وہم کی رسیاں اور گدھے کی آزادی
ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک کسان کے پاس بہت سمجھدار گدھا تھا۔ اتنا سمجھدار کہ اگر آپ اسے اشارہ بھی کرتے تو وہ سمجھ جاتا۔ ایک دن کسان کو اپنا گدھا گھر کے سامنے باندھنا تھا، لیکن اس کے پاس رسی نہیں تھی۔ اب کیا کیا جائے؟
پریشان ہو کر کسان اپنے پڑوسی کے پاس پہنچا اور رسی مانگی۔ پڑوسی مسکرایا اور بولا: “رسی تو نہیں ہے میرے پاس، پر ایک ایسی ترکیب ہے کہ تم حیران رہ جاؤ گے!” کسان کا تجسس بڑھ گیا۔ پڑوسی نے کہا: “تم بس گدھے کے پاس جاؤ اور ویسے ہی اداکاری کرو جیسے تم اسے رسی سے باندھ رہے ہو۔ یقین مانو، وہ ٹس سے مس نہیں ہوگا!”
کسان حیران تھا، مگر پڑوسی کی بات پر یقین کرتے ہوئے اس نے بالکل ویسا ہی کیا۔ اس نے گدھے کے گرد رسی لپیٹنے کا ڈرامہ رچایا، جیسے ایک کھونٹے سے باندھ رہا ہو۔ اور آپ جانتے ہیں کیا ہوا؟ گدھا واقعی ایک بت کی طرح وہیں کھڑا رہا! کسان خوشی خوشی گھر گیا اور آرام سے سو گیا۔ “واہ! کیا لاجواب ترکیب ہے!” اس نے سوچا۔
اگلے دن، کسان کو بازار جانا تھا۔ اس نے گدھے کو ہانکنا شروع کیا، “چل میرے گدھے، چل!” لیکن گدھا ہلنے کو تیار ہی نہیں! کسان نے بہت زور لگایا، کھینچا، یہاں تک کہ پیار سے تھپتھپایا بھی، لیکن گدھا اپنی جگہ سے ذرا بھی نہ ہلا۔
غصے اور حیرانی کے عالم میں کسان بھاگا بھاگا پڑوسی کے پاس گیا۔ “یار! تیری ترکیب نے باندھ تو دیا، مگر یہ اب چلتا کیوں نہیں؟”
پڑوسی پھر مسکرایا اور بڑی سادگی سے پوچھا: “کیا تم نے اسے کھولا تھا؟”
کسان حیرت سے بولا: “کون سی رسی؟ وہ تو میں نے بس اداکاری کی تھی!”

پڑوسی نے سر ہلایا اور معنی خیز نظروں سے کسان کی طرف دیکھا: “تمہارے لیے وہ اداکاری تھی میرے دوست، مگر گدھے کے لیے وہ اصلی رسی تھی! جب تک تم اسے کھولنے کی اداکاری نہیں کرو گے، وہ خود کو بندھا ہوا ہی سمجھے گا۔”
کسان کو بات سمجھ آ گئی۔ وہ واپس گیا اور گدھے کے پاس جا کر رسی کھولنے کا سارا ڈرامہ رچایا۔ اور بس! جیسے ہی اس نے رسی کھولنے کی اداکاری مکمل کی، گدھا اطمینان سے اٹھا اور چل پڑا۔
وہم پر اشعار
وہم کی کالی گھٹا نظروں سے ہٹتی ہی نہیں
دُھند ایسی دل پہ چھائی ہے کہ چھٹتی ہی نہیں
آنکھ بھر ہی آسماں ہے دل کی دُنیا کا مگر
اتنی وُسعت ہے کہ نظروں میں سمٹتی ہی نہیں
ہے دلِ عابد کی ہر اٹھتی صدا میں انتشار
جائے گنبد میں نظر کے تو پلٹتی ہی نہیں
صبح کے ہر در سے اژدر یاس کا لپٹا ملے
رات اس مارِ سیہ کے ساتھ کٹتی ہی نہیں
میں لُڑھکتا ہی چلوں کون و مکاں کی کھائی میں
ایسی گردش شش جہت کی ہے کہ گھٹتی ہی نہیں
میں ہوں یاور اپنی فطرت میں اجالوں کا سفیر
دھول مجھ سے دشتِ ظلمت کی لپٹتی ہی نہیں
📌 سبق؟
ہم گدھے پر ہنستے ہیں، مگر کیا ہم خود اس سے مختلف ہیں؟ ہماری گردنوں میں بھی ایسی بہت سی “رسیاں” پڑی ہوئی ہیں جو نظر نہیں آتیں
لوگ کیا کہیں گے؟” — یہ وہ رسی ہے جو ہمیں اپنے خوابوں سے دور رکھتی ہے۔
خاندان کا نام خراب نہ ہو!” — یہ وہ گرہ ہے جو ہمیں اپنی مرضی سے جینے نہیں دیتی۔
یہ بد شگونی ہے!” — یہ وہ وہم ہے جو ہمیں نئے تجربات سے روکتا ہے۔
یہ رسم ہے، نبھانی پڑتی ہے!” — یہ وہ زنجیر ہے جو ہمیں فرسودہ روایات میں جکڑے رکھتی ہے۔
فلاں لیڈر کے بغیر تو کچھ نہیں ہوگا!” — یہ وہ اندھا یقین ہے جو ہمیں اپنے فیصلے خود لینے سے روکتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کوئی رسی نہیں ہے، نہ کوئی کھونٹا! یہ سب ہمارے وہم ہیں، خوف ہیں اور ذہنی غلامی ہے۔ ہم بھی اس گدھے کی طرح انہی ان دِکھتی رسیوں سے بندھے کھڑے ہیں۔
وقت آگیا ہے، دوستو! ان خود ساختہ رسیوں کو کھولنے کی اداکاری نہیں، بلکہ انہیں سچ میں کھولنے کا وقت ہے
اپنے ذہن کی گٹھنوں کو آزاد کریں اور دیکھیں کہ زندگی کتنی وسیع اور خوبصورت ہے۔