائے گا۔ پس جس نے اس سے پیا وہ مجھ سے نہیں، اور جس نے اسے نہ چکھا وہ مجھ سے ہے، سوائے اس کے جو ایک چلو اپنے ہاتھ سے بھر لے۔’ پس ان میں سے تھوڑے ہی لوگوں کے سوا سب نے اس سے پی لیا۔
پھر جب وہ اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے اس نہر سے پار ہو گئے تو وہ کہنے لگے: ‘آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔’ ان لوگوں نے کہا جنہیں یقین تھا کہ وہ اللہ سے ملنے والے ہیں کہ: ‘کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔'”
اس امتحان میں اکثریت ناکام ہو گئی، اور صرف چند سو مخلص و باہمت افراد باقی بچے (تاریخی روایات کے مطابق 313، جو غزوہ بدر کے مجاہدین کی تعداد کے برابر ہے)۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کثرتِ تعداد نہیں بلکہ کیفیت اور ایمان کی مضبوطی اصل کامیابی کی کنجی ہے۔
داؤد علیہ السلام کی فتح اور نبوت
جالوت کے عظیم الشان اور طاقتور لشکر کے سامنے طالوت کی قلیل فوج گھبرا گئی۔ ایسے میں حضرت داؤد علیہ السلام، جو اس وقت ایک نوجوان اور چرواہے تھے، میدان میں آئے۔ انہوں نے اپنی غلیل سے جالوت کو قتل کر کے اللہ کی مدد سے عظیم الشان فتح حاصل کی۔
آیت 250
“وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ”
ترجمہ: “اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے میں آئے تو کہنے لگے: ‘اے ہمارے رب! ہم پر صبر اُنڈیل دے، اور ہمارے قدم مضبوط کر دے، اور ہمیں کافر قوم پر فتح عطا کر۔'”
آیت 251
“فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ”
ترجمہ: “پھر انہوں نے انہیں اللہ کے حکم سے شکست دی، اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا۔ اور اللہ نے اسے (داؤد کو) بادشاہت اور حکمت عطا فرمائی، اور اسے وہ کچھ سکھایا جو چاہا۔ اور اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا، لیکن اللہ جہانوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔”
اس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نبوت اور بادشاہت دونوں سے سرفراز فرمایا، جیسا کہ اس آیت میں ذکر ہے۔
احادیث سے تائید
اگرچہ یہ واقعہ براہ راست کسی مشہور حدیث میں تفصیل سے بیان نہیں ہوا، تاہم قرآن میں اس کا ذکر ہی اس کی سچائی اور اہمیت کے لیے کافی ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں صبر، توکل، اور اللہ پر بھروسے کی فضیلت کو بار بار بیان کیا گیا ہے، جو اس واقعے کا مرکزی پیغام ہے۔ مثال کے طور پر
صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے: “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘مضبوط آدمی وہ نہیں جو کشتی میں غالب آ جائے، بلکہ مضبوط آدمی وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔'” (یہ حدیث استقامت اور نفس پر قابو کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے جو دریا کے امتحان سے بھی ملتی جلتی ہے)۔
احادیث میں ایمان کی قوت کو ظاہری طاقت پر ترجیح دی گئی ہے۔ کئی مقامات پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ طاقت تعداد میں نہیں بلکہ ایمان اور توکل میں ہوتی ہے، جو داؤد علیہ السلام کی مثال سے ثابت ہوتا ہے۔
سبق اور حکمت
یہ واقعہ ہمیں کئی اہم اسباق سکھاتا ہے
قیادت کا معیار: ظاہری مال و دولت یا خاندانی نسب نہیں بلکہ علم، حکمت، اور جسمانی طاقت (قیادت کی صلاحیت) ہی اصل معیار ہے۔
ایمان کی قوت: کثرتِ تعداد سے زیادہ ایمان کی مضبوطی اور اللہ پر توکل اہم ہے۔ قلیل جماعتیں بھی اللہ کی مدد سے بڑی طاقتوں پر غالب آ سکتی ہیں۔
صبر و استقامت: آزمائشوں میں ثابت قدم رہنا اور اللہ کے حکم کی اطاعت کرنا کامیابی کا راستہ ہے۔
اللہ کی تقدیر: ہر چیز اللہ کے حکم سے ہوتی ہے، اور وہ جسے چاہے عزت و بادشاہت عطا فرماتا ہے۔
فساد کا خاتمہ: اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے دفع کر کے زمین کو فساد سے بچاتا ہے، جو اس کے فضل کا ایک حصہ ہے۔